یہ ہے وہ نقطہ عدل اورمقامِ توسط جس کی دنیا اپنی ترقی اور خوش حالی، اخلاقی امن کے لیے محتاج اور سخت محتاج ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں بیان کر چکا ہوں، دنیا ہزاروں سال سے تمدن میں عورت کا …… یعنی عالمِ انسانی کے پورے نصف حصے کا……مقام متعین کرنے میں ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ کبھی افراط کی طرف جاتی ہے اور کبھی تفریط کی طرف، اور یہ دونوں انتہائیں اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔ تجربات اور مشاہدات اس نقصان پر شاہد ہیں۔ ان انتہائوں کے درمیان عدل و توسط کا مقام، جو عقل و فطرت کے عین مطابق اور انسانی ضروریات کے لیے عین مناسب ہے، وہی ہے جو اسلام نے تجویز کیا ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں متعدد ایسے موانع پیدا ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے لوگوں کے لیے اس صراطِ مستقیم کو سمجھنا اور اس کی قدر کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ان موانع میں سب سے اہم مانع یہ ہے کہ زمانہ جدید کا انسان عمومًا ’’یرقان‘‘ میں مبتلا ہوگیا ہے اور مشرق کے فرنگیت زدہ لوگوں پر اس یرقان کی ایک اور زیادہ خطرناک قسم کا حملہ ہوا ہے جسے مَیں ’’یرقانِ ابیض‘‘ کہتا ہوں۔ مَیں اپنی اس صاف گوئی پر اپنے دوستوں اوربھائیوں سے معافی کا خواست گار ہوں۔ مگر جو حقیقت ہے اس کے اظہار میں کوئی مروت مانع نہ ہونی چاہیے۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ اسلام کا کوئی حکم اورکوئی مسئلہ ایسا نہیں جو ثابت شدہ علمی حقائق کے خلاف ہو۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ جو کچھ علمی حقیقت ہے وہی عین اسلام ہے۔ مگر اسے دیکھنے کے لیے بے رنگ نگاہ کی ضرورت ہے تاکہ ہر چیز کو اس کے اصلی رنگ میں دیکھ سکے۔ وسیع نظر کی ضرورت ہے تاکہ ہر چیز کے تمام پہلوئوں کودیکھ سکے، کھلے دل اور سلیمِ فطرت کی ضرورت ہے تاکہ حقائق جیسے کچھ بھی ہوں انھیں ویسا ہی تسلیم کرے اور اپنے رُجحانات کے تابع بنانے کی بجائے رجحاناتِ نفس کو ان کے تابع کر دے۔ جہاں یہ چیز نہ ہو وہاں اگر علم ہو بھی تو بے کار ہے۔ رنگین نگاہ جو کچھ دیکھے گی اسی رنگ میں دیکھے گی جو اس پر چڑھا ہوا ہے۔ محدود نظر مسائل اور معاملات کے صرف انھی گوشوں تک جا سکے گی جو اس زاویہ کے سامنے واقع ہوں جس سے وہ انھیں دیکھ رہی ہے۔ پھر ان سب کے باوجود جو علمی حقائق اپنی اصلی حالت میں اندر تک پہنچ جائیں گے ان پر بھی دل کی تنگی اور فطرت کی کجی اپنا عمل کرے گی۔ وہ حقائق سے مطالبہ کرے گی کہ اس کے داعیاتِ نفس اور اس کے جذبات و رجحانات کے موافق ڈھل جائیں اور اگر وہ نہ ڈھلیں گے تو وہ انھیں حقائق جاننے کے باوجود نظرانداز کر دے گی اور اپنی خواہشات کا اتباع کرے گی۔ ظاہر ہے کہ اس مرض میں جب انسان گرفتار ہو تو علم، تجربہ، مشاہدہ کوئی چیز بھی اس کی راہ نمائی نہیں کر سکتی اور ایسے مریض کے لیے قطعی ناممکن ہے کہ وہ اسلام کے کسی حکم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ سکے، کیوں کہ اسلام دینِ فطرت بلکہ عین فطرت ہے۔ دنیائے مغرب کے لیے اسلام کو سمجھنا اسی لیے مشکل ہو گیا ہے کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہو گئی ہے۔ اس کے پاس جتنا بھی ’’علم‘‘{ FR 6862 }ہے وہ سب کا سب ’’اسلام‘‘ ہے۔ مگر خود اس کی اپنی نگاہ رنگین ہے۔ پھر یہی رنگ ’’یرقانِ ابیض‘‘ بن کر مشرق کے نئے تعلیم یافتہ طبقہ کی نگاہ پر چھا گیا ہے اور یہ بیماری انھیں بھی حقائق علمیہ سے صحیح نتائج نکالنے اور مسائلِ حیات کو فطری نگاہ سے دیکھنے میں مانع ہوتی ہے۔ ان میں سے جو مسلمان ہیں وہ ہو سکتا ہے کہ دینِ اسلام پر ایمان رکھتے ہوں۔ اس کی صداقت کے معترف بھی ہوں۔ اتباعِ دین کے جذبے سے بھی خالی نہ ہوں۔ مگر وہ غریب اپنی آنکھوں کے یرقان کا کیا کریں کہ جو کچھ ان آنکھوں سے دیکھتے ہیں اس کا رنگ ہی انھیں صبغۃ اللہ کے خلاف نظر آتا ہے۔
دوسری وجہ جو فہم صحیح میں مانع ہوتی ہے، یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جب اسلام کے کسی مسئلہ پر غور کرتے ہیں تو اس نظام اور سسٹم پر بہ حیثیت مجموعی نگاہ نہیں ڈالتے جس سے متعلق وہ مسئلہ ہوتا ہے، بلکہ نظام سے الگ کر کے مجرد اس خاص مسئلے کو زیرِ بحث لے آتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ تمام حکمتوں سے خالی نظر آنے لگتا ہے اور اس میں طرح طرح کے شکوک ہونے لگتے ہیں۔ سود کے مسئلہ میں یہی ہوا کہ اسے اسلام (یعنی فطرت) کے اصولِ معیشت اور نظامِ معاشی سے الگ کرکے دکھایا گیا۔ ہزاروں سقم اس میں نظر آنے لگے، یہاں تک کہ بڑے بڑے صاحبِ علم لوگوں کو بھی مقاصدِ شریعت کے خلاف اس میں ترمیم کی ضرورت محسوس ہوئی۔ غلامی، تعدادِ ازدواج، حقوق الزوجین اور ایسے ہی بہت سے مسائل میں اسی بنیادی غلطی کا اعادہ کیا گیا ہے اور پردہ کا مسئلہ بھی اسی کا شکار ہوا ہے۔ اگر آپ پوری عمارت دیکھنے کی بجائے صرف ایک ستون کو دیکھیں گے تو لامحالہ آپ کو حیرت ہو گی کہ یہ آخر کیوں لگایا گیا ہے۔ آپ کو اس کا قیام تمام حکمتوں سے خالی نظر آئے گا۔ آپ کبھی نہ سمجھیں گے کہ انجینئر نے عمارت کو سنبھالنے کے لیے کس تناسب اور موزونیت کے ساتھ اسے لگایا ہے اور اسے گرا دینے سے پوری عمارت کو کیا نقصان پہنچے گا۔ بالکل ایسی ہی مثال پردے کی ہے۔ جب وہ اس نظامِ معاشرت سے الگ کر لیا جائے گا جس میں وہ عمارت کے ستون کی طرح ایک ضرورت اور مناسبت کو ملحوظ رکھ کر نصب کیا گیا ہے تو وہ تمام حکمتیں نگاہوں سے اوجھل ہو جائیں گی جو اس سے وابستہ ہیں اور یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہ آ سکے گی کہ نوعِ انسانی کی دونوں صنفوں کے درمیان یہ امتیازی حدود آخر کیوں قائم کیے گئے ہیں۔ پس ستون کی حکمتوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس پوری عمارت کو دیکھ لیا جائے جس میں وہ نصب کیا گیا ہے۔
