اعتراض: اگر حضور ﷺ کی پیغمبرانہ حیثیت اور شخصی حیثیت میں فرق کیا جائے تو لازمًا اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں فرق کون کرے گا؟ اگر آیندہ اس کے لیے امت کو اہل علم کی طرف رجوع کرنا ہو گا تو اہل علم میں باہمی سخت اختلافات ہیں۔ ان میں سے کس کی تحقیق کو صحیح مانا جائے اور کسے غلط؟ یہ پوزیشن کس قدر کم زور ہے۔ اس کا خود آپ کو بھی اعتراف ہے۔ چنانچہ آپ نے لکھا ہے:
احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمانِ صحت ہے نہ کہ علم یقین، اور ظاہر ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس خطرے میں ڈالنا ہرگز پسند نہیں کر سکتا کہ جو امور اس کے دین میں اس قدر اہم ہوں کہ ان سے کفر اور ایمان کا فرق واقع ہوتا ہو، انھیں صرف چند انسانوں کی روایت پر منحصر کر دیا جائے۔ ایسے امور کی تو نوعیت ہی اس امر کی متقاضی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان کو صاف صاف اپنی کتاب میں بیان فرمائے۔ اللّٰہ کا رسول انھیں اپنے پیغمبرانہ مشن کا اصل کام سمجھتے ہوئے ان کی تبلیغ عام کرے اور و ہ بالکل غیر مشتبہ طریقے سے ہر مسلمان تک پہنچا دیے گئے ہوں۔ (رسائل ومسائل حصہ اوّل :ص ۴۰)
جواب: دراصل یہ سوال نافہمی پر مبنی ہے کہ آں حضور ﷺ کی حیثیتِ نبوی اور حیثیتِ شخصی میں فرق کون کرے گا؟ نبی ﷺ نے جو اصولِ شریعت ہم کو دیے ہیں ان کی بِنا پر یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ہے کہ حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں سے کیا چیز حضور ﷺ کی شخصی حیثیت سے تعلق رکھتی ہے اور کیا چیز آپ کی نبوی حیثیت سے متعلق ہے، بشرطیکہ جو شخص اس بارے میں رائے قائم کرنے بیٹھے، اس نے قرآن اور سُنّت اور فقہ اِسلامی کے اصول وفروع کا مطالعہ کرنے میں، اپنی زندگی کا کوئی حصہ صرف کیا ہو۔ یہ کام بہرحال عامیوں کے کرنے کا نہیں ہے۔ رہے اہل علم کے اختلافات، تو معلوم ہونا چاہیے کہ اہل علم جب کبھی کسی چیز کو سُنّت قرار دینے یا نہ قرار دینے میں اختلاف کریں گے، لامحالہ ان میں سے ہر ایک اپنی دلیل دے گا۔ یوں ہی اٹھ کر ایک دعوٰی نہیں کر دے گا۔ اسے یہ بتانا ہو گا کہ اصولِ شریعت میں سے کس قاعدے یا ضابطے کی بِنا پر وہ کسی چیز کو سُنّت قرار دے رہا ہے یا اس کے سُنّت ہونے سے انکار کر رہا ہے۔ اس صورت میں جو وزنی بات ہو گی وہی ٹھیر سکے گی اور جو بات بھی ٹھیرے گی اس کے متعلق سب اہل علم کو معلوم ہو گا کہ وہ کن دلائل کی بِنا پر ٹھیری ہے۔ اس نوعیت کے اختلافات اگر باقی بھی رہ جائیں تو وہ کوئی گھبرانے کے قابل چیزیں نہیں ہیں۔ انھیں خواہ مخواہ ایک ہوا بنانے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔
رہی میری وہ عبارت جو رسائل ومسائل سے نقل کی گئی ہے، تو اس کا مفہوم اس کے الفاظ ہی سے ظاہر ہے۔ تعجب ہے کہ اسے سمجھنے کی ذرہ برابر کوشش نہیں کی گئی اور خلطِ مبحث کے لیے اسے یہاں نقل کر دیا گیا۔ اس عبارت میں تو بحث اس بات پر کی گئی ہے کہ جن عقائد پر کسی شخص کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا مدار ہے، ان کے ثبوت کے لیے محض اخبارِ آحاد کافی نہیں ہیں۔ ان کے لیے یا تو قرآن سے ثبوت ملنا چاہیے، یا متواتر روایات سے، یا کم از کم ایسی روایات سے جو متواتر المعنی ہوں، یعنی بکثرت مختلف راویوں کے بیانات متفقہ طور پر یہ بتاتے ہیں کہ حضور ﷺ فلاں عقیدے کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ جزئی وفروعی احکام کے ثبوت کے لیے تو اخبارِ آحاد بھی کافی ہو سکتے ہیں جب کہ وہ صحیح سند سے مروی ہوں، لیکن کفر وایمان کا فیصلہ کرنے والے امور کے لیے بہت زیادہ قوی شہادت کی ضرورت ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ قتل کے مقدمے میں ایک شخص کو پھانسی پر چڑھا دینے کے لیے بہت زیادہ مضبوط قرائن وشواہد درکار ہوتے ہیں۔ بخلاف اس کے کہ ایک کم درجے کے معاملے کا فیصلہ کم تر درجے کی شہادتوں پر بھی کیا جا سکتا ہے۔