اعتراض: قرآن کے متن سے احکام اخذ کرنے میں اختلاف اس وقت پیدا ہوا جب دین ایک اجتماعی نظام کی جگہ انفرادی چیز بن گیا۔ جب تک دین کا اجتماعی نظام قائم رہا، اس وقت تک اس بات میں امت میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ یا حضرت عمرؓ کے زمانے میں امت کے افراد قرآن کے کسی حکم پر مختلف طریقوں سے عمل پیرا تھے؟ پھر اس قسم کا نظام قائم ہو گا تو پھر تعبیرات کے یہ اختلافات باقی نہیں رہیں گے۔ یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ قرآن کے الفاظ محفوظ رہتے، اگر قرآن کے الفاظ محفوظ نہ ہوتے اور مختلف فرقوں کے پاس احادیث کی طرح قرآن کے بھی الگ الگ مجموعے ہوتے تو امت میں وحدت عملی کا امکان ہی باقی نہ رہتا۔ تاوقتیکہ کوئی دوسرا رسول آ کر وحی کے الفاظ کو محفوظ طور پر انسانوں تک پہنچا دیتا۔
جواب: کسی معاملے کو سمجھے بغیر اس پر تقریر جھاڑنے کی یہ دل چسپ مثال ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں بھی لوگ قرآن مجید کی آیات میں غور وخوض کرتے تھے اور ان کے درمیان فہم وتعبیر کا اختلاف ہوتا تھا مگر اس وقت خلیفۂ راشد اور مجلسِ شورٰی کا بااختیار ادارہ ایسا موجود تھا جسے اقتدار بھی حاصل تھا اور امت کو اس کے علم وتقوٰی پر اعتماد بھی تھا۔ اس ادارے میں بحث وتمحیص کے بعد قرآن کے کسی حکم کی جس تعبیر کے حق میں جمہوری طریقے پر فیصلہ ہو جاتا تھا وہی قانون کی حیثیت سے نافذ ہو جاتی تھی۔ اسی طرح رسول اللّٰہ ﷺ کی سنتوں کے بارے میں بھی اس وقت باقاعدہ تحقیق کی جاتی تھی اور جب یہ اطمینان ہو جاتا تھا کہ کسی مسئلے میں حضور ﷺ نے یہ فیصلہ دیا تھا یا اس طرح عمل کیا تھا، تو اسی کے مطابق فیصلہ کر دیا جاتا تھا۔ آج بھی اگر ایسا کوئی ادارہ موجود ہو تو وہ جس طرح قرآن کی تعبیرات میں سے وہ تعبیر اختیار کرنے کی کوشش کرے گا جو زیادہ سے زیادہ اقرب الی الصواب ہو، اسی طرح وہ احادیث کے مجموعوں میں سے ان سنتوں کو تلاش کر لے گا، جن کا زیادہ سے زیادہ اطمینان بخش ثبوت مل سکے۔