اب اسلام کا حقیقی پردہ آپ کے سامنے ہے۔ وہ نظامِ معاشرت بھی آپ کے سامنے ہے جس کی حفاظت کے لیے پردے کے ضوابط مقرر کیے گئے ہیں۔ اس نظام کے وہ تمام ارکان بھی آپ کے سامنے ہیں جن کے ساتھ ایک خاص توازن کو ملحوظ رکھ کر پردہ کا رکن مربوط کیا گیا ہے۔ وہ تمام ثابت شدہ علمی حقائق بھی آپ کے سامنے ہیں جن پر اس پورے نظامِ معاشرت کی بنا رکھی گئی ہے۔ ان سب کو دیکھ لینے کے بعد فرمائیے کہ اس میں کہاں آپ کم زوری پاتے ہیں؟ کس جگہ بے اعتدالی کا کوئی ادنیٰ سا شائبہ بھی نظر آتا ہے؟ کون سا مقام ایسا ہے جہاں… کسی خاص گروہ کے رجحان سے قطع نظر محض علمی و عقلی بنیادوں پر… کوئی اصلاح تجویز کی جا سکتی ہو؟ میں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ زمین اور آسمان جس عدل پر قائم ہیں، کائنات کے نظام میں جو کمال درجہ کا تسویہ پایا جاتا ہے، ایک ذرہ کی ترکیب اور نظامِ شمسی کی بندش میں جیسا مکمل توازن و تناسب آپ دیکھتے ہیں، ویسا ہی عدل و تسویہ اور توازن و تناسب اس نظامِ معاشرت میں بھی موجود ہے۔ افراط اور تفریط اور یک رخی جو انسانی کاموں کی ناگزیر کم زوری ہے اس سے یہ نظام یک سر خالی ہے۔ اس میں اصلاح تجویز کرنا انسان کی قدرت سے باہر ہے۔ انسان اپنی عقل خام کی مداخلت سے اگر اس میں کوئی ادنیٰ رد و بدل بھی کرے گا تو اس کی اصلاح نہ کرے گا بلکہ اس کے توازن کو بگاڑ دے گا۔
افسوس! میرے پاس ایسے ذرائع نہیں ہیں کہ اپنے ان انسانی بھائیوں تک اپنی آواز پہنچا سکوں جو یورپ، امریکا، روس اور جاپان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک صحیح معتدل نظامِ تمدن نہ پانے ہی کی وجہ سے اپنی زندگی کو تباہ کر رہے ہیں اور دنیا کی دوسری قوموں کی تباہی کا بھی موجب بن رہے ہیں۔ کاش مَیں ان تک وہ آبِ حیات پہنچا سکتا جس کے وہ درحقیقت پیاسے ہیں، چاہے وہ اس پیاس کو محسوس نہ کرتے ہوں! تاہم میرے اپنے ہم سایہ ملک کے ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی میری دست رس سے قریب ہیں۔ ان میں اکثر میری زبان بھی سمجھتے ہیں۔ مَیں انھیں دعوت دیتا ہوں کہ مسلمانوں کے ساتھ تاریخی اور سیاسی جھگڑوں کی بدولت جو تعصب ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف پیدا ہو گیا ہے اس سے اپنے دلوں کو صاف کرکے محض طالبِ حق ہونے کی حیثیت سے اسلام کے اس نظامِ معاشرت کو دیکھیں جسے ہم نے بے کم و کاست اس کتاب میں بیان کر دیا ہے۔ پھر اس مغربی نظامِ معاشرت سے اس کا موازنہ کریں جس کی طرف وہ بے تحاشا دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ اور آخر میں میری یا کسی اور کی خاطر نہیں بلکہ خود اپنی بھلائی کی خاطر فیصلہ کریں کہ ان کی حقیقی فلاح کس طریقہ میں ہے۔
اس کے بعد مَیں عام ناظرین کی طرف سے رُخ پھیر کر چند الفاظ اپنے ان گم راہ بھائیوں سے عرض کروں گا جو مسلمان کہلاتے ہیں۔
