آپ نے چار سوالات اس بِنا پر اُٹھائے تھے کہ ہم نے آئین کمیشن کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ’’اِسلامی آئین کی اساس کے طور پر سُنّت کا ذکر کیا ہے۔‘‘ دوسرے الفاظ میں آپ کے یہ سوالات سُنّت کی قانونی حیثیت سے متعلق تھے۔ اس سلسلے میں آپ کا پہلا سوال یہ تھا:
آپ کے نزدیک سُنّت سے کیا مراد ہے؟ یعنی جس طرح ’’کتاب‘‘ سے مراد قرآن ہے اسی طرح سُنّت (یعنی سُنّتِ رسول اللّٰہa ) سے کیا مراد ہے؟
اس کے جو جوابات میرے مذکورہ بالا مضامین میں آپ کے سامنے آئے وہ یہ ہیں:
یہی محمدی تعلیم وہ بالاتر قانون (supreme law) ہے جو حاکم اعلیٰ (یعنی اللّٰہ تعالیٰ) کی مرضی کی نمایندگی کرتا ہے۔ یہ قانون محمد a سے ہم کو دو شکلوں میں ملا ہے۔ ایک: قرآن، جو لفظ بلفظ خداوندِ عالَم کے احکام وہدایات پر مشتمل ہے۔ دوسرے: محمد a کا اسوۂ حسنہ، یا آپ کی سُنّت، جو قرآن کے منشا کی توضیح وتشریح کرتی ہے۔ محمد a خدا کے محض نامہ بر نہیں تھے کہ اس کی کتاب پہنچا دینے کے سوا ان کا کوئی کام نہ ہوتا۔ وہ اس کے مقرر کیے ہوئے راہ نُما، حاکم اور معلم بھی تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ اپنے قول اور عمل سے قانونِ الٰہی کی تشریح کریں، اس کا صحیح منشا سمجھائیں، اس کے منشا کے مطابق افراد کی تربیت کریں، پھر تربیت یافتہ افراد کو ایک منظم جماعت کی شکل دے کر معاشرے کی اصلاح کے لیے جدوجہد کریں، پھر اصلاح شدہ معاشرے کو ایک صالح ومصلح ریاست کی صورت دے کر یہ دکھا دیں کہ اِسلام کے اصولوں پر مکمل تہذیب کا نظام کس طرح قائم ہوتا ہے۔ آں حضرتa کا یہ پورا کام، جو ۲۳ سال کی پیغمبرانہ زندگی میں آپa نے انجام دیا، وہ سُنّت ہے جو قرآن کے ساتھ مل کر حاکمِ اعلیٰ کے قانونِ برتر کی تشکیل وتکمیل کرتی ہے اور اسی قانونِ برتر کا نام اِسلامی اصطلاح میں شریعت ہے۔
(ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۵۸ء، ص ۲۱۰۔۲۱۱)
یہ ایک ناقابلِ انکار تاریخی حقیقت ہے کہ محمدa نے نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے صرف قرآن پہنچا دینے پر اکتفا نہیں کیا تھا، بلکہ ایک ہمہ گیر تحریک کی راہ نُمائی بھی کی تھی جس کے نتیجے میں ایک مسلم سوسائٹی پیدا ہوئی، ایک نیا نظامِ تہذیب وتمدن وجود میں آیا اور ایک ریاست قائم ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن پہنچانے کے سوا یہ دوسرے کام جو محمد a نے کیے یہ آخر کس حیثیت سے تھے؟ آیا یہ نبی کی حیثیت سے تھے جس میں آپ اسی طرح خدا کی مرضی کی نمایندگی کرتے تھے جس طرح کہ قرآن؟ یا آپa کی پیغمبرانہ حیثیت قرآن سنا دینے کے بعد ختم ہو جاتی تھی اور اس کے بعد آپ عام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان رہ جاتے تھے جس کا قول وفعل اپنے اندر بجائے خود کوئی قانونی سند وحجت نہیں رکھتا؟ پہلی بات تسلیم کی جائے تو سُنّت کو قرآن کے ساتھ قانونی سند وحجت ملنے کے سوا چارہ نہیں رہتا۔ البتہ دوسری صورت میں اسے قانون قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی۔
