چوتھا نکتہ جو آپ نے خلاصے کے طور پر میرے مضامین سے نکالا ہے، یہ ہے:
احادیث کے اس طرح پرکھنے کے بعد بھی یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ یہ اسی طرح کلامِ رسولﷺ ہیں جس طرح قرآن کی آیات اللّٰہ کا کلام۔
یہ ایک اور بے نظیر نمونہ ہے جو مناظرہ بازی کے بجائے بات سمجھنے کی خواہش کا آپ نے پیش فرمایا ہے۔ جس عبارت کا یہ خلاصہ آپ نے نکالا ہے، اس کے اصل الفاظ یہ ہیں:
قرآن کے کسی حکم کی مختلف ممکن تعبیرات میں سے جس شخص یا ادارے یا عدالت نے تفسیر وتعبیر کے معروف علمی طریقے استعمال کرنے کے بعد بالآخر جس تعبیر کو حکم کا اصل منشا قرار دیا ہو، اس کے علم اور دائرۂ کار کی حد تک وہی حکم خدا ہے، اگرچہ یہ دعوٰی نہیں کیا جا سکتا کہ حقیقت میں بھی وہی حکم خدا ہے۔ بالکل اسی طرح سُنّت کی تحقیق کے علمی ذرائع استعمال کرکے کسی مسئلے میں جو سُنّت بھی ایک فقیہ، یا لیجسلیچر(legislator) یا عدالت کے نزدیک ثابت ہو جائے، وہی اس کے لیے حکم رسولﷺ ہے، اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حقیقت میں رسولﷺ کا حکم وہی ہے۔‘‘
یہ عبارت اگرچہ میں پہلے نقل کر چکا ہوں، لیکن تکرار کی قباحت کے باوجود میں نے اسے پھر نقل کیا ہے تاکہ آپ خود بھی اپنے جوہر (extract) نکالنے کے فن کی داد دے سکیں اور اس اخلاقی جسارت کی داد، میں اپنی طرف سے آپ کو دیتا ہوں کہ میری عبارت کو میرے ہی سامنے توڑ مروڑ کر پیش کرکے آپ نے واقعی کمال کر دکھایا ہے۔ میں شخصی طور پر آپ کی بڑی قدر کرتا ہوں، اور ایسی باتوں کی آپ جیسے معقول انسان سے توقع نہ رکھتا تھا، مگر شاید یہ بزم طلوع اِسلام کا فیض ہے کہ اس نے آپ کو بھی یہاں تک پہنچا دیا۔