Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
تصریح
دیباچہ
باب اوّل: سُنّت کی آئینی حیثیت
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
جواب
ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خط
جواب
سُنّت کیا چیز ہے؟
سُنّت کس شکل میں موجود ہے؟
کیا سُنّت متفق علیہ ہے؟ اور اس کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے؟
چار بنیادی حقیقتیں
دوسرے خط کا جواب
چار نکات
نکتۂ اُولیٰ
رسول اللّٰہa کے کام کی نوعیت
حضور a کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کا فرق
قرآن سے زائد ہونا اور قرآن کے خلاف ہونا ہم معنی نہیں ہے
کیا سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے؟
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
احادیث کو پرکھنے میں روایت اور درایت کا استعمال
نکتۂ چہارم
اشاعت کا مطالبہ
باب دوم: منصبِ نبوت
ڈاکٹر صاحب کا خط
جواب
۱۔ منصب ِنبوّت اور اس کے فرائض
۲۔ رسول پاکﷺ کے تشریعی اختیارات
۳۔ سُنّت اور اتباع سُنّت کا مفہوم
۴۔رسولﷺ پاک کس وحی کے اتباع پر مامور تھے، اور ہم کس کے اتباع پر مامور ہیں؟
۵۔ مرکزِ ملّت
۶۔ کیا حضورﷺ صرف قرآن پہنچانے کی حد تک نبی تھے؟
۷۔ حضورﷺ کی اجتہادی لغزشوں سے غلط استدلال
۸۔ موہوم خطرات
۹۔ خلفائے راشدین پر بہتان
۱۰۔ کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
سُنّت کے متعلق چند مزید سوالات
جواب
وحی پر ایمان کی وجہ
مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے کیا چیز مراد ہے؟
سُنّت کہاں ہے؟
وحی سے مراد کیا چیز ہے؟
محض تکرارِ سوال
ایمان وکفر کا مدار
کیا احکامِ سُنّت میں رد وبدل ہو سکتا ہے؟
باب سوم : اعتراضات اور جوابات
۱۔ بزمِ طلوع اِسلام سے تعلق؟
۲۔ کیا گشتی سوال نامے کا مقصد علمی تحقیق تھا؟
۳۔ رسولﷺ کی حیثیت ِ شخصی و حیثیتِ نبویﷺ
۴۔ تعلیماتِ سنّت میں فرقِ مراتب
۵۔ علمی تحقیق یا جھگڑالو پن؟
۶۔ رسولﷺ کی دونوں حیثیتوں میں امتیاز کا اصول اور طریقہ
۷۔ قرآن کی طرح احادیث بھی کیوں نہ لکھوائی گئیں؟
۸۔ دجل وفریب کا ایک نمونہ
۹۔ حدیث میں کیا چیز مشکوک ہے اور کیا مشکوک نہیں ہے
۱۰۔ ایک اور فریب
۱۱۔ کیا امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے؟
۱۲۔ سُنّت نے اختلافات کم کیے ہیں یا بڑھائے ہیں؟
۱۳۔ منکرینِ سُنّت اور منکرینِ ختم نبوت میں مماثلت کے وجوہ
۱۴۔ کیا آئین کی بنیاد وہی چیز ہو سکتی ہے جس میں اختلاف ممکن نہ ہو؟
۱۵۔ قرآن اور سُنّت دونوں کے معاملے میں رفعِ اختلاف کی صورت ایک ہی ہے
۱۶۔ ایک دل چسپ مغالطہ
۱۷۔ شخصی قانون اور ملکی قانون میں تفریق کیوں؟
۱۸۔ حیثیت ِرسول ﷺ کے بارے میں فیصلہ کن بات سے گریز
۱۹۔ کیا کسی غیر نبی کو نبی کی تمام حیثیات حاصل ہو سکتی ہیں
۲۰۔ اِسلامی نظام کے امیر اور منکرینِ حدیث کے مرکزِ ملت میں عظیم فرق
۲۱۔ عہد رسالت میں مشاورت کے حدود کیا تھے؟
۲۲۔ اذان کا طریقہ مشورے سے طے ہوا تھا یا الہام سے؟
۲۳۔ حضورﷺ کے عدالتی فیصلے سند وحجت ہیں یا نہیں؟
۲۴۔ کج بحثی کا ایک عجیب نمونہ
۲۵۔ کیا اللہ تعالیٰ بھی غلطی کرسکتا ہے؟
۲۶۔حضورﷺ کے ذاتی خیال اور بربنائے وحی کہی ہوئی بات میں واضح امتیاز تھا
۲۷۔ کیا صحابہؓ اس بات کے قائل تھے کہ حضورﷺ کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں؟
۲۸۔ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمرؓ کے فیصلے کی اصل نوعیت
۲۹۔ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں حضرت عمرؓ کے استدلال کی نوعیت
۳۰۔ کیا مفتوحہ اراضی کے بارے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ حکم رسولﷺ کے خلاف تھا؟
۳۱۔ وظائف کی تقسیم کے معاملے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ
۳۲۔ کیا قرآن کے معاشی احکام عبوری دور کے لیے ہیں؟
۳۳۔ ’’عبوری دور‘‘ کا غلط مفہوم
۳۴۔ حضورﷺکیا صرف شارح قرآن ہی ہیں یا شارع بھی؟
۳۵۔ بصیرت رسولﷺ کے خداداد ہونے کا مفہوم
۳۶۔ وحی کی اقسام ازروئے قرآن
