اعتراض:اپنی کتاب تفہیمات میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ قرآن میں کہیں کوئی خفیف سے خفیف اشارہ بھی ایسا نہیں ملتا جس کی بِنا پر حضور(ﷺ)کی رسالت کی حیثیت میں کوئی فرق کیا گیا ہو اور اب آپ فرماتے ہیں کہ جو کچھ حضورﷺ نے رسول کی حیثیت سے کیا تھا وہ سُنّت واجب الاتباع ہے، اور جو کچھ آپ نے شخصی حیثیت سے کیا تھا وہ واجب الاتباع سُنّت نہیں۔ اس طرح آپ دو متضاد باتیں کہتے ہیں۔
جواب: اسی مراسلت کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب اس بحث کو پہلے چھیڑ چکے ہیں اور ان کو اس کا جواب دیا جا چکا ہے (ملاحظہ ہو، کتاب ہذا: حضورﷺ کی شخصیت حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کافرق)۔ میں نے ان سے عرض کیا تھا کہ اگر وہ اس مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہیں تو میرا مضمون رسول کی حیثیت شخصی اور حیثیت نبویﷺ مندرجہ ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۵۹ء ملاحظہ فرما لیں، جس میں پوری وضاحت کے ساتھ اس مسئلے کی حقیقت بیان کی گئی ہے، مگر معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اسے پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ چوں کہ یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جن کے بارے میں منکرینِ حدیث لوگوں کے ذہن میں طرح طرح کی غلط فہمیاں ڈالتے رہتے ہیں اس لیے یہاں اس مضمون کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے رسول اللّٰہ ﷺ کی اطاعت کا جو حکم دیا ہے وہ آپ کے کسی ذاتی استحقاق کی بِنا پر نہیں ہے، بلکہ اس بِنا پر ہے کہ آپﷺ کو اس نے اپنا رسول بنایا ہے۔ اس لحاظ سے باعتبار نظریہ تو آپ کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت میں یقینا فرق ہے، لیکن عملًا چوں کہ ایک ہی ذات میں شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت دونوں جمع ہیں، اور ہم کو آپﷺ کی اطاعت کا مطلق حکم دیا گیاہے، اس لیے ہم بطور خود یہ فیصلہ کر لینے کے مجاز نہیں ہیں کہ ہم حضورﷺ کی فلاں بات مانیں گے کیوں کہ وہ بحیثیت رسولﷺ آپ نے کی یا کہی ہے، اور فلاں بات نہ مانیں گے کیوں کہ وہ آپﷺ کی شخصی حیثیت سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کام خود حضور ﷺ ہی کا تھا کہ شخصی نوعیت کے معاملات میں آپﷺ نہ صرف لوگوں کو آزادی عطا فرماتے تھے بلکہ آزادی برتنے کی تربیت بھی دیتے تھے اور جو معاملات رسالت سے تعلق رکھتے تھے ان میں آپﷺ بے چون وچرا اطاعت کراتے تھے۔ اس معاملے میں ہم کو جو کچھ بھی آزادی حاصل ہے۔ وہ رسول پاک ﷺ کی دی ہوئی آزادی ہے جس کے اصول اور حدود حضور ﷺ نے خود بتا دئیے ہیں۔ یہ ہماری خود مختارانہ آزادی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں بات واضح کرنے کے لیے مَیں نے عرض کیا تھا:
جو معاملات بظاہر بالکل شخصی معاملات ہیں، مثلاً: ایک انسان کا کھانا، پینا، کپڑے پہننا، نکاح کرنا، بیوی بچوں کے ساتھ رہنا، گھر کا کام کاج کرنا، غسل اور طہارت اور رفعِ حاجت وغیرہ۔ وہ بھی نبی ﷺ کی ذات میں خالص نجی نوعیت کے معاملات نہیں ہیں بلکہ انھی میں شرعی حدود اور طریقوں اور آداب کی تعلیم بھی ساتھ ساتھ شامل ہے… مثلاً: حضور ﷺ کے لباس اور آپ کے کھانے پینے کے معاملے کو لیجیے۔ اس کا ایک پہلو تو یہ تھا کہ آپﷺ ایک خاص وضع قطع کا لباس پہنتے تھے جو عرب میں اس وقت پہنا جاتا تھا اور جس کے انتخاب میں آپﷺ کے شخصی ذوق کا دخل بھی تھا۔ اسی طرح آپﷺ وہی کھانے کھاتے تھے جیسے آپ کے عہد میں اہل عرب کے گھروں میں پکتے تھے اور ان کے انتخاب میں بھی آپﷺ کے اپنے ذوق کا دخل تھا۔ دوسرا پہلو یہ تھا کہ اسی کھانے اور پہننے میں آپﷺ اپنے عمل اور قول سے شریعت کے حدود اور اِسلامی آداب کی تعلیم دیتے تھے۔ اب یہ بات خود حضور ﷺ ہی کے سکھائے ہوئے اصول شریعت سے ہم کو معلوم ہوتی ہے کہ ان میں سے پہلی چیز آپﷺ کی شخصی حیثیت سے تعلق رکھتی تھی اور دوسری چیز حیثیت نبویہ سے۔ اس لیے کہ شریعت نے جس کی تعلیم دینے کے لیے آپﷺ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیے گئے تھے، انسانی زندگی کے اس معاملے کو اپنے دائرۂ عمل میں نہیں لیا ہے کہ لوگ اپنے لباس کس تراش خراش اور وضع قطع پر سلوائیں اور اپنے کھانے کس طرح پکائیں، البتہ اس نے یہ چیز اپنے دائرۂ عمل میں لی ہے کہ کھانے اور پہننے کے معاملے میں حرام اور حلال، اور جائز اور ناجائز کے حدود معین کرے اور لوگوں کو ان آداب کی تعلیم دے جو اہل ایمان کے اخلاق وتہذیب سے مناسبت رکھتے ہیں۔
اس مضمون کو ختم کرتے ہوئے آخری بات جو میں نے لکھی تھی، وہ یہ ہے:
حضور ﷺ کی شخصی اور نبوی حیثیتوں میں حقیقت کے اعتبار سے جو بھی فرق ہے وہ عند اللّٰہ اور عندالرسول ہے، اور ہمیں اس سے اس لیے آگاہ کیا گیا ہے کہ ہم کہیں عقیدے کی گم راہی میں مبتلا ہو کر محمد بن عبداللّٰہ کو اللّٰہﷺ کے بجائے مُطاع حقیقی نہ سمجھ بیٹھیں، لیکن امت کے لیے تو عملًا آپ کی ایک ہی حیثیت ہے اور وہ ہے رسول ہونے کی حیثیت۔ حتّٰی کہ محمد بن عبداللّٰہﷺ کے مقابلے میں اگر ہم کو آزادی حاصل بھی ہوتی ہے تو وہ محمد رسول اللّٰہﷺ کے عطا کرنے سے ہوتی ہے اور محمد رسول اللّٰہﷺ ہی اس کے حدود متعیّن کرتے ہیں اور اس آزادی کے استعمال کی تربیت بھی ہم کو محمد رسول اللّٰہﷺ ہی نے دی ہے۔
ان عبارات کو جو شخص بھی ہٹ دھرمی سے پاک ہو کر پڑھے گا وہ خود رائے قائم کر لے گا کہ منکرینِ حدیث جس الجھن میں پڑے ہوئے ہیں، اس کا اصل سرچشمہ میری عبارت میں ہے، یا ان کے اپنے ذہن میں۔