آپ کا دوسرا سوال یہ ہے کہ:
قرآن نے جہاں مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ کہا ہے کیا اس سے مراد صرف قرآن ہے یا وحی کا مذکورۂ صدر حصہ بھی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاںنازل کرنے کے ساتھ کتاب یا ذکر یا فرقان وغیرہ کی تصریح کی گئی ہے، صرف اسی جگہ مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے مراد قرآن ہے۔ رہے وہ مقامات جہاں کوئی قرینہ ان الفاظ کو قرآن کے لیے مخصوص نہ کر رہا ہو، وہاں یہ الفاظ ان تمام ہدایات وتعلیمات پر حاوی ہیں جو نبی ﷺ سے ہم کو ملی ہیں، خواوہ وہ آیاتِ قرآنی کی صورت میں ہوں، یا کسی اور صورت میں۔ اس کی دلیل خود قرآن مجید ہی میں موجود ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ﷺ پر صرف قرآن ہی نازل نہیں ہوا ہے بلکہ کچھ اور چیزیں بھی نازل ہوئی ہیں۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہوا ہے:
٭ وَاَنْزَلَ اللہُ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ۰ۭ النسائ 113:4
اور اللّٰہ نے تیرے اوپر نازل کی کتاب اور حکمت اور تجھے سکھایا وہ کچھ جو تو نہ جانتا تھا۔
یہی مضمون سورۂ بقرہ میں بھی ہے:
٭ وَّاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنَ الْكِتٰبِ وَالْحِكْمَۃِ يَعِظُكُمْ بِہٖ۰ۭ البقرہ 231:2
اور یاد رکھو اپنے اوپر اللّٰہ کے احسان کو، اور اس کتاب اور حکمت کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے۔ اللّٰہ تمھیں اس کا پاس رکھنے کی نصیحت فرماتا ہے۔
اسی بات کو سورۂ احزاب میں دہرایا گیا ہے جہاں نبی ﷺ کے گھر کی خواتین کو نصیحت فرمائی گئی ہے کہ:
٭ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ وَالْحِكْمَۃِ۰ۭ الاحزاب 34:33
اور یاد رکھو کہ تمھارے گھروں میں (لوگوں کو) اللّٰہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو سنائی جاتی ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ نبی ﷺ پر کتاب کے علاوہ ایک چیز ’’حکمت‘‘ بھی نازل کی گئی تھی جس کی تعلیم آپ لوگوں کو دیتے تھے۔ اس کا مطلب آخر اس کے سوا کیا ہے کہ جس دانائی کے ساتھ آں حضور ﷺ قرآن مجید کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کرتے اور قیادت وراہ نُمائی کے فرائض انجام دیتے تھے، وہ محض آپ کی آزادانہ ذاتی قوتِ فیصلہ (private judgement) نہ تھی بلکہ یہ چیز بھی اللّٰہ نے آپ پر نازل کی تھی۔ نیز یہ کوئی ایسی چیز تھی جسے آپ خود ہی استعمال نہ کرتے تھے بلکہ لوگوں کو سکھاتے بھی تھے (یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ) اور ظاہر ہے کہ یہ سکھانے کا عمل یا تو قول کی صورت میں ہو سکتا تھا، یا فعل کی صورت میں۔ اس لیے امت کو آں حضرتﷺ کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ کی نازل کردہ دو چیزیں ملی تھیں۔ ایک: کتاب۔ دوسری: حکمت، حضورﷺ کے اقوال میں بھی اور افعال کی صورت میں بھی۔
پھر قرآن مجید ایک اور چیز کا ذکر بھی کرتا ہے جو اللّٰہ نے کتاب کے ساتھ نازل کی ہے:
۱۔ اَللہُ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ۰ۭ الشوریٰ17:42
اللّٰہ ہی ہے جس نے نازل کی کتاب حق کے ساتھ اور میزان۔
۲۔ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ الحدید 25:57
ہم نے اپنے رسولوں کو روشن نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
