محترمی ومکرمی، السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ
عنایت نامہ مورخہ ۱۷؍ اگست ۱۹۶۰ ء ملا۔ اس تازہ عنایت نامے میں آپ نے اپنے پیش کردہ ابتدائی چار سوالات میں سے پہلے سوال پر بحث رکھتے ہوئے نبوت اور سُنّت کے متعلق اپنے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے، ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ کا تصور نبوت ہی بنیادی طور پر غلط ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بنیاد ہی میں غلطی موجود ہو تو بعد کے ان سوالات پر جو اسی بنیاد سے اٹھتے ہیں، بحث کرکے ہم کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اسی لیے میں نے عرض کیا تھا کہ آپ میرے جواب پر مزید سوالات اُٹھانے کے بجائے ان اصل مسائل پر گفتگو فرمائیں جو میں نے اپنے جواب میں بیان کیے ہیں۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری اس گزارش کو قبول کرکے اوّلین بنیادی سوال پر اپنے خیالات ظاہر فرمائے ہیں۔ اب میں آپ کی، اور ان دوسرے لوگوں کی جو اس غلط فہمی میں گرفتار ہیں، کچھ خدمت انجام دے سکوں گا۔
نبوت اور سُنّت کا جو تصور آپ نے بیان کیا ہے وہ قرآن مجید کے نہایت ناقص مطالعے کا نتیجہ ہے اور غضب یہ ہے کہ آپ نے اس ناقص مطالعے پراتنا اعتماد کر لیا کہ پہلی صدی سے آج تک اس بارے میں ساری امت کے علما اور عوام کا بالاتفاق جو عقیدہ اورعمل رہا ہے اسے آپ غلط سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنے نزدیک یہ خیال کر لیا ہے کہ پونے چودہ سو سال کی طویل مدت میں تمام مسلمان نبی ﷺ کے منصب کو سمجھنے میں ٹھوکر کھا گئے ہیں، ان کے تمام علمائے قانون نے سُنّت کو مآخذ قانون ماننے میں غلطی کی ہے، اور ان کی تمام سلطنتیں اپنا قانونی نظام اس بنیاد پر قائم کرنے میں غلط فہمی کا شکار ہو گئی ہیں۔ آپ کے ان خیالات پر تفصیلی گفتگو تو میں آگے کی سطور میں کروں گا، لیکن اس گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھنڈے دل سے اپنے دینی علم کی مقدار کا خود جائزہ لیں اور خود ہی سوچیں کہ وہ علم جو آپ نے اس بارے میں حاصل کیا ہے کیا وہ اتنے بڑے زعم کے لیے کافی ہے؟ قرآن تنہا آپ ہی نے تو نہیں پڑھا ہے، کروڑوں مسلمان ہر زمانے میں اور دُنیا کے ہر حصے میں اس کو پڑھتے رہے ہیں اور بے شمار ایسے لوگ بھی اِسلامی تاریخ میں گزرے ہیں اور آج بھی پائے جاتے ہیں جن کے لیے قرآن کا مطالعہ ان کے بہت سے مشاغل میں سے ایک ضمنی مشغلہ نہیں رہا ہے، بلکہ انھوں نے اپنی عمریں اس کے ایک ایک لفظ پر غور کرنے اور اس کے مضمرات سمجھنے اور ان سے نتائج اخذ کرنے میں صرف کر دی ہیں۔ آخر آپ کو یہ غلط فہمی کیسے لاحق ہو گئی کہ نبوت جیسے بنیادی مسئلے میں یہ سب لوگ قرآن کا منشا بالکل الٹا سمجھ بیٹھے ہیں اور صحیح منشا صرف آپ پر اور آ پ جیسے چند اصحاب پر اب منکشف ہوا ہے۔ پوری تاریخ اِسلام میں آپ کسی ایک قابل ذکر عالم کا بھی نام نہیں لے سکتے جس نے قرآن سے منصبِ نبوت کا وہ تصور اخذ کیا ہو جو آپ بیان کر رہے ہیں اور سُنّت کی وہ حیثیت قرار دی ہو جو آپ قرار دے رہے ہیں۔ اگر ایسے کسی عالم کا حوالہ آپ دے سکتے ہیں تو براہ کرم اس کا نام لیجیے۔