اعتراض: آپ نے ترجمان القرآن کے متعدد اوراق اس بحث میں ضائع کر دیے کہ حضور ﷺ کو اِسلامی ریاست کا صدر یا مسلمانوں کا لیڈر یا قاضی اور جج کس نے بنایا تھا۔ خدا نے یا مسلمانوں نے انتخاب کے ذریعے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس بحث سے بالآخر آپ کا مقصد کیا تھا؟ رسول اللّٰہ ﷺ نے قرآن کریم کی ہدایات کے مطابق ایک اِسلامی مملکت قائم کی۔ ایک بچہ بھی اس بات کو سمجھ لے گا کہ اس مملکت کا اولین سربراہ اور مسلمانوں کا راہ نُما اور تمام معاملات کے فیصلے کرنے کی آخری اتھارٹی جس کے فیصلوں کی کہیں اپیل نہ ہو سکے۔ رسول اللّٰہ ﷺ کے سوا اور کون ہو سکتا تھا؟
جواب: جس سوال کو ایک فضول اورلایعنی سوال قرار دے کر اس کا سامنا کرنے سے اس طرح گریز کیا جا رہا ہے وہ دراصل اس بحث کا ایک فیصلہ کن سوال ہے۔ اگر نبی ﷺ اللّٰہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرماں روا، قاضی اور راہ نُما تھے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ حضورﷺ کے فیصلے اور آپﷺ کی تعلیمات و ہدایات اور آپﷺ کے احکام من جانب اللّٰہ تھے اور اس بِنا پر لازمًا وہ اِسلام میں سند وحجت ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص حضورﷺ کی ان چیزوں کو سند وحجت نہیں مانتا تو اسے دو باتوں میں سے ایک بات لامحالہ کہنی پڑے گی۔ یا تو وہ یہ کہے کہ حضور ﷺ خود فرماں روا اور قاضی اور راہ نُما بن بیٹھے تھے یا پھر یہ کہے کہ مسلمانوں نے آپﷺ کو ان مناصب کے لیے اپنی مرضی سے منتخب کیا تھا اور وہ حضور ﷺ کی موجودگی میں آپ کے بجائے کسی اور کو بھی منتخب کر لینے کے مجاز تھے اور ان کو یہ بھی حق تھا کہ آپ کو معزول کر دیتے۔ منکرینِ حدیث پہلی بات ماننا نہیں چاہتے، کیوں کہ اس کو مان لیں تو ان کے مسلک کی جڑ کٹ جاتی ہے لیکن دوسری دونوں باتوں میں سے کسی بات کو بھی صاف صاف کہہ دینے کی ان میں ہمت نہیں ہے کیوں کہ اس کے بعد اس دامِ فریب کا تار تار الگ ہو جائے گا جس میں وہ مسلمانوں کو پھانسنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے یہ حضرات اس سوال سے بچ کر بھاگ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ناظرین! براہ کرم اس کتاب میں ’’مرکزِ ملت‘‘ کی بحث ملاحظہ فرما لیں اور پھر دیکھیں کہ میرے اُٹھائے ہوئے سوالات سے بچ کر کس طرح راہِ گریز اختیار کی جا رہی ہے۔