پانچواں نکتہ آپ یہ ارشاد فرماتے ہیں:
چوں کہ دین کا تقاضا یہ تھا کہ کتاب پر عمل اجتماعی شکل میں ہو، اور یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص قرآن پر اپنی سمجھ کے مطابق عمل کرے اور دوسرا اپنی سمجھ کے مطابق، اس لیے نظام کو قائم رکھنے کے لیے ایک زندہ شخصیت کی ضرورت ہے اور مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ جہاں اجتماعی نظام کے قیام کا سوال ہو، وہاں پہنچانے والے کا مقام بہت آگے ہوتا ہے، کیوں کہ پیغام اس نے اس لیے پہنچایا کہ وحی اس کے سوا کسی اور کو نہیں ملتی۔ چنانچہ قرآن نے اسی لیے واضح کر دیا کہ مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ النسائ 80:4
چنانچہ حضور ﷺ مرکزِ ملت بھی تھے اور سُنّت رسول اللّٰہﷺ پر عمل یہی ہے کہ حضورﷺ کے بعد بھی اسی طرح مرکزیت کو قائم رکھا جائے۔ چنانچہ اسی نکتے کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں واضح کر دیا کہ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ۰ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ۰ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ۰ۭ ({ FR 6808 }) آل عمران 144:3
اس نکتے کو آپ نے اچھی طرح کھول کر بیان نہیں فرمایا ہے۔ آپ کے مجموعی اشارات کی مدد سے آپ کا جو مدعا سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ محض اجتماعی نظام قائم کرنے کی خاطر، اپنے زمانے میں رسول کے علاوہ ’’مرکزِ ملت‘‘ بھی بنائے گئے تھے۔ آپﷺ کی رسول ہونے کی حیثیت تو دائمی تھی، مگر ’’مرکزِ ملت‘‘ ہونے کی حیثیت صرف اس وقت تک تھی جب تک آپﷺ کی زندہ شخصیت نظام جماعت چلا رہی تھی۔ پھر جب آپﷺ کی وفات ہو گئی تو آپﷺ کے بعد جس زندہ شخصیت کو نظام قائم رکھنے کے لیے سربراہ بنایا گیا اور اب بنایا جائے وہ اپنے زمانے کے لیے ویسا ہی ’’مرکزِ ملت‘‘ تھا اور ہو گا جیسے حضورﷺ اپنے زمانے کے لیے تھے۔ اب سُنّتِ رسولﷺ کی پیروی بس یہی ہے کہ ہم نظامِ قائم رکھنے کے لیے یکے بعد دیگرے تسلسل کے ساتھ ’’مرکزِ ملت‘‘ قائم کرتے رہیں۔ اس معاملے میں بعد کے مرکزانِ ملت پر اگر حضورﷺ کو کوئی فوقیت ہے تو صرف یہ کہ قرآن پہنچانے والے کی حیثیت سے آپﷺ کا مقام بہت آگے ہے۔
چند اصولی سوالات
آپ کے کلام کی یہ تفسیر جو میں نے کی ہے، یہ اگر صحیح نہیں ہے تو آپ تصحیح فرما دیں۔ صاحب کلام ہونے کی حیثیت سے آپ کی اپنی تفسیر صحیح تر ہو گی۔ لیکن اگر میں نے آپ کا مطلب ٹھیک سمجھا ہے، تو اس پر چند سوالات پیدا ہوتے ہیں:
اوّل یہ کہ ’’مرکزِ ملت‘‘ سے آپ کی مراد کیا ہے؟ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول اللّٰہ ﷺ کے فرائضِ رسالت کی جو تفصیل بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ آ پ اللّٰہ کی کتاب پہنچانے والے ہیں۔ اس کتاب کی تشریح وتوضیح کرنے والے ہیں، اس کے مطابق کام کرنے کی حکمت سکھانے والے ہیں، افراد اورجماعت کا تزکیہ کرنے والے ہیں، مسلمانوں کے لیے نمونۂ تقلید ہیں، وہ راہ نُما ہیں جس کی پیروی خدا کے حکم سے واجب ہے، امر ونہی اور تحلیل وتحریم کے اختیارات رکھنے والے شارع (law giver) ہیں، قاضی ہیں، اور حاکم مُطاع ہیں۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ تمام مناصب حضورﷺ کو رسول ہونے کی حیثیت سے حاصل تھے اور منصبِ رسالت پر آپﷺ کے مامور ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ آپﷺ ان مناصب پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مامور کیے گئے ہیں۔ اس باب میں قرآن کے واضح ارشادات میں پہلے نقل کر چکا ہوں جنھیں دہرانے کی حاجت نہیں۔ اب چوں کہ ’’مرکزِ ملت‘‘ قرآن کی نہیں بلکہ آپ لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی اصطلاح ہے، اس لیے براہِ کرم آپ یہ بتائیں کہ ’’مرکزِ ملت‘‘ کا منصب ان مناصب کے ماسوا کچھ ہے؟ یا انھی مناصب کا مجموعہ ہے؟ یا ان میں سے بعض مناصب اس میں شامل ہیں اور بعض نہیں ہیں؟ اگر وہ ان کے ماسوا کچھ ہے تو وہ کیا ہے اور حضورﷺ کے اس منصب کا علم آپ کو کس ذریعے سے حاصل ہوا ہے؟ اگر وہ انھی مناصب کا مجموعہ ہے تو آپ اس کو رسالت سے الگ کیسے قرار دیتے ہیں؟ اور اگر ان میں سے بعض مناصب ’’مرکزِ ملت‘‘ کے ہیں اور بعض منصب رسالت کے تو وہ کون کون سے مناصب ہیں جو مرکزِ ملت کے منصب میں شامل ہیں اور ان کو کس دلیل سے آپ منصبِ رسالت سے الگ کرتے ہیں؟
