اعتراض: آپ فرماتے ہیں کہ برطانیہ کا آئین تحریری شکل میں موجود نہیں۔ پھر بھی ان کا کام کیسے چل رہا ہے۔ کیا آپ کو اس کا بھی کچھ علم ہے کہ برطانیہ کے آئین میں نت نئے دن کتنی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ان کے ہاں کی پارلیمانی اکثریت جو تبدیلی چاہے، کر سکتی ہے۔ کیا دین کی بھی آپ کے نزدیک یہی حیثیت ہے؟ اگر دین کے آئین کے تحریری نہ ہونے سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا تو قرآن کریم کو کیوں تحریر میں لایا گیا اور اس تحریر کی حفاظت کا ذمہ خدا نے کیوں لیا؟
جواب: یہ ایک اور دل چسپ مغالطہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا نہ کہ اس تحریر کی حفاظت کا جو نبی ﷺ نے اپنے زمانے میں کاتبانِ وحی سے لکھوائی تھی۔ قرآن تو یقینا خدا کے وعدے کے مطابق محفوظ ہے مگر کیا وہ اصل تحریر بھی محفوظ ہے جو حضورﷺ نے لکھوائی تھی؟ اگر وہ منکرین حدیث کے علم میں کہیں ہے تو ضرور اس کی نشاندہی فرمائیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ تمام منکرین حدیث بار بار قرآن کے لکھے جانے اورحدیث کے نہ لکھے جانے پر اپنے دلائل کا دارومدار رکھتے ہیں، لیکن یہ بات کہ حضورﷺ اپنے زمانے میں کاتبان وحی سے ہر نازل شدہ وحی کو لکھوا لیتے تھے، اور اس تحریر سے نقل کرکے حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں قرآن کو ایک مصحف کی شکل میں لکھا گیا اور بعد میں اسی کی نقلیں حضرت عثمانؓنے شائع کیں۔ یہ سب کچھ محض حدیث کی روایات ہی سے دُنیا کو معلوم ہوا ہے۔ قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے، نہ حدیث کی روایات کے سوا اس کی کوئی دوسری شہادت دُنیا میں کہیں موجود ہے۔ اب اگر حدیث کی روایات سرے سے قابل اعتماد ہی نہیں ہیں تو پھر کس دلیل سے آپ دُنیا کو یہ یقین دلائیں گے کہ فی الواقع قرآن حضورﷺ ہی کے زمانے میں لکھا گیا تھا؟