۳۷۔ وحی غیرمتلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جُز ہے
۳۸۔ کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟
۳۹۔ کتاب اور حکمت ایک ہی چیز یا الگ الگ
۴۰۔ لفظ تلاوت کے معنی
۴۱۔ کتاب کے ساتھ میزان کے نزول کا مطلب
۴۲۔ ایک اور کج بحثی
۴۳۔ تحویلِ قبلہ والی آیت میں کون سا قبلہ مراد ہے؟
۴۴۔ قبلے کے معاملے میں رسولﷺ کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا تھا؟
۴۵۔ نبی پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام
۴۶۔ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا کا مطلب
۴۷۔ کیا وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟
۴۸۔ بے معنی اعتراضات اور الزامات
۴۹۔ کیا آنحضورﷺ نے صحابہؓ کو دھوکا دیا تھا؟
۵۰۔ کیا آنحضورﷺ اپنے خواب سے متعلق متردد تھے؟
۵۱۔دروغ گویم بر رُوئے تو
۵۲۔ رُو در رُو بہتان
۵۳۔ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ کا مطلب

سنت کی آئینی حیثیت

انکار سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا، اور اس کی راہ میں حضور کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر اُنھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دو گونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، اُنھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح اُنھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ اُنھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے اُنھوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔ اس کتاب میں مولانا مودودیؒ نے مخالفانہ دلائل کو ایک ایک کرکے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سید مودودیؒ کتاب کے آخر میں رقم طراز ہیں: ”ہم نے ایک ایک دلیل کا تفصیلی جائزہ لے کر جو بحث کی ہے اسے پڑھ کر ہر صاحب علم آدمی خود یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ ان دلائل میں کتنا وزن ہے اور ان کے مقابلے میں سنت کے ماخذ قانون اور احادیث کے قابل استناد ہونے پر جو دلیلیں ہم نے قائم کی ہیں وہ کس حد تک وزنی ہیں۔ ہم خاص طور پر خود فاضل جج سے اور مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے رفقا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پورے غور کے ساتھ ہماری اس تنقید کو ملاحظہ فرمائیں اور اگر ان کی بے لاگ رائے میں، جیسی کہ ایک عدالت عالیہ کے فاضل ججوں کے رائے بے لاک ہونی چاہیے، یہ تنقید فی الواقع مضبوط دلائل پر مبنی ہو تو وہ قانون کے مطابق کوئی ایسی تدبیر عمل میں لائیں جس سے یہ فیصلہ آئیندہ کے لیے نظیر نہ بن سکے۔ عدالتوں کا وقار ہر ملک کے نظام عدل و انصاف کی جان ہوتا ہے اور بہت بڑی حد تک اسی پر ایک مملکت کے استحکام کا انحصار ہوتا ہے۔ اس وقار کے لیے کوئی چیز اس سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں ہے کہ ملک کی بلند ترین عدالتوں کے فیصلے علمی حیثیت سے کمزور دلائل اور ناکافی معلومات پر مشتمل ہوں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب ایمان دارانہ تنقید سے ایسی کسی غلطی کی نشان دہی ہو جائے تو اولین فرصت میں خود حاکمان عدالت ہی اس کی تلافی کی طرف توجہ فرمائیں۔“ حدیث کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کرنے والے افراد کے لیے اس کتاب کو پڑھنا بہت اہم ہے۔

۱۰۔ کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟

اب صرف آپ کا آخری نکتہ باقی ہے جسے آپ ان الفاظ میں پیش فرماتے ہیں:
اگر فرض کر لیا جائے، جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ جو کچھ کرتے تھے، وحی کی رو سے کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا کو اپنی طرف سے بھیجی ہوئی ایک قسم کی وحی پر (نعوذ باللّٰہ) تسلی نہ ہوئی، چنانچہ دوسری قسم کی وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ یہ دو رنگی وحی آخر کیوں؟ پہلے آنے والے نبیوں پر جب وحی نازل ہوئی تو اس میں نزولِ قرآن کی طرف اشارہ تھا تو کیا اس اللّٰہ کے لیے جو ہر چیز پر قادر ہے، یہ بڑا مشکل تھا کہ دوسری قسم کی وحی، جس کا آپ ذکر کرتے ہیں، اس کا قرآن میں اشارہ کر دیتا۔ مجھے تو قرآن میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی۔ اگر آپ کسی آیت کی طرف اشارہ فرما سکیں تو مشکور ہوں گا۔
