اعتراض: حضورﷺ کے زمانے میں مؤلفۃ القلوب کو صدقات کی مد سے امداد دی جاتی تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں اسے ختم کر دیا۔
جواب: اسے اگر کوئی شخص فیصلوں میں رد وبدل کی مثال سمجھتا ہے تو اسے دعویٰ یہ کرنا چاہیے کہ حضورﷺ کے نہیں، بلکہ خود اللّٰہ تعالیٰ کے فیصلوں میں بھی مرکزِ ملت صاحب ردّ وبدل کر سکتے ہیں۔ اس لیے کہ صدقات میں مؤلفۃ القلوب کا حصہ حضورﷺ نے کسی حدیث میں نہیں، بلکہ اللّٰہ تعالیٰ نے خود قرآن میں مقرر فرمایا ہے۔(ملاحظہ ہو: سورۂ توبہ آیت:۶۰)
ڈوبتے وقت تنکے کا سہارا لینے کی کیفیت اگر منکرین حدیث پر طاری نہ ہو، اور وہ اس معاملے کی حقیقت سمجھنا چاہیں تو خود لفظ ’’مؤلفۃ القلوب‘‘ پر تھوڑا سا غور کرکے اسے خود سمجھ سکتے ہیں۔ یہ لفظ آپ ہی اپنا مفہوم ظاہر کر رہا ہے کہ صدقات میں سے ان لوگوں کو بھی روپیہ دیا جا سکتا ہے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔ حضرت عمرؓ کا استدلال یہ تھا کہ حضورﷺ کے زمانے میں اِسلامی حکومت کو تالیفِ قلب کے لیے مال دینے کی ضرورت تھی اس لیے حضورﷺ اس مد سے لوگوں کو دیا کرتے تھے۔ اب ہماری حکومت اتنی طاقتور ہو گئی ہے کہ ہمیں اس غرض کے لیے کسی کو روپیہ دینے کی حاجت نہیں ہے۔ لہٰذا ہم اس مد میں کوئی روپیہ صَرف نہیں کریں گے۔ کیا اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے نبی ﷺ کے عہد کا کوئی فیصلہ بدل ڈالا؟ کیا واقعی حضورﷺ کا فیصلہ یہی تھا کہ تالیفِ قلب کی حاجت ہو یا نہ ہو، بہرحال کچھ لوگوں کو ضرور مؤلفۃ القلوب قرار دیا جائے اور صدقات میں سے ہمیشہ ہمیشہ ان کا حصہ نکالا جاتا رہے؟ کیا خود قرآن مجید میں اللّٰہ تعالیٰ نے بھی یہ لازم قرار دیا ہے کہ صدقات کا ایک حصہ تالیفِ قلب کی مد پر ہر حال میں ضرور ہی خرچ کیا جائے؟