ب۔یہ نتیجہ آپ نے بالکل غلط نکالا ہے کہ سُنّت قرآنی احکام واصول کی شارح اس معنی میں ہے کہ ’’وہ قرآن کے علاوہ دین کے اصول یا احکام تجویز نہیں کرتی۔‘‘ اگر آپ اس کے بجائے ’’قرآن کے خلاف‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تو نہ صرف میں آپ سے اتفاق کرتا بلکہ تمام فقہا ومحدثین اس سے متفق ہوتے ہیں۔ لیکن آپ ’’قرآن کے علاوہ‘‘ کا لفظ استعمال کر رہے ہیں جس کے معنی: قرآن سے زائد ہی کے ہو سکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ’’زائد‘‘ ہونے اور ’’خلاف‘‘ ہونے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔({ FR 6801 }) سُنّت اگر قرآن سے زائد کوئی چیز نہ بتائے تو آپ خود سوچیں کہ اس کی ضرورت کیا ہے۔ اس کی ضرورت تو اسی لیے ہے کہ وہ قرآن کا وہ منشا واضح کرتی ہے جو خود قرآن میں صراحتاً مذکور نہیں ہوتا۔ مثلاً: قرآن ’’اقامتِ صلوٰۃ‘‘ کا حکم دے کر رہ جاتا ہے۔ یہ بات قرآن نہیں بتاتا بلکہ سُنّت بتاتی ہے کہ صلوٰۃ سے کیا مراد ہے اور اس کی اقامت کا مطلب کیا ہے۔ اس غرض کے لیے سُنّت ہی نے مساجد کی تعمیر، پنج وقتہ اذان اور نماز باجماعت کا طریقہ، نماز کے اوقات، نماز کی ہیئت، اس کی رکعتیں اور جمعہ وعیدین کی مخصوص نمازیں اور ان کی عملی صورت اور دوسری بہت سی تفصیلات ہم کو بتائی ہیں۔ یہ سب کچھ قرآن سے زائد ہے، مگر اس کے خلاف نہیں ہے۔ اسی طرح تمام شعبہ ہائے زندگی میں سُنّت نے قرآن کے منشا کے مطابق انسانی سیرت وکردار اور اِسلامی تہذیب وتمدن وریاست کی جو صورت گری کی ہے وہ قرآن سے اس قدر زائد ہے کہ قرآنی احکام کے دائرے سے سُنّت کی ہدایات کا دائرہ بدرجہا زیادہ وسیع ہو گیا ہے لیکن اس میں کوئی چیز قرآن کے خلاف نہیں ہے، اور جو چیز بھی واقعی قرآن کے خلاف ہو، اُسے فقہا ومحدثین میں سے کوئی بھی سُنّت رسول اللّٰہﷺ نہیں مانتا۔