ہمارے بعض نئے تعلیم یافتہ مسلمان بھائی ان تمام باتوں کو تسلیم کرتے ہیں جو اُوپر بیان کی گئی ہیں۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ اسلام کے قوانین میں حالات زمانہ کے لحاظ سے شدت اور تخفیف کی تو کافی گنجائش ہے جس سے تم خود بھی شاید انکار نہیں کر سکتے۔ پس ہماری خواہش صرف اس قدر ہے کہ اسی گنجائش سے فائدہ اٹھایا جائے۔ موجودہ زمانے کے حالات پردہ میں تخفیف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان عورتیں مدرسوں اورکالجوں میں جائیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ ایسی تربیت حاصل کریں جس سے ملک کے تمدنی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی مسائل کو سمجھنے اور انھیں حل کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اس کے بغیر مسلمان زندگی کی دوڑ میں ہم سایہ قوموں سے پیچھے رہے جاتے ہیں اور آگے چل کر اندیشہ ہے کہ اور زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔ ملک کی سیاسی زندگی میں عورتوں کو جو حقوق دیے جا رہے ہیں اگر ان سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت مسلمان عورتوں میں پیدا نہ ہوئی، اور پردے کی قیود کے سبب سے وہ فائدہ نہ اٹھا سکیں گی، تو ملک کے سیاسی ترازو میں مسلمانوں کا وزن بہت کم رہ جائے گا۔ دیکھو، دنیائے اسلام کی ترقی یافتہ اقوام مثلاً: ترکی اور ایران نے بھی زمانے کے حالات دیکھ کر اسلامی حجاب میں بہت کچھ تخفیف{ FR 6863 } کر دی ہے اور اس سے چند ہی سال کے اندر نمایاں فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ اگر ہم بھی انھی کے نقشِ قدم پر چلیں تو آخر اس میں کیا قباحت ہے؟
یہ جتنے خطرات بیان کیے جاتے ہیں۔ ہم ان سب کو جوں کا توں تسلیم کرتے ہیں۔ بلکہ اگر خطرات کی فہرست میں اس سے دس گنا اور اضافہ ہو جائے تب بھی کوئی مضایقہ نہیں۔ بہرحال اس نوعیت کے کسی خطرے کی بنا پر بھی اسلام کے قانون میں ترمیم یا تخفیف جائز نہیں ہو سکتی۔ دراصل ایسے تمام خطرات کی نوعیت یہ ہے کہ مثلاً آپ قصدًا اپنی حماقت سے یا مجبورًا اپنی کم زوری کی وجہ سے ایک کثیف اور مضرِ صحت ماحول میں رہتے ہوں اور وہاں حفظانِ صحت کے اُصولوں پر عمل کرنا آپ کے لیے نہ صرف مشکل ہو رہا ہوں، بلکہ گندے لوگوں کی بستی میں آپ کے لیے گندگی اختیار کیے بغیر جینا تک دشوار ہو۔ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ حفظانِ صحت کے اُصولوں کی ترمیم یا تخفیف کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ ان اصولوں کوصحیح سمجھتے ہیں تو آپ کا فرض ے کہ اپنے ماحول سے لڑ کر اسے پاک بنائیں۔ اگر لڑنے کی جرأت و ہمت نہیں اور اپنی کم زوری کی وجہ سے آپ اپنے ماحول سے مغلوب ہیں تو جائیے اور جوجو کثافتیں بھی آپ پر مسلط ہوں ان میں آلودہ ہو جائیے۔ آخر آپ کے لیے قوانینِ صحت میں ترمیم یا تخفیف کیوں کی جائے؟ اور اگر آپ واقعی ان قوانین کو غلط سمجھتے ہیں اور اس گندگی سے آپ کی اپنی طبیعت بھی مانوس ہو چکی ہے تو آپ اپنے لیے جو چاہے قانون بنا لیجیے۔ پاکی اورطہارت کے قانون میں تو ان لوگوں کی خواہشات کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی جو گندگی کی طرف میلان رکھتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ ہر قانون کی طرح اسلامی قانون میں بھی حالات کے لحاظ سے شدت اور تخفیف کی گنجائش ہے، مگر ہر قانون کی طرح اسلامی قانون بھی اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ شدت یا تخفیف کا فیصلہ کرنے کے لیے حالات کو اسی نظر سے اور اسی اسپرٹ میں دیکھا جائے جو اسلام کی نظر اور اسلام کی اسپرٹ ہے۔ کسی مختلف نقطہ نگاہ سے حالات کو دیکھنا اور پھر تخفیف کی قینچی لے کر دفعاتِ قانون پر حملہ آور ہو جانا تخفیف کی تعریف میں نہیں آتا بلکہ یہ سادہ اور صریح تحریف ہے۔ جن حالات کو غیر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھ کر قانون اسلامی میں ’’تخفیف‘‘ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، انھیں اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ایسے حالات میں تخفیف کی نہیں بلکہ مزید شدت کی ضرورت ہے۔ تخفیف صرف اس وقت کی جا سکتی ہے جب کہ قانون کے مقاصد دوسرے ذرائع سے پورے نہ ہو رہے ہوں، بلکہ دوسری تمام قوتیں انھیں ضائع کرنے میں لگی ہوئی ہوں، اور ان کے مقاصد کے حصول کا تمام تر مدار صرف تحفظات ہی پر آ ٹھہرا ہو، تو ایسی حالت میں صرف وہی شخص تخفیف کا خیال کر سکتا ہے جو قانون کی اسپرٹ سے قطعی نابلد ہو۔
پچھلے اوراق میں ہم تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ اسلامی قانون معاشرت کا مقصد ضابطہ ازدواج کی حفاظت، صنفی انتشار کی روک تھام اور غیر معتدل شہوانی تحریکات کا انسداد ہے۔ اس غرض کے لیے شارع نے تین تدبیریں اختیارکی ہیں۔ ایک اصلاحِ اخلاق۔ دوسرے تعزیری قوانین۔ تیسرے انسدادی تدابیر یعنی ستر و حجاب۔ یہ گویا تین ستون ہیں جن پر یہ عمارت کھڑی کی گئی ہے، جن کے استحکام پر اس عمارت کا استحکام منحصر ہے اور جن کا انہدام دراصل اس پوری عمارت کا انہدام ہے۔ آئیے اب اپنے ملک کے موجودہ حالات پر نظر ڈال کردیکھیے کہ ان تینوں ستونوں کا آپ کے ہاں کیا حال ہے؟
پہلے اپنے اخلاقی ماحول کو لیجیے۔ آپ اس ملک میں رہتے ہیں جس کی پچھتر فی صدی آبادی آپ ہی کی اگلی پچھلی کوتاہیوں کو وجہ سے اب تک غیر مسلم ہے، جس پر ایک غیر مسلم قوم حکم ران ہے، جس پر ایک غیر مسلم تہذیب آندھی اور طوفان کی طرح چھائی چلی جا رہی ہے{ FR 6864 }۔ پلیگ اور ہیضہ کے جراثیم کی طرح غیر اسلامی اخلاق کے اصول اور غیر اسلامی تہذیب کے تخیلات تمام فضا میں پھیل گئے ہیں۔ آب و ہوا ان سے مسموم ہو چکی ہے۔ ان کی سمیت نے ہر طرف سے آپ کا احاطہ کر لیا ہے۔ فحش اور بے حیائی کی جن باتوں کے خیال سے بھی چند سال پہلے تک آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے وہ اب اس قدر عام ہو چکی ہیں کہ آپ انھیں روز مرہ کے معمولات سمجھ رہے ہیں۔ آپ کے بچے تک اخباروں، رسالوں اور اشتہاروں میں فحش تصویریں روز دیکھتے ہیں اور بے حیائی کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ آپ کے بوڑھے، جوان اور بچے سب کے سب سینما دیکھ رہے ہیں، جہاں عریانی، بے حیائی اور شہوانی محبت سے زیادہ دل چسپ چیز اورکوئی نہیں۔ باپ اور بیٹے، بھائی اور بہنیں، مائیں اور بیٹیاں، سب ایک دوسرے کے پہلو میں بیٹھ کر علانیہ بوس و کنار اور اختلاط و ملاعبت کے مناظر دیکھتے ہیں اور کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ انتہا درجہ کے گندے اور ہیجان انگیز گیت گھر گھر اور دکان دکان بج رہے ہیں اورکسی کے کان ان آوازوں سے محفوظ نہیں۔ ہندی اور فرنگی اعلیٰ سوسائٹی کی خواتین نیم عریاں لباسوں کے ساتھ پھر رہی ہیں اور نگاہیں ان لباسوں کی اس قدر خوگر ہو چکی ہیں کہ کوئی شخص ان میں کسی قسم کی بے حیائی محسوس نہیں کرتا۔ اخلاق کے جو تصورات مغربی تعلیم و تربیت کے ساتھ پھیل رہے ہیں ان کی بدولت نکاح کو ایک فرسودہ رسم، زنا کو ایک تفریح، مردوں اور عورتوں کے اختلاط کو ایک ناقابلِ اعتراض بلکہ مستحسن چیز، طلاق کو ایک کھیل، ازدواجی فرائض کو ایک ناقابلِ برداشت بندھن، توالد و تناسل کو ایک حماقت، شوہر کی اطاعت کو ایک نوع کی غلامی، بیوی بننے کو ایک مصیبت اورمعشوق بننے کو ایک خیالی جنت سمجھا جا رہا ہے۔
پھر دیکھیے کہ اس ماحول کے اثرات آپ کی قوم پر کیا پڑ رہے ہیں۔ کیا آپ کی سوسائٹی میں اب غضِ بصر کا کہیں وجود ہے؟ کیا لاکھوں میں ایک آدمی بھی کہیں ایسا پایا جاتا ہے جو اجنبی عورتوں کے حسن سے آنکھیں سینکنے میں باک کرتا ہو؟ کیا اعلانیہ آنکھ اور زبان کا زنا نہیں کیا جا رہا ہے؟ کیا آپ کی عورتیں بھی تبرج جاہلیہ، اظہارِ زینت اور نمائشِ حُسن سے پرہیز کر رہی ہیں؟ کیا آج آپ کے گھروں میں ٹھیک وہی لباس نہیں پہنے جا رہے ہیں جن کے متعلق آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ نساء کاسیات عاریات حمیلات مائلات؟ کیا آپ اپنی بہنوں، بیٹیوں اور مائوں کو وہ لباس پہنے نہیں دیکھ رہے ہیں جنھیں مسلمان عورت اپنے شوہر کے سوا کسی کے سامنے نہیں پہن سکتی؟ کیا آپ کی سوسائٹی میں فحش قصے اور عشق و محبت کے گندے واقعات بے تکلفی کے ساتھ کہے اور سنے نہیں جاتے؟ کیا آپ کی محفلوں میں لوگ خود اپنی بدکاری کے حالات بیان کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس کرتے ہیں؟ جب حال یہ ہے تو فرمائیے کہ طہارتِ اَخلاق کا وہ پہلا اور سب سے زیادہ مستحکم ستون کہاں باقی رہا جس پرا سلامی معاشرت کا ایوان تعمیر کیا گیا تھا؟ اسلامی غیرت تو اب اس حد تک مٹ چکی ہے کہ مسلمان عورتیں صرف مسلمانوںہی کے نہیں، کفار کے ناجائز تصرف میں آ رہی ہیں۔ انگریزی حکومت میں نہیں، مسلمان ریاستوں تک میں اس قسم کے واقعات علیٰ رؤس الاشہاد پیش آ رہے ہیں۔ مسلمان ان واقعات کو دیکھتے ہیں اور ان کے خون متحرک نہیں ہوتے۔ ایسے بے غیرت مسلمان بھی دیکھے گئے ہیں جن کی اپنی بہنیں کسی غیر مسلم کے تصرف میں آئیں اور انھوں نے فخریہ اس کا اظہار کیا کہ ہم فلاں