یہ تسلی کی بات بھی خوب ہے۔ گویا آپ کی رائے میں اللّٰہ تعالیٰ بندوں کی ہدایت کے لیے نہیں، بلکہ اپنی تسلی کے لیے وحی نازل فرماتے تھے، اور ان کی تسلی کے لیے بس ایک قسم کی وحی کافی ہونی چاہیے تھی۔آپ تو ’’دو رنگی وحی‘‘ پر ہی حیران ہیں، مگر آنکھیں کھول کر آپ نے قرآن پڑھا ہوتا تو آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ کتاب ’’سہ رنگی وحی‘‘ کا ذکر کرتی ہے جن میں سے صرف ایک ’’رنگ‘‘ کی وحی قرآن میں جمع کی گئی ہے:
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِـاِذْنِہٖ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌo الشوریٰ51:42
کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے رُوبروبات کرے۔ اُس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اُس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتاہے وحی کرتا ہے، وہ برتر ہے اور حکیم ہے۔
یہاں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بشر پر احکام وہدایات نازل ہونے کی تین صورتیں بتائی گئی ہیں۔ ایک براہ راست وحی (یعنی القا والہام) دوسرے پردے کے پیچھے سے کلام، تیسرے اللّٰہ کے پیغام بر (فرشتے) کے ذریعے سے وحی۔ قرآن مجید میں جو وحیاں جمع کی گئی ہیں وہ ان میں سے صرف تیسری قسم کی ہیں۔ اس کی تصریح اللّٰہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دی ہے۔
۱۔ قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَo ………فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَo البقرہ97-98:2
(اے نبی!) ان سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو، اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن تمہارے دل پر نازل کیا ہے جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔
(اگر جبریل سے ان کی عداوت کا سبب یہی ہے تو کہہ دو کہ) جو اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کے رسولوں اور جبریل و میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ اُن کے کافروں کا دشمن ہے)
۲۔ وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُo عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَo الشعرائ 192-194:26
یہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے۔ اسے لے کر روح الامین اترا ہے، تیرے قلب پر، تاکہ تو متنبہ کرنے والوں میں سے ہو۔
اس سے معلوم ہو گیا کہ قرآن صرف ایک قسم کی وحیوں پر مشتمل ہے۔ رسول کو ہدایات ملنے کی باقی دو صورتیں جن کا ذکر سورۂ شورٰی والی آیت میں کیا گیا ہے وہ ان کے علاوہ ہیں۔ اب خود قرآن ہی ہمیں بتاتا ہے کہ ان صورتوں سے بھی نبی ﷺ کو ہدایات ملتی تھیں:
۱۔ جیسا کہ میں آپ کے چوتھے نکتے بر بحث کرتے ہوئے بتا چکا ہوں، سورۂ بقرہ کی آیات ۱۴۳۔۱۴۴ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسجد حرام کے قبلہ بنائے جانے سے پہلے نبی ﷺ اور مسلمان کسی اور قبلے کی طرف رخ کرکے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم دیتے ہوئے اس بات کی توثیق فرمائی کہ وہ پہلا قبلہ جس کی طرف رخ کیا جاتا تھا، وہ بھی ہمارا ہی مقرر کیا ہوا تھا۔ لیکن قرآن میں وہ آیت کہیں نہیں ملتی جس میں اس قبلے کی طرف رخ کرنے کا ابتدائی حکم ارشاد فرمایا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ پر قرآن کے علاوہ اور کوئی وحی نہیں آتی تھی تو وہ حکم حضور ﷺ کو کس ذریعے سے ملا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ حضور ﷺ کو ایسے احکام بھی ملتے تھے جو قرآن میں درج نہیں ہیں؟
