اعتراض: جن باتوں کے متعلق آپ تسلیم کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے انھیں بحیثیت رسولﷺ ارشاد فرمایا یا کیا تھا، ان کے اتباع میں بھی پہلے آپ نے فرق کیا ہے۔ چنانچہ آپ نے تفہیمات حصہ اوّل، ص ۲۷۹ پر لکھا ہے:
جو امور براہِ راست دین اور شریعت سے تعلق رکھتے ہیں ان میں تو حضور ﷺ کے ارشادات کی اطاعت اور آپ کے عمل کی پیروی طابق النعل بالنعل کرنی ضروری ہے۔ مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور طہارت وغیرہ مسائل۔ ان میں جو کچھ آپﷺ نے حکم دیا ہے اور جس طرح خود عمل کرکے بتایا ہے اس کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنی لازم ہے۔ رہے وہ امور جو براہِ راست دین سے تعلق نہیں رکھتے، مثلاً: تمدنی، معاشی اور سیاسی معاملات اور معاشرے کے جزئیات تو ان میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا حضورﷺ نے حکم دیا ہے یا جن سے بچنے کی حضورﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔ بعض ایسی ہیں جن میں حضورﷺ نے حکمت اور نصیحت کی باتیں ارشاد فرمائی ہیں اور بعض ایسی ہیں جن میں حضورﷺ کے طرز عمل سے ہمیں مکارمِ اخلاق اور تقوٰی وپاکیزگی کا سبق ملتا ہے اور ہم آپ کے طریقے کو دیکھ کر یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ عمل کے مختلف طریقوں میں سے کون سا طریقہ روح اِسلامی سے مطابقت رکھتا ہے۔‘‘
لیکن اب آپ کا موقف یہ ہے کہ اس طرح کی تفریق صحیح نہیں ہے۔
جواب: اس عبارت میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ سُنّت سے جو تعلیمات ہم کو ملتی ہیں وہ سب ایک ہی درجے اور مرتبے کی نہیں ہیں، بلکہ ان کے درمیان فرق مراتب ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح خود قرآن مجید کی تعلیمات میں بھی فرق مراتب ہے۔ ہدایت کے ان دونوں سرچشموں سے جو کچھ ہمیں ملا ہے وہ سب ایک ہی درجے میں فرض وواجب نہیں ہے۔ نہ ہر حکم کا مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کے الفاظ کو جوں کا توں ہر حال میں نافذ کیا جائے۔ مثال کے طور پر خود قرآن میں دیکھیے کہ ایک طرف اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَفرمایا گیا ہے جو یقینا فرض وواجب ہے لیکن اسی طرح کے صیغہ امر میں فرمایا فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۰ۚ النسائ 3:4 اور وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا۰ۭ المائدہ 2:5 یہ دونوں ارشادات صیغہ امر میں ہونے کے باوجود صرف اباحت کو ظاہر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اگر بحث کی خاطر یہ گفتگو نہ کر رہے ہوتے تو ان کے لیے بات کو سمجھنا اس قدر مشکل نہ تھا۔تفہیمات کے جس مضمون (رسالت اور اس کے احکام) سے یہ عبارت انھوں نے نقل کی ہے اس کو نکال کر پڑھیے۔ اس میں اس عبارت سے متصل ہی یہ فقرے موجود ہیں:
پس اگر کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ حضورﷺ کا اتباع کرنا چاہے اور اسی غرض سے آپﷺ کی سُنّت کا مطالعہ کرے تو اس کے لیے یہ معلوم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں کہ کن امور میں آپ کا اتباع طابق النعل بالنعل ہونا چاہیے اور کن امور میں آپ کے ارشادات اور اعمال سے اصول اخذ کرکے قوانین وضع کرنے چاہییں اور کن امور میں آپ کی سُنّت سے اخلاق وحکمت اور خیر وصلاح کے عام اصول مستنبط کرنے چاہییں۔
مَیں ناظرین سے گزارش کروں گا کہ اگر وہ میری یہ کتاب فراہم کر سکیں تو اس پورے مضمون کو ملاحظہ فرمائیں، تاکہ منکرین حدیث کے ذہن کی وہ اصل کیفیت ان کے سامنے بے نقاب ہو جائے جس کے زیر اثر انھوں نے ٹھیک اسی مضمون میں اپنی الجھن کا سامان تلاش کیا ہے جو ان کی بیش تر الجھنوں کو رفع کر سکتا تھا، البتہ اس مضمون کو پڑھتے وقت یہ بات ملحوظ رکھیں کہ اس میں جن پرویز صاحب کا ذکر ہے وہ ۱۹۳۵ء کے پرویز صاحب ہیں نہ کہ آج کے۔ اس وقت وہ گم راہی کے بالکل ابتدائی سرے پر تھے اور آج معاملہ فی ضلالٍ بعید سے گزر کر ضلالت کی پیشوائی تک پہنچ چکا ہے۔