یہ میزان جو کتاب کے ساتھ نازل کی گئی ہے، ظاہر ہے کہ وہ ترازو تو نہیں ہے جو ہر بنیے کی دکان پر رکھی ہوئی مل جاتی ہے بلکہ اس سے مراد کوئی ایسی چیز ہی ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق انسانی زندگی میں توازن قائم کرتی ہے، اس کے بگاڑ کو درست کرتی ہے اور افراط وتفریط کو دور کرکے انسانی اخلاق ومعاملات کو عدل پر لاتی ہے۔ کتاب کے ساتھ اس چیز کو انبیا پر ’’نازل‘‘ کرنے کے صاف معنی یہ ہیں کہ انبیا کو اللّٰہ تعالیٰ نے بطورِ خاص اپنے پاس سے وہ راہ نُمائی کی صلاحیت عطا فرمائی تھی جس سے انھوں نے کتاب اللّٰہ کے منشا کے مطابق افراد اور معاشرے اور ریاست میں نظامِ عدل قائم کیا۔ یہ کام ان کی ذاتی قوتِ اجتہاد اور رائے پر منحصر نہ تھا، بلکہ اللّٰہ کی نازل کردہ میزان سے تول تول کر وہ فیصلہ کرتے تھے کہ حیات انسانی کے مرکب میں کس جز کا کیا وزن ہونا چاہیے۔پھر قرآن ایک تیسری چیز کی بھی خبر دیتا ہے جو کتاب کے علاوہ نازل کی گئی تھی:
٭ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِيْٓ اَنْزَلْنَا۰ۭ التغابن 8:64
پس ایمان لائو اللّٰہ پر اور اس کے رسول ﷺ پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا ہے۔
٭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo الاعراف 157:7
پس جو لوگ ایمان لائیں اس رسولﷺ پر اور اس کی تعظیم وتکریم کریں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کے پیچھے چلیں جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے۔ وہی فلاح پانے والے ہیں۔
٭ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌo يَّہْدِيْ بِہِ اللہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُـبُلَ السَّلٰمِ المائدہ 15-16:5
تمھارے پاس آ گیا ہے اللّٰہ کی طرف سے نور اور کتاب مبین جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ ہر اس شخص کو جو اس کی مرضی کی پیروی کرنے والا ہے، سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے۔
ان آیات میں جس نور کا ذکر کیا گیا ہے وہ کتاب سے الگ ایک چیز تھا، جیسا کہ تیسری آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں اور یہ نور بھی اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے رسولﷺ پر نازل کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے مراد وہ علم ودانش اور بصیرت وفراست ہی ہو سکتی ہے جو اللّٰہ نے حضور ﷺ کو عطا فرمائی تھی۔ جس سے آپﷺ نے زندگی کی راہوں میں صحیح اور غلط کا فرق واضح فرمایا، جس کی مدد سے زندگی کے مسائل حل کیے، اور جس کی روشنی میں کام کرکے آپﷺ نے اخلاق و روحانیت، تہذیب وتمدن، معیشت ومعاشرت اور قانون وسیاست کی دُنیا میں انقلاب عظیم برپا کر دیا۔ یہ کسی پرائیویٹ آدمی کا کام نہ تھا، جس نے بس خدا کی کتاب پڑھ پڑھ کر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق جدوجہد کر ڈالی ہو، بلکہ یہ خدا کے اس نمایندے کا کام تھا جس نے کتاب کے ساتھ براہ راست خدا ہی سے علم اور بصیرت کی روشنی بھی پائی تھی۔
ان تصریحات کے بعد یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جب ہمیں دوسری سب چیزوں کو چھوڑ کر صرف مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ کی پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس سے مراد محض قرآن ہی کی پیروی نہیں ہوتی، بلکہ اس حکمت اور اس نور اور اس میزان کی پیروی بھی ہوتی ہے جو قرآن کے ساتھ نبی ﷺ پر نازل کی گئی تھی اور جس کا ظہور لامحالہ حضور ﷺ کی سیرت وکردار اور حضورﷺ کے اقوال وافعال ہی میں ہو سکتا تھا۔ اسی لیے قرآن کہیں یہ کہتا ہے کہ ما انزل اللّٰہ کی پیروی کرو،مثلاً: الاعراف ۷:۳ میں، اور کہیں یہ ہدایت کرتا ہے کہ محمد ﷺ کی پیروی کرو،(مثلاً: آل عمران۳:۳۱۔۳۲۔۱۳۲، اور الاعراف ۷:۱۵۸ میں)۔اگر یہ دو مختلف چیزیں ہوتیں تو ظاہر ہے کہ قرآن کی ہدایات متضاد ہو جاتیں۔