اعتراض:اگر آپ یہ کہیں کہ حدیث پر مبنی اختلافات جزئیات کے معمولی اختلافات ہیں، ان سے دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا تو میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ جن جزئیات کو (بقول آپ کے) خدا کی وحی نے متعین کیا ہو کیا ان میں ذرا سا اختلاف بھی معصیت کا موجب نہیں ہو جاتا۔ مثلاً اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن میں مندرج وحی کے ذریعے حکم دیا کہ وضو میں اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھویا کرو۔ اگر کوئی شخص یا فرقہ اپنے ہاتھ صرف پنجوں تک دھوئے تو کیا آپ کے نزدیک یہ بھی اسی طرح حکم خداوندی کی تعمیل ہو گی جس طرح اس شخص یا فرقے کا عمل جو کہنیوں تک ہاتھ دھوئے، ارشادِ باری تعالیٰ کی تعمیل کہلائے گا؟
جواب: یہ محض ایک سطحی مغالطہ ہے۔ نص کی کھلی کھلی خلاف ورزی کا نام اختلاف نہیں ہے، بلکہ اختلاف اس چیز کا نام ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان یہ بات مختلف فیہ ہو کہ حکم شرعی کیا ہے ۔ اس کی صحیح مثال خود قرآن ہی سے حاضرہے۔ قرآن کی آیت تیمم میں یہ فرمایا گیا ہے کہفَامْسَحُوْا بِوُجُوْہِكُمْ وَاَيْدِيْكُمْ مِّنْہُ۰ۭ ُ المائدہ6:5 ’’اس مٹی سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پرمسح کر لو۔‘‘
اب دیکھیے۔ ایک شخص ’’ہاتھ‘‘ سے مراد پہنچے تک لیتا ہے اور اسی پر مسح کرتا ہے۔ دوسرا کہنی تک لیتا ہے اور وہاں تک ہاتھ پھیرتا ہے اور تیسرا خیال کرتا ہے کہ لفظ ہاتھ کا اطلاق تو شانے تک پورے ہاتھ پر ہوتا ہے اس لیے وہ مسح میں اسے بھی شامل کر لیتا ہے۔ بتائیے اس اختلاف کی گنجائش قرآن کے الفاظ میں ہے یا نہیں؟ پھر کیا یہ اختلاف معصیت کا موجب ہو جاتا ہے؟
منکرین حدیث کچھ عقل سے کام لیتے تو وہ خود دیکھ سکتے تھے کہ سُنّت نے اختلافات کے دائرے کو بہت محدود کر دیا ہے۔ ورنہ اگر سُنّت نہ ہوتی تو قرآن مجید سے احکام اخذ کرنے میں اتنے اختلافات ہوتے کہ دو مسلمان بھی مل کر کوئی اجتماعی عمل نہ کر سکتے۔ مثلاً قرآن بار بار صلوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ اگر سُنّت اس کی شکل اور طریقہ مقرر نہ کر دیتی تو لوگ ہرگز یہ طے نہ کر سکتے کہ اس حکم کی تعمیل کیسے کریں۔ قرآن زکوٰۃ کا حکم دیتا ہے۔ اگر سُنّت نے اس کی تشریح نہ کر دی ہوتی تو کبھی اس امر میں اتفاق نہ ہو سکتا کہ یہ فریضہ کس طرح بجا لایا جائے۔ ایسا ہی معاملہ قرآن کی اکثر وبیش تر ہدایات واحکام کا ہے کہ خدا کی طرف سے ایک بااختیار معلم (ﷺ) نے ان پر عمل درآمد کی شکل بتا کر اور عملًا دکھا کر اختلافات کا سدّباب کر دیا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی اور امت صرف قرآن کو لے کر لغت کی مدد سے کوئی نظام زندگی بنانا چاہتی تو بنیادی امور میں بھی اس حد تک اتفاق رائے حاصل نہ ہو سکتا کہ کوئی مشترک تمدن بن جاتا۔ یہ سُنّت ہی کا طفیل ہے کہ تمام امکانی اختلافات سمٹ کر دُنیائے اِسلام میں آج صرف آٹھ فرقے پائے جاتے ہیں اور ان میں بھی بڑے فرقے صرف پانچ ہیں جن کے اندر کروڑوں مسلمان ایک ایک فقہ پر مجتمع ہو گئے ہیں۔({ FR 6821 }) اسی اجتماع کی بدولت ان کا ایک نظام زندگی بن اور چل رہا ہے لیکن منکرین حدیث سُنّت کے خلاف جو کھیل کھیل رہے ہیں اس میں اگر وہ کامیاب ہو جائیں تو اس کا نتیجہ یہ نہیں ہو گا کہ قرآن کی تفسیر وتعبیر پر سب متفق ہو جائیں گے بلکہ یہ ہو گا کہ جن امور میں آج اتفاق ہے وہ سب بھی اختلافی بن کر رہ جائیں گے۔