اعتراض: اگر وحی منزَّل من اللّٰہ کی دو قسمیں تھیں۔ ایک وحی متلو یا وحی جلی اور دوسری وحی غیر متلو یا وحی خفی، تو کیا یہ چیز رسول اللّٰہ ﷺ کے فریضۂ رسالت میں داخل نہ تھی کہ حضورﷺ وحی کے اس دوسرے حصے کو بھی خود مرتب فرما کر محفوظ شکل میں امت کو دے کر جاتے جس طرح حضور ﷺ نے وحی کے پہلے حصے (قرآن) کو امت کو دیا تھا۔
جواب: منکرین حدیث یہ سوال عموماً بڑے زور شور سے اُٹھاتے ہیں اور اپنے خیال میں اسے بڑا لاجواب سوال سمجھتے ہیں۔ ان کا تصور یہ ہے کہ قرآن چوں کہ لکھوایا گیا تھا اس لیے وہ محفوظ ہے اور حدیث چوں کہ حضور ﷺ نے خود لکھوا کر مرتب نہیں کر دی اس لیے وہ غیرمحفوظ ہے لیکن میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر حضورﷺ نے قرآن مجید کو محض لکھوا کر چھوڑ دیا ہوتا اور ہزاروں آدمیوں نے اسے یاد کر کے بعد کی نسلوں کو زبانی نہ پہنچایا ہوتا تو کیا محض وہ لکھی ہوئی دستاویز بعد کے لوگوں کے لیے اس بات کا قطعی ثبوت ہو سکتی تھی کہ یہ وہی قرآن ہے جو حضورﷺ نے لکھوایا تھا؟ وہ تو خود محتاجِ ثبوت ہوتی، کیوں کہ جب تک کچھ لوگ اس بات کی شہادت دینے والے نہ ہوتے کہ یہ کتاب ہمارے سامنے نبی ﷺ نے لکھوائی تھی، اس وقت تک اس لکھی ہوئی کتاب کا معتبر ہونا مشتبہ رہتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تحریر پر کسی چیز کے معتبر ہونے کا دارومدار نہیں ہے، بلکہ وہ اسی وقت معتبر ہوتی ہے جب کہ زندہ انسان اس کے شاہد ہوں۔ اب اگر فرض کیجیے کہ کسی معاملے کے متعلق تحریر موجود نہیں ہے مگر زندہ انسان اس کے شاہد موجود ہیں، تو کسی قانون دان سے پوچھ لیجیے کیا ان زندہ انسانوں کی شہادت ساقط الاعتبار ہو گی جب تک کہ تائید میں ایک دستاویز نہ پیش کی جائے؟ شاید آپ کو قانون کا علم رکھنے والا ایک شخص بھی ایسا نہ ملے گا جو اس سوال کا جواب اثبات میں دے۔ آج نبی ﷺ کا لکھوایا ہوا قرآن مجید دُنیا میں کہیں موجود نہیں ہے، مگر اس سے قرآن کے مستند ومعتبر ہونے پر ذرّہ برابر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیوں کہ متواتر اور مسلسل زبانی روایت سے اس کا معتبر ہونا ثابت ہے۔ خود یہ بات کہ حضور ﷺ نے قرآن لکھوایا تھا، روایات ہی کی بِنا پر تسلیم کی جا رہی ہے، ورنہ اصل دستاویز اس دعوے کے ثبوت میں پیش نہیں کی جا سکتی، اور وہ کہیں مل بھی جائے تو یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ یہ وہی صحیفے ہیں جو حضور ﷺ نے لکھوائے تھے۔ لہٰذا تحریر پر جتنا زور یہ حضرات دیتے ہیں وہ بالکل غلط ہے۔ نبی ﷺ نے اپنی سنتوں پر قائم کیا ہوا ایک پورا معاشرہ چھوڑا تھا جس کی زندگی کے ہر پہلو پر آپ کی تعلیم وہدایات کا ٹھپا لگا ہوا تھا۔ اس معاشرے میں آپﷺ کی باتیں سنے ہوئے، آپﷺ کے کام دیکھے ہوئے اور آپﷺ کے زیر ہدایات تربیت پائے ہوئے ہزاروں لوگ موجود تھے۔ اس معاشرے نے بعد کی نسلوں تک وہ سارے نقوش منتقل کیے اور ان سے وہ نسلًا بعد نسلٍ ہم کو پہنچے۔ دُنیا کے کسی مُسَلّم اصولِ شہادت کی رو سے بھی یہ شہادت رد نہیں کی جا سکتی۔ پھر یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ یہ نقوش کاغذ پر ثبت نہیں کیے گئے۔ انھیں ثبت کرنے کا سلسلہ حضورﷺ کے زمانے میں شروع ہوچکا تھا۔ پہلی صدی ہجری میں اس کا خاص اہتمام کیا گیا اور دوسری صدی کے محدثین زندہ شہادتوں اور تحریری شہادتوں، دونوں کی مدد سے اس پورے نقشے کو ضبط تحریر میں لے آئے۔