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے وہ اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ محمدaصرف نامہ بر نہیں تھے، بلکہ خدا کی طرف سے مقرر کیے ہوئے رہبر، حاکم اور معلم بھی تھے جن کی پیروی واطاعت مسلمانوں پر لازم تھی اور جن کی زندگی کو تمام اہلِ ایمان کے لیے نمونہ قرار دیا گیا تھا۔ جہاں تک عقل کا تعلق ہے وہ یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ ایک نبی صرف خدا کا کلام پڑھ کر سنا دینے کی حد تک تو نبی ہو اور اس کے بعد وہ محض ایک عام آدمی رہ جائے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ آغازِ اِسلام سے آج تک بالاتفاق ہر زمانے میں اور تمام دُنیا میں محمدa کو نمونہ واجب الاتباع اور ان کے امرونہی کو واجب الاطاعت مانتے رہے ہیں۔ حتّٰی کہ کوئی غیر مسلم عالِم بھی اس امرِ واقعی سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ آں حضرت a کی یہی حیثیت مانی ہے اور اسی بِنا پر اِسلام کے قانونی نظام میں سُنّت کو قرآن کے ساتھ دوسرا ماخذ قانون تسلیم کیا گیا ہے۔ اب میں نہیں جانتا کہ کوئی شخص سُنّت کی اس قانونی حیثیت کو کیسے چیلنج کر سکتا ہے جب تک وہ صاف صاف یہ نہ کہے کہ محمد a صرف تلاوتِ قرآن کی حد تک نبی تھے اور یہ کام کر دینے کے ساتھ ہی ان کی حیثیت نبوی ختم ہوجاتی تھی۔ پھر اگر وہ ایسا دعوٰی کرے بھی تو اسے بتانا ہو گا کہ یہ مرتبہ وہ آں حضرتa کو بطور خود دے رہا ہے یا قرآن نے حضورa کو یہی مرتبہ دیا ہے؟ پہلی صورت میں اس کے قول کو اِسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ دوسری صورت میں اسے قرآن سے اپنے دعوے کا ثبوت پیش کرنا ہو گا۔
(ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۵۸ء، ص ۲۱۶۔۲۱۷)
اب آپ فرمائیں کہ آپ کو اپنے اس سوال کا جواب ملا یا نہیں کہ ’’سُنّت سے مراد کیا ہے؟‘‘ اور آپ کو یہ معلوم ہوا یا نہیں کہ اِسلامی آئین کی اساس کے طور پر جس سُنّت کا ذکر کیا جاتا ہے وہ کیا چیز ہے؟ دوسرے سوالات چھیڑنے سے پہلے آپ کو یہ بات صاف کرنی چاہیے تھی کہ آیا آپ کے نزدیک رسول اللّٰہ a نے قرآن پڑھ کر سنا دینے کے سوا دُنیا میں اور کوئی کام کیا ہے یا نہیں؟ اگر کیا ہے تو وہ کس حیثیت میں تھا؟ اگر آپ کی رائے میں یہ کام کر دینے کے بعد آں حضرتa صرف ایک مسلمان تھے عام مسلمانوں کی طرح، اور ان زائد از تلاوتِ قرآن اقوال وافعال میں، آں حضرتa کی حیثیت ایک نبی کی نہ تھی تو صاف صاف یہ بات کہیے اور یہ بھی بتائیے کہ آپ کی اس رائے کا ماخذ کیا ہے؟ یہ آپ کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے یا قرآن سے اس کا ثبوت ملتا ہے؟ اور اگر آپ یہ بات مانتے ہیں کہ خدا کے مقرر کردہ ہادی، حاکم، قاضی، معلم، مربی کی حیثیت سے آں حضورa نے ایک مسلم معاشرہ تیار کرنے اور ایک ریاست کا نظام بنا کر اور چلا کر دکھانے کا جو کارنامہ انجام دیا اس میں آپa کی حیثیت ایک نبی کی تھی تو یہ وہی سُنّت ہے یا نہیں جسے اِسلام میں آئین کی اساس کا مرتبہ حاصل ہونا چاہیے؟ یہ بحث بعد کی ہے کہ اس سُنّت کا اطلاق کن چیزوں پر ہوتا ہے اور کن پر نہیں ہوتا۔ پہلے تو آپ یہ بات صاف کریں کہ قرآن کے علاوہ سُنّت رسولa بجائے خود کوئی چیز ہے یا نہیں؟ اور اس کو آپ قرآن کے ساتھ ماخذِ قانون مانتے ہیں یا نہیں؟ اور نہیں مانتے تو اس کی دلیل کیا ہے؟ یہ بنیادی بات جب تک صاف نہ ہو لے، ان ضمنی سوالات پر جو آپ نے اپنے دوسرے عنایت نامے میں چھیڑے ہیں، بحث کرنے کا آخر فائدہ کیا ہے؟