اب صرف آپ کا آخری نکتہ باقی ہے جسے آپ ان الفاظ میں پیش فرماتے ہیں:
اگر فرض کر لیا جائے، جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ جو کچھ کرتے تھے، وحی کی رو سے کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا کو اپنی طرف سے بھیجی ہوئی ایک قسم کی وحی پر (نعوذ باللّٰہ) تسلی نہ ہوئی، چنانچہ دوسری قسم کی وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ یہ دو رنگی وحی آخر کیوں؟ پہلے آنے والے نبیوں پر جب وحی نازل ہوئی تو اس میں نزولِ قرآن کی طرف اشارہ تھا تو کیا اس اللّٰہ کے لیے جو ہر چیز پر قادر ہے، یہ بڑا مشکل تھا کہ دوسری قسم کی وحی، جس کا آپ ذکر کرتے ہیں، اس کا قرآن میں اشارہ کر دیتا۔ مجھے تو قرآن میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی۔ اگر آپ کسی آیت کی طرف اشارہ فرما سکیں تو مشکور ہوں گا۔
یہ تسلی کی بات بھی خوب ہے۔ گویا آپ کی رائے میں اللّٰہ تعالیٰ بندوں کی ہدایت کے لیے نہیں، بلکہ اپنی تسلی کے لیے وحی نازل فرماتے تھے، اور ان کی تسلی کے لیے بس ایک قسم کی وحی کافی ہونی چاہیے تھی۔آپ تو ’’دو رنگی وحی‘‘ پر ہی حیران ہیں، مگر آنکھیں کھول کر آپ نے قرآن پڑھا ہوتا تو آپ کو معلوم ہوتا کہ یہ کتاب ’’سہ رنگی وحی‘‘ کا ذکر کرتی ہے جن میں سے صرف ایک ’’رنگ‘‘ کی وحی قرآن میں جمع کی گئی ہے:
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِـاِذْنِہٖ مَا يَشَاۗءُ۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌo الشوریٰ51:42
کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے رُوبروبات کرے۔ اُس کی بات یا تو وحی (اشارے) کے طور پر ہوتی ہے، یا پردے کے پیچھے سے، یا پھر وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اُس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتاہے وحی کرتا ہے، وہ برتر ہے اور حکیم ہے۔
یہاں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بشر پر احکام وہدایات نازل ہونے کی تین صورتیں بتائی گئی ہیں۔ ایک براہ راست وحی (یعنی القا والہام) دوسرے پردے کے پیچھے سے کلام، تیسرے اللّٰہ کے پیغام بر (فرشتے) کے ذریعے سے وحی۔ قرآن مجید میں جو وحیاں جمع کی گئی ہیں وہ ان میں سے صرف تیسری قسم کی ہیں۔ اس کی تصریح اللّٰہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دی ہے۔
۱۔ قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِـاِذْنِ اللہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْہِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَo ………فَاِنَّ اللہَ عَدُوٌّ لِّلْكٰفِرِيْنَo البقرہ97-98:2
(اے نبی!) ان سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو، اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ جبریل نے اللہ ہی کے اِذن سے یہ قرآن تمہارے دل پر نازل کیا ہے جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔
(اگر جبریل سے ان کی عداوت کا سبب یہی ہے تو کہہ دو کہ) جو اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کے رسولوں اور جبریل و میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ اُن کے کافروں کا دشمن ہے)
۲۔ وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَo نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُo عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَo الشعرائ 192-194:26
یہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے۔ اسے لے کر روح الامین اترا ہے، تیرے قلب پر، تاکہ تو متنبہ کرنے والوں میں سے ہو۔
اس سے معلوم ہو گیا کہ قرآن صرف ایک قسم کی وحیوں پر مشتمل ہے۔ رسول کو ہدایات ملنے کی باقی دو صورتیں جن کا ذکر سورۂ شورٰی والی آیت میں کیا گیا ہے وہ ان کے علاوہ ہیں۔ اب خود قرآن ہی ہمیں بتاتا ہے کہ ان صورتوں سے بھی نبی ﷺ کو ہدایات ملتی تھیں:
۱۔ جیسا کہ میں آپ کے چوتھے نکتے بر بحث کرتے ہوئے بتا چکا ہوں، سورۂ بقرہ کی آیات ۱۴۳۔۱۴۴ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسجد حرام کے قبلہ بنائے جانے سے پہلے نبی ﷺ اور مسلمان کسی اور قبلے کی طرف رخ کرکے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم دیتے ہوئے اس بات کی توثیق فرمائی کہ وہ پہلا قبلہ جس کی طرف رخ کیا جاتا تھا، وہ بھی ہمارا ہی مقرر کیا ہوا تھا۔ لیکن قرآن میں وہ آیت کہیں نہیں ملتی جس میں اس قبلے کی طرف رخ کرنے کا ابتدائی حکم ارشاد فرمایا گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ اگر حضور ﷺ پر قرآن کے علاوہ اور کوئی وحی نہیں آتی تھی تو وہ حکم حضور ﷺ کو کس ذریعے سے ملا؟ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ حضور ﷺ کو ایسے احکام بھی ملتے تھے جو قرآن میں درج نہیں ہیں؟