۲۔ رسول اللّٰہﷺ مدینہ میں خواب دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللّٰہ کا طواف کیا ہے۔ آپﷺ اس کی خبر صحابہ کرامؓ کو دیتے ہیں اور ۱۴ سو صحابیوں کو لے کر عمرہ ادا کرنے کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ کفار مکہ آپﷺ کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ واقع ہوتی ہے۔ بعض صحابی اس پر خلجان میں پڑ جاتے ہیں اور حضرت عمرؓ ان کی ترجمانی کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ یارسول اللّٰہﷺ!کیا آپ نے ہمیں خبر نہ دی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے اور طواف کریں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سفر میں ایسا ہو گا؟ اس پر اللّٰہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
لَـقَدْ صَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۝۰ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۝۰ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ۝۰ۙ لَا تَخَافُوْنَ۝۰ۭ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًاo الفتح 48:27
اللّٰہ نے اپنے رسول کو یقینا سچا خواب دکھایا تھا۔ تم ضرور مسجد حرام میں ان شاء اللّٰہ داخل ہو گے۔ امن کے ساتھ، سرمونڈتے ہوئے اور بال تراشتے ہوئے، بغیر اس کے کہ تمھیں کسی قسم کا خوف ہو، اللّٰہ کو علم تھا اس بات کا جسے تم نہ جانتے تھے۔ اس لیے اس سے پہلے اس نے یہ قریب کی فتح (یعنی صلح حدیبیہ) عطا کر دی۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کو خواب کے ذریعے سے مکہ میں داخل ہونے کا یہ طریقہ بتایا گیا تھا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ کی طرف جائیں۔ کفار روکیں گے، آخر کار صلح ہو گی جس کے ذریعے سے دوسرے سال عمرے کا موقع بھی ملے گا اور آیندہ کی فتوحات کا راستہ بھی کھل جائے گا۔ کیا یہ قرآن کے علاوہ دوسرے طریقوں سے ہدایات ملنے کا کھلا ثبوت نہیں ہے؟
۳۔ نبی ﷺ اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو راز میں ایک بات بتاتے ہیں۔ وہ اس کا ذکر دوسروں سے کر دیتی ہیں۔ حضور ﷺ اس پر باز پرس کرتے ہیں تو وہ پوچھتی ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ میں نے یہ بات دوسروں سے کہہ دی ہے۔ حضورﷺ جواب دیتے ہیں کہ مجھے علیم وخبیر نے خبر دی ہے۔
وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِيْثًا۝۰ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَاَظْہَرَہُ اللہُ عَلَيْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَاَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ۝۰ۚ فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ ہٰذَا۝۰ۭ قَالَ نَبَّاَنِيَ الْعَلِيْمُ الْخَبِيْرُo التحریم 3:66
اور جب کہ نبیﷺ نے اپنی ایک بیوی سے راز میں ایک بات کہی اور اس بیوی نے اس کی (دوسروں کو) خبر دے دی، اور اللّٰہ نے نبی کو اس پر مطلع کر دیا تو نبی نے اس بیوی کو اس کے قصور کا ایک حصہ تو جتا دیا اور دوسرے حصے سے درگزر کیا۔ پس جب نبی نے اس بیوی کو اس کا قصور جتایا تو اس نے پوچھا آپ کو کس نے اس کی خبر دی؟ نبیﷺ نے کہا مجھے علیم وخبیر خدا نے بتایا۔
فرمائیے کہ قرآن میں وہ آیت کہاں ہے جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو یہ اطلاع دی تھی کہ تمھاری بیوی نے تمھاری راز کی بات دوسروں سے کہہ دی ہے؟ اگر نہیں ہے تو ثابت ہوا یا نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ قرآن کے علاوہ بھی نبی ﷺ کے پاس پیغامات بھیجتا تھا؟
۴۔ نبی ﷺ کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ اپنی بیوی کو طلاق دیتے ہیں اور اس کے بعد حضور ﷺ ان کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر لیتے ہیں اس پر منافقین اور مخالفین حضورﷺ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک شدید طوفان اُٹھا کھڑا کرتے ہیں اور اعتراضات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ ان اعتراضات کا جواب اللّٰہ تعالیٰ سورۂ احزاب کے ایک پورے رکوع میں دیتا ہے اور اس سلسلے میں لوگوں کو بتاتا ہے کہ ہمارے نبیﷺ نے یہ نکاح خود نہیں کیا ہے، بلکہ ہمارے حکم سے کیا ہے:
فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَہَا لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِيْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِيَاۗىِٕہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا۝۰ۭ الاحزاب 37:33
پھر جب زید کا اس سے جی بھر گیا تو ہم نے اس (خاتون) کا نکاح تم سے کر دیا، تاکہ اہلِ ایمان کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے جی بھر چکے ہوں (یعنی انھیں طلاق دے چکے ہوں)
یہ آیت تو گزرے ہوئے واقعے کا بیان ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعے سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ﷺ کو جو حکم دیا گیا تھا کہ تم زید کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر لو وہ قرآن میں کس جگہ ہے؟
۵۔ نبی ﷺ بنی نضیر کی مسلسل بدعہدیوں سے تنگ آ کر، مدینہ سے متصل ان کی بستیوں پر چڑھائی کر دیتے ہیں اور دورانِ محاصرہ میں اِسلامی فوج گردوپیش کے باغات کے بہت سے درخت کاٹ ڈالتی ہے، تاکہ حملہ کرنے کے لیے راستہ صاف ہو۔ اس پر مخالفین شور مچاتے ہیں کہ باغوں کو اجاڑ کر اور ہرے بھرے ثمردار درختوں کو کاٹ کر مسلمانوں نے فساد فی الارض برپا کیا ہے۔ جواب میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَۃٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْہَا قَاۗىِٕمَۃً عَلٰٓي اُصُوْلِہَا فَبِـاِذْنِ اللہِ الحشر 5:59
کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے اور جو کھڑے رہنے دیے، یہ دونوں کام اللّٰہ کی اجازت سے تھے۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ اجازت قرآن مجید کی کس آیت میں نازل ہوئی تھی؟
۶۔ جنگ بدر کے خاتمے پر جب مالِ غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت سورۂ انفال نازل ہوتی ہے اور پوری جنگ پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔ اس تبصرے کا آغاز اللّٰہ تعالیٰ اس وقت سے کرتا ہے جب کہ نبی ﷺ جنگ کے لیے گھر سے نکلے تھے، اور اس سلسلے میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَo الانفال 7:8
اور جب کہ اللّٰہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو گروہوں (یعنی تجارتی قافلے اور قریش کے لشکر) میں سے ایک تمھارے ہاتھ آئے گا، اور تم چاہتے تھے کہ بے زور گروہ (یعنی تجارتی قافلہ) تمھیں ملے، حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی کمر توڑ دے۔
اب کیا آپ پورے قرآن میں کسی آیت کی نشان دہی فرما سکتے ہیں جس میں اللّٰہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نازل ہوا کہ اے لوگو! جومدینہ سے بدر کی طرف جا رہے ہو، ہم دو گروہوں میں سے ایک پر تمھیں قابو عطا فرما ویں گے۔؟
۷۔ اسی جنگِ بدر پر تبصرے کے سلسلے میں آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے:
اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَo الانفال 9:8
جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، تو اس نے تمھاری فریاد کے جواب میں فرمایا میں تمھاری مدد کے لیے لگاتار ایک ہزار فرشتے بھیجنے والا ہوں۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی فریاد کا یہ جواب قرآن مجید کی کس آیت میں نازل ہوا تھا؟
آپ صرف ایک مثال چاہتے تھے۔ میں نے آپ کے سامنے قرآن مجید سے سات مثالیں پیش کر دی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے پاس قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔ اس کے بعد آگے کسی بحث کا سلسلہ چلنے سے پہلے میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ حق کے آگے جھکنے کے لیے تیار بھی ہیں یا نہیں۔
خاکسار
ابوالاعلیٰ
(ترجمان القرآن، اکتوبر ونومبر ۱۹۶۰ء)

شیئر کریں