اسی سلسلے میں آپ نے ایک اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ ’’نہ سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے۔‘‘ یہ بات آپ نے ایک غلط فہمی کے تحت لکھی ہے جسے صاف کرنا ضروری ہے۔ فقہائے حنفیہ جس چیز کو ’’نسخ الکتاب بالسنۃ‘‘کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اس سے مراد دراصل قرآن کے کسی حکم عام کو مخصوص (qualify) کرنا اور اس کے ایسے مدعا کو بیان (explain) کرنا ہے جواس کے الفاظ سے ظاہر نہ ہوتا ہو۔ مثلاً: سورۂ بقرہ میں والدین اور اقربین کے لیے وصیت کا حکم دیا گیا تھا (آیت ۱۸۰)۔ پھر سورۂ نساء میں تقسیمِ میراث کے احکام نازل ہوئے اور فرمایا گیا کہ یہ حصے متوفی کی وصیت پوری کرنے کے بعد نکالے جائیں (آیات ۱۱۔۱۲) نبیﷺ نے اس کی وضاحت یہ فرما دی کہ لَا وَصِیَّۃَ لِوَارثٍ، یعنی اب وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کے حصے میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی کیوں کہ قرآن میں اللّٰہ تعالیٰ نے وارثوں کے حصے خود مقرر فرما دئیے ہیں۔ ان حصوں میں اگر کوئی شخص وصیت کے ذریعے سے کمی بیشی کرے گا تو قرآن کی خلاف ورزی کرے گا۔ اس طرح اس سُنّت نے وصیت کی اجازت عام کو، جو بظاہر قرآن کی ان آیتوں سے مترشح ہوتی تھی، غیر وارث مستحقین کے لیے خاص کر دیا اور یہ بتا دیا کہ شرعًاجو حصے وارثوں کے لیے مقرر کر دیے گئے ہیں ان میں کمی بیشی کرنے کے لیے وصیت کی اس اجازت عام سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا۔
اسی طرح قرآن کی آیتِ وضو (المائدہ۵:۶) میں پائوں دھونے کا حکم دیا گیا تھا جس میں کسی حالت کی تخصیص نہ تھی۔ نبی ﷺ نے مَسْحُ عَلَی الْخُفَّیْن پر عمل کرکے اور اس کی اجازت دے کر واضح فرما دیا کہ یہ حکم اس حالت کے لیے ہے جب کہ آدمی موزے پہنے ہوئے نہ ہو، اور موزے پہننے کی صورت میں پائوں دھونے کے بجائے مسح کرنے سے حکم کا منشا پورا ہو جاتا ہے۔ اس چیز کو خواہ نسخ کہا جائے، یا تخصیص، یا بیان۔ اس سے مراد یہی ہے، اور یہ اپنی جگہ بالکل صحیح اور معقول چیز ہے۔ اس پر اعتراض کرنے کا آخر ان لوگوں کو کیا حق پہنچتا ہے جو غیر نبی ہونے کے باوجود قرآن کے بعض صریح احکام کو محض اپنے ذاتی نظریات کی بنیاد پر ’’عبوری دور کے احکام‘‘ قرار دیتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ عبوری دور جب ان کی رائے نامبارک میں گزر جائے گا تو قرآن کے وہ احکام منسوخ ہو جائیں گے۔({ FR 6802 })