۲۔ رسول اللّٰہﷺ مدینہ میں خواب دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللّٰہ کا طواف کیا ہے۔ آپﷺ اس کی خبر صحابہ کرامؓ کو دیتے ہیں اور ۱۴ سو صحابیوں کو لے کر عمرہ ادا کرنے کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔ کفار مکہ آپﷺ کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ واقع ہوتی ہے۔ بعض صحابی اس پر خلجان میں پڑ جاتے ہیں اور حضرت عمرؓ ان کی ترجمانی کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ یارسول اللّٰہﷺ!کیا آپ نے ہمیں خبر نہ دی تھی کہ ہم مکہ میں داخل ہوں گے اور طواف کریں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں نے یہ کہا تھا کہ اسی سفر میں ایسا ہو گا؟ اس پر اللّٰہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
لَـقَدْ صَدَقَ اللہُ رَسُوْلَہُ الرُّءْيَا بِالْحَقِّ۰ۚ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللہُ اٰمِنِيْنَ۰ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ۰ۙ لَا تَخَافُوْنَ۰ۭ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَــعَلَ مِنْ دُوْنِ ذٰلِكَ فَتْحًا قَرِيْبًاo الفتح 48:27
اللّٰہ نے اپنے رسول کو یقینا سچا خواب دکھایا تھا۔ تم ضرور مسجد حرام میں ان شاء اللّٰہ داخل ہو گے۔ امن کے ساتھ، سرمونڈتے ہوئے اور بال تراشتے ہوئے، بغیر اس کے کہ تمھیں کسی قسم کا خوف ہو، اللّٰہ کو علم تھا اس بات کا جسے تم نہ جانتے تھے۔ اس لیے اس سے پہلے اس نے یہ قریب کی فتح (یعنی صلح حدیبیہ) عطا کر دی۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کو خواب کے ذریعے سے مکہ میں داخل ہونے کا یہ طریقہ بتایا گیا تھا کہ آپ اپنے ساتھیوں کو لے کر مکہ کی طرف جائیں۔ کفار روکیں گے، آخر کار صلح ہو گی جس کے ذریعے سے دوسرے سال عمرے کا موقع بھی ملے گا اور آیندہ کی فتوحات کا راستہ بھی کھل جائے گا۔ کیا یہ قرآن کے علاوہ دوسرے طریقوں سے ہدایات ملنے کا کھلا ثبوت نہیں ہے؟
۳۔ نبی ﷺ اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کو راز میں ایک بات بتاتے ہیں۔ وہ اس کا ذکر دوسروں سے کر دیتی ہیں۔ حضور ﷺ اس پر باز پرس کرتے ہیں تو وہ پوچھتی ہیں کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ میں نے یہ بات دوسروں سے کہہ دی ہے۔ حضورﷺ جواب دیتے ہیں کہ مجھے علیم وخبیر نے خبر دی ہے۔
وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِيُّ اِلٰى بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِيْثًا۰ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَاَظْہَرَہُ اللہُ عَلَيْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَاَعْرَضَ عَنْۢ بَعْضٍ۰ۚ فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَكَ ہٰذَا۰ۭ قَالَ نَبَّاَنِيَ الْعَلِيْمُ الْخَبِيْرُo التحریم 3:66
اور جب کہ نبیﷺ نے اپنی ایک بیوی سے راز میں ایک بات کہی اور اس بیوی نے اس کی (دوسروں کو) خبر دے دی، اور اللّٰہ نے نبی کو اس پر مطلع کر دیا تو نبی نے اس بیوی کو اس کے قصور کا ایک حصہ تو جتا دیا اور دوسرے حصے سے درگزر کیا۔ پس جب نبی نے اس بیوی کو اس کا قصور جتایا تو اس نے پوچھا آپ کو کس نے اس کی خبر دی؟ نبیﷺ نے کہا مجھے علیم وخبیر خدا نے بتایا۔
فرمائیے کہ قرآن میں وہ آیت کہاں ہے جس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو یہ اطلاع دی تھی کہ تمھاری بیوی نے تمھاری راز کی بات دوسروں سے کہہ دی ہے؟ اگر نہیں ہے تو ثابت ہوا یا نہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ قرآن کے علاوہ بھی نبی ﷺ کے پاس پیغامات بھیجتا تھا؟
۴۔ نبی ﷺ کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ اپنی بیوی کو طلاق دیتے ہیں اور اس کے بعد حضور ﷺ ان کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر لیتے ہیں اس پر منافقین اور مخالفین حضورﷺ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک شدید طوفان اُٹھا کھڑا کرتے ہیں اور اعتراضات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں۔ ان اعتراضات کا جواب اللّٰہ تعالیٰ سورۂ احزاب کے ایک پورے رکوع میں دیتا ہے اور اس سلسلے میں لوگوں کو بتاتا ہے کہ ہمارے نبیﷺ نے یہ نکاح خود نہیں کیا ہے، بلکہ ہمارے حکم سے کیا ہے:
فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَہَا لِكَيْ لَا يَكُوْنَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِيْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِيَاۗىِٕہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا۰ۭ الاحزاب 37:33
پھر جب زید کا اس سے جی بھر گیا تو ہم نے اس (خاتون) کا نکاح تم سے کر دیا، تاکہ اہلِ ایمان کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب کہ وہ ان سے جی بھر چکے ہوں (یعنی انھیں طلاق دے چکے ہوں)
یہ آیت تو گزرے ہوئے واقعے کا بیان ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس واقعے سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نبی ﷺ کو جو حکم دیا گیا تھا کہ تم زید کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر لو وہ قرآن میں کس جگہ ہے؟
۵۔ نبی ﷺ بنی نضیر کی مسلسل بدعہدیوں سے تنگ آ کر، مدینہ سے متصل ان کی بستیوں پر چڑھائی کر دیتے ہیں اور دورانِ محاصرہ میں اِسلامی فوج گردوپیش کے باغات کے بہت سے درخت کاٹ ڈالتی ہے، تاکہ حملہ کرنے کے لیے راستہ صاف ہو۔ اس پر مخالفین شور مچاتے ہیں کہ باغوں کو اجاڑ کر اور ہرے بھرے ثمردار درختوں کو کاٹ کر مسلمانوں نے فساد فی الارض برپا کیا ہے۔ جواب میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے:
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَۃٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْہَا قَاۗىِٕمَۃً عَلٰٓي اُصُوْلِہَا فَبِـاِذْنِ اللہِ الحشر 5:59
کھجوروں کے درخت تم نے کاٹے اور جو کھڑے رہنے دیے، یہ دونوں کام اللّٰہ کی اجازت سے تھے۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ اجازت قرآن مجید کی کس آیت میں نازل ہوئی تھی؟
۶۔ جنگ بدر کے خاتمے پر جب مالِ غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت سورۂ انفال نازل ہوتی ہے اور پوری جنگ پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔ اس تبصرے کا آغاز اللّٰہ تعالیٰ اس وقت سے کرتا ہے جب کہ نبی ﷺ جنگ کے لیے گھر سے نکلے تھے، اور اس سلسلے میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَاِذْ يَعِدُكُمُ اللہُ اِحْدَى الطَّاۗىِٕفَتَيْنِ اَنَّہَا لَكُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَۃِ تَكُوْنُ لَكُمْ وَيُرِيْدُ اللہُ اَنْ يُّحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِہٖ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكٰفِرِيْنَo الانفال 7:8
اور جب کہ اللّٰہ تعالیٰ تم سے وعدہ فرما رہا تھا کہ دو گروہوں (یعنی تجارتی قافلے اور قریش کے لشکر) میں سے ایک تمھارے ہاتھ آئے گا، اور تم چاہتے تھے کہ بے زور گروہ (یعنی تجارتی قافلہ) تمھیں ملے، حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی کمر توڑ دے۔
اب کیا آپ پورے قرآن میں کسی آیت کی نشان دہی فرما سکتے ہیں جس میں اللّٰہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نازل ہوا کہ اے لوگو! جومدینہ سے بدر کی طرف جا رہے ہو، ہم دو گروہوں میں سے ایک پر تمھیں قابو عطا فرما ویں گے۔؟
۷۔ اسی جنگِ بدر پر تبصرے کے سلسلے میں آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے:
اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَo الانفال 9:8
جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے، تو اس نے تمھاری فریاد کے جواب میں فرمایا میں تمھاری مدد کے لیے لگاتار ایک ہزار فرشتے بھیجنے والا ہوں۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی فریاد کا یہ جواب قرآن مجید کی کس آیت میں نازل ہوا تھا؟
آپ صرف ایک مثال چاہتے تھے۔ میں نے آپ کے سامنے قرآن مجید سے سات مثالیں پیش کر دی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے پاس قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی۔ اس کے بعد آگے کسی بحث کا سلسلہ چلنے سے پہلے میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ حق کے آگے جھکنے کے لیے تیار بھی ہیں یا نہیں۔
خاکسار
ابوالاعلیٰ
(ترجمان القرآن، اکتوبر ونومبر ۱۹۶۰ء)