اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ میں کوئی مثال پیش کروں کہ رسول اللّٰہ ﷺ کے زمانے کے کسی فیصلے کو خلفائے راشدین نے بدلا ہو۔ اس سے تو آپ بھی انکار نہیں کریں گے کہ نبی اکرمﷺ کے زمانے میں ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقوں کو ایک شمار کرکے طلاق رجعی قرار دیا جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانے میں اسے تین شمار کرکے طلاق مغلظہ قرار دے دیا اور فقہ کی رو سے امت آج تک اسی پر عمل کر رہی ہے۔
جواب: اس معاملے میں صحیح پوزیشن یہ ہے کہ حضورﷺ کے زمانے میں بھی تین طلاق تین ہی سمجھی جاتی تھیں اور متعدد مقامات پر حضورﷺ نے ان کو تین ہی شمار کرکے فیصلہ دیا ہے لیکن جو شخص تین مرتبہ طلاق کا الگ الگ تلفظ کرتا تھا اس کی طرف سے اگر یہ عذر پیش کیا جاتا کہ اس کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور باقی دو مرتبہ اس نے یہ لفظ محض تاکیداً استعمال کیا تھا۔ اس کے عذر کو حضورﷺ قبول فرما لیتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے عہد میں جو کچھ کیا، وہ صرف یہ ہے کہ جب لوگ کثرت سے تین طلاقیں دے کر ایک طلاق کی نیت کا عذر پیش کرنے لگے تو انھوں نے فرمایا کہ اب یہ طلاق کا معاملہ کھیل بنتا جا رہا ہے اس لیے ہم اس عذر کو قبول نہیں کریں گے اور تین طلاقوں کو تین ہی کی حیثیت سے نافذ کر دیں گے۔ اس کو تمام صحابہؓ نے بالاتفاق قبول کیا اور بعد میں تابعین وائمہ مجتہدین بھی اس پر متفق رہے۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ حضرت عمرؓ نے عہد رسالت کے قانون میں یہ کوئی ترمیم کی ہے۔ اس لیے کہ نیت کے عذر کو قبول کرنا قانون نہیں ہے بلکہ اس کا انحصار قاضی کی اس رائے پر ہے کہ جو شخص اپنی نیت بیان کر رہا ہے، وہ صادق القول ہے۔ حضورﷺ کے زمانے میں اس طرح کا عذر مدینہ طیبہ کے اکا دکا جانے پہچانے آدمیوں نے کیا تھا۔ اس لیے حضورﷺ نے ان کو راست باز آدمی سمجھ کر ان کی بات قبول کر لی۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایران سے مصر تک اور یمن سے شام تک پھیلی ہوئی سلطنت کے ہر شخص کا یہ عذر عدالتوں میں لازمًا قابل تسلیم نہیں ہو سکتا تھا، خصوصاً جب کہ بکثرت لوگوں نے تین طلاق دے کر ایک طلاق کی نیت کا دعوٰی کرنا شروع کر دیا ہو۔