آپ کا تیسرا سوال یہ تھا:
کیا سُنّت رسول اللّٰہa کی اس کتاب کا متن تمام مسلمانوں کے نزدیک اسی طرح متفق علیہ اور شک وتنقید سے بالاتر ہے جس طرح قرآن کا متن؟
اور چوتھا سوال یہ کہ:
اگر کوئی ایسی کتاب موجود نہیں تو پھر جس طرح یہ بآسانی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فلاں فقرہ قرآن مجید کی آیت ہے اسی طرح یہ کیوں کر معلوم کیا جائے گا کہ فلاں بات سُنّت رسول اللّٰہa ہے یا نہیں؟
ان سوالات کے جواب میں اپنے جن مضامین کی طرف میں نے آپ کو توجہ دلائی تھی ان کو اگر آپ نے پڑھا ہے تو ان کے اندر یہ عبارتیں ضرور آپ کی نظر سے گزری ہوں گی:
بلاشبہ سُنّت کی تحقیق اور اس کے تعین میں بہت سے اختلافات ہوئے ہیں اور آیندہ بھی ہو سکتے ہیں لیکن ایسے ہی اختلافات قرآن کے بہت سے احکام واشارات کے معنی متعین کرنے میں بھی ہوئے ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ ایسے اختلافات اگر قرآن کو چھوڑ دینے کے لیے دلیل نہیں بن سکتے تو سُنّت کو چھوڑ دینے کے لیے انھیں کیسے دلیل بنایا جا سکتا ہے؟ یہ اصول پہلے بھی مانا گیا ہے اور آج بھی اسے ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ جو شخص بھی کسی چیز کے حکمِ قرآن یا حکمِ سُنّت ہونے کا دعوٰی کرے وہ اپنے قول کی دلیل دے۔ اس کا قول اگر وزنی ہو گا تو امت کے اہلِ علم سے، یا کم از کم ان کے کسی بڑے گروہ سے اپنا سکہ منوا لے گا اور جو بات دلیل کے اعتبار سے بے وزن ہو گی وہ بہرحال نہ چل سکے گی۔ یہی اصول ہے جس کی بِنا پر دُنیا کے مختلف حصوں میں کروڑوں مسلمان کسی ایک مذہب فقہی پر مجتمع ہوئے ہیں اور ان کی بڑی بڑی آبادیوں نے احکام قرآنی کی کسی تفسیر وتعبیر اور سنن ثابتہ کے کسی مجموعے پر اپنی اجتماعی زندگی کے نظام کو قائم کیا ہے۔ (ترجمان القرآن، جنوری ۵۸، ص۲۱۹)
’’اگر مختلف فیہ، سُنّت کا بجائے خود مرجع وسند (authority)ہونا نہیں ہے،بلکہ اختلاف جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے اور ہوا ہے وہ اس امر میں ہے کہ کسی خاص مسئلے میں جس چیز کے سُنّت ہونے کا دعوٰی کیا گیا ہو وہ فی الوقت سُنّت ثابتہ ہے یا نہیں، تو ایسا ہی اختلاف قرآن کی آیات کا مفہوم ومنشا متعین کرنے میں بھی واقع ہوتا ہے۔ ہر صاحب علم یہ بحث اُٹھاسکتا ہے کہ جو حکم کسی مسئلے میں قرآن سے نکالا جا رہا ہے وہ درحقیقت اس سے نکلتا ہے یا نہیں۔ فاضل مکتوب نگار (جسٹس ایس۔ اے رحمٰن) نے خود قرآن مجید میں اختلاف تفسیروتعبیر کا ذکر کیا ہے اور اس اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود وہ بجائے خود قرآن کو مرجع وسند مانتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اسی طرح الگ الگ مسائل کے متعلق سنتوں کے ثبوت وتحقیق میں اختلاف کی گنجائش ہونے کے باوجود فی نفسہٖ ’’سُنّت‘‘ کو مرجع وسند تسلیم کرنے میں انھیں کیوں تامل ہے۔
یہ بات ایک ایسے فاضل قانون دان سے جیسے کہ محترم مکتوب نگار ہیں، مخفی نہیں رہ سکتی کہ قرآن کے کسی حکم کی مختلف ممکن تعبیرات میں سے جس شخص، ادارے یا عدالت نے تفسیر وتعبیر کے معروف علمی طریقے استعمال کرنے کے بعد بالآخر جس تعبیر کو حکم کا اصل منشا قرار دیا ہو، اس کے علم اور دائرۂ کار کی حد تک وہی حکمِ خدا ہے۔ اگرچہ یہ دعوٰی نہیں کیا جا سکتا کہ حقیقت میں بھی وہی حکمِ خدا ہے۔ بالکل اسی طرح سُنّت کی تحقیق کے علمی ذرائع استعمال کرکے، کسی مسئلے میں جو سُنّت بھی ایک فقیہ، یا لیجسلیچر، (LEGISLATOR) یا عدالت کے نزدیک ثابت ہو جائے وہی اس کے لیے حکمِ رسولa ہے۔ اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ حقیقت میں رسولa کا حکم وہی ہے۔ ان دونوں صورتوں میں یہ امر تو ضرور مختلف فیہ رہتا ہے کہ میرے نزدیک خدا یا رسول کا حکم کیا ہے اور آپ کے نزدیک کیا، لیکن جب تک میں اور آپ خدا اور رسولa کو آخری سند (final authority)مان رہے ہیں، ہمارے درمیان یہ امر مختلف فیہ نہیں ہو سکتا کہ خدا اور اس کے رسولa کا حکم بجائے خود ہمارے لیے قانون واجب الاتباع ہے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۵۸ء، ص ۱۶۲)