دوسرا سوال ’’مرکزِ ملت‘‘ کے تقرر کا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس تقرر کی تین ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ کسی شخص کو اللّٰہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے مرکزِ ملت مقرر کرے۔ دوسری یہ کہ مسلمان اپنی مرضی سے اس کو منتخب کریں۔ تیسری یہ کہ وہ طاقت سے مسلط ہو کر زبردستی مرکزِ ملت بن جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’مرکزِ ملت‘‘ سے خواہ کچھ بھی مراد ہو، اس منصب پر حضور ﷺ کا تقرر ان تینوں صورتوں میں سے آخر کس صورت پر ہوا تھا؟ کیا یہ تقرر اللّٰہ نے کیا تھا؟ یا مسلمانوں نے آپ کو اس منصب کے لیے منتخب کیا تھا؟ یا حضور ﷺ خود ’’مرکزِ ملت‘‘ بن گئے تھے؟ ان میں سے جو شق بھی آپ اختیار کرتے ہیں اس کی تصریح ہونی چاہیے اور اسی طرح یہ تصریح بھی ہونی چاہیے کہ حضور ﷺ کے بعد جو بھی ’’مرکزِ ملت‘‘ بنے گا وہ خداوند عالم کی طرف سے نامزد اور مامور کیا ہوا ہو گا؟ یا مسلمان اس کو مرکز بنائیں گے؟ یا وہ خود اپنے زور سے مرکز بن جائے گا؟ اگر دونوں کے طریق تقرر میں آپ کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے تو صاف صاف یہ بات کہہ دیجیے تاکہ آپ کا موقف مبہم نہ رہے اور اگر فرق ہے تو بتائیے کہ وہ کیا فرق ہے اور اس فرق سے دونوں قسم کے مرکزوں کی حیثیت اور اختیارات میں بھی کوئی بنیادی فرق واقع ہوتا ہے یا نہیں؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ ’’پہنچانے والے کا مقام بہت آگے ہوتا ہے‘‘ فرما کر آپ نے ازراہ کرم رسول اللّٰہ ﷺ کو دوسرے ’’مرکزانِ ملت‘‘ پر جو فوقیت عطا فرمائی ہے یہ محض درجے اور مرتبے کی فوقیت ہے، یا آپ کے نزدیک دونوں کے منصبوں کی نوعیت میں بھی کوئی فرق ہے؟ زیادہ واضح الفاظ میں، میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آیا آپ کے خیال میں وہ سب اختیارات جو رسول اللّٰہ ﷺ کو ’’مرکزِ ملت‘‘ کی حیثیت سے حاصل تھے، آپﷺ کے بعد ’’مرکزِ ملت‘‘ بننے والے کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں؟ اور کیا باعتبار اختیارات دونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں؟ اور کیا دوسروں پر حضور ﷺ کو فوقیت بس اتنی ہی ہے کہ آپﷺ بعد والے مرکز کی بہ نسبت کچھ زیادہ احترام کے مستحق ہیں کیوں کہ آپﷺ نے قرآن پہنچایا ہے؟
اگر یہ آپ کا خیال ہے تو بتائیے کہ حضور ﷺ کے بعد بننے والے یا بنائے جانے والے مرکز کی حیثیت بھی کیا یہی ہے کہ اس کے فیصلے سے سرتابی کرنا تو درکنار، اس کے خلاف دل میں تنگی محسوس کرنے سے بھی آدمی کا ایمان سلب ہو جائے؟ کیا اس کی حیثیت بھی یہی ہے کہ جب وہ کسی معاملے میں اپنا فیصلہ دے دے تو مسلمانوں کو اس سے مختلف کوئی رائے رکھنے کا حق باقی نہ رہے؟ کیا اس کا مقام بھی یہی ہے کہ اس کے ساتھ مسلمان کوئی نزاع نہیں کر سکتے اور اس کے فرمان کو بے چون وچرا تسلیم کر لینے کے سوا امت کے لیے کوئی چارۂ کار نہیں ہے، اگر وہ مومن رہنا چاہتی ہو؟ کیا وہ زندہ شخصیت یا شخصیتیں جو ’’مرکز ملت‘‘ بنیں یا بنائی جائیں، اسوۂ حسنہ بھی ہیں کہ مسلمان ان کی زندگیوں کو دیکھیں اور پورے اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو بھی ان کے مطابق ڈھالتے چلے جائیں؟ کیا وہ بھی ہمارے تزکیے اور تعلیم کتاب وحکمت اور تشریح مَااَنْزَلَ اللّٰہُ کے لیے ’’مبعوث‘‘ بنے ہوئے ہیں کہ مستند ہو اُن کا فرمایا ہوا؟
کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ان سوالات پر ذرا تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالیں تاکہ اس ’’مرکزِ ملت‘‘ کی ٹھیک ٹھیک پوزیشن سب کے سامنے آ جائے جس کا ہم بہت دنوں سے چرچا سن رہے ہیں۔