سنتوں کا معتدبہ حصہ فقہائ اور محدثین کے درمیان متفق علیہ ہے، اور ایک حصے میں اختلافات ہیں۔ بعض لوگوں نے کسی چیز کو سُنّت مانا ہے اور بعض نے اسے نہیں مانا، مگر اس طرح کے تمام اختلافات میں صدیوں اہلِ علم کے درمیان بحثیں جاری رہی ہیں اور نہایت تفصیل کے ساتھ ہر نقطۂ نظر کا استدلال اور وہ بنیادی مواد جس پر یہ استدلال مبنی ہے، فقہ اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ آج کسی صاحبِ علم کے لیے بھی یہ مشکل نہیں ہے کہ کسی چیز کے سُنّت ہونے یا نہ ہونے کے متعلق خود تحقیق سے کوئی رائے قائم کر سکے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ سُنّت کے نام سے متوحش ہونے کی کسی کے لیے بھی کوئی معقول وجہ ہو سکتی ہے، البتہ ان لوگوں کا معاملہ مختلف ہے جو اس شعبۂ علم سے واقف نہیں ہیں اور جنھیں بس دور ہی سے حدیثوں میں اختلافات کا ذکر سن کر گھبراہٹ لاحق ہو گئی ہے۔‘‘ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۵۸ء، ص۱۶۹)
مَیں نے آپ کے مذکورۂ بالا دونوں سوالات کے جواب میں ان عبارات کے مطالعے کا مشورہ اس امید پر دیا تھا کہ ایک تعلیم یافتہ ذی ہوش آدمی جو بات سمجھنے کی خواہش رکھتا ہو، انھیں پڑھ کر اپنی اس بنیادی غلطی کو خود سمجھ لے گا جو اس کے سوالات میں موجود ہے، اور اس کی سمجھ میں آپ سے آپ یہ بات آ جائے گی کہ سُنّت کی تحقیق میں اختلاف، اس کو آئین کی بنیاد بنانے میں اسی طرح مانع نہیں ہو سکتا جس طرح قرآن کی تعبیر میں اختلاف اسے آئین کی بنیاد قرار دینے میں مانع نہیں ہے لیکن آپ نے نہ اس غلطی کو محسوس کیا نہ بات سمجھنے کی کوشش فرمائی اور الٹے مزید کچھ سوالات چھیڑ دیے۔ میں آپ کے چھیڑے ہوئے ان سوالات سے تو بعد میں تعرض کروں گا، پہلے آپ یہ بات صاف کریں کہ اگر آپ کے نزدیک صرف وہی چیز آئین کی بنیاد بن سکتی ہے جس میں اختلاف کی گنجائش نہ ہو تو اس آسمان کے نیچے دُنیا میں وہ کیا چیز ایسی ہے جو انسانی زندگی کے معاملات ومسائل سے بحث کرتی ہو اور اس میں انسانی ذہن اختلاف کی کوئی گنجائش نہ پا سکیں؟ آپ قرآن کے متعلق اس سے زیادہ کوئی دعوٰی نہیں کر سکتے کہ اس کا متن متفق علیہ ہے اور اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ فلاں فقرہ قرآن کی آیت ہے لیکن کیا آپ اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ آیات قرآنی کا منشا سمجھنے، اور ان سے احکام اخذ کرنے میں بے شمار اختلافات ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں؟ اگر ایک آئین کی اصل غرض الفاظ بیان کرنا نہیں، بلکہ احکام بیان کرنا ہے تو اس غرض کے لحاظ سے الفاظ میں اتفاق کا کیا فائدہ ہوا جب کہ احکام اخذ کرنے میں اختلاف ہے، رہا ہے اور ہمیشہ ہو سکتا ہے؟ اس لیے یا تو آپ کو اپنے اس نقطہ نظر میں تبدیلی کرنی ہو گی کہ ’’آئین کی بنیاد صرف وہی چیز بن سکتی ہے جس میں اختلاف نہ ہو سکے‘‘ یا پھر قرآن کو بھی اساسِ آئین ماننے سے انکار کرنا ہو گا۔ درحقیقت اس شرط کے ساتھ تو دُنیا میں سرے سے کوئی آئین ہو ہی نہیں سکتا۔ جن سلطنتوں کا کوئی مکتوب آئین (written constitution) سرے سے ہے ہی نہیں (مثلاً برطانیہ) ان کے نظام کا تو خیر خدا ہی حافظ ہے، مگر جن کے ہاں ایک مکتوب آئین موجود ہے، ان کے ہاں بھی صرف آئین کی عبارات ہی متفق علیہ ہیں۔ تعبیرات ان میں سے کسی کی متفق علیہ ہوں تو براہِ کرم اس کی نشان دہی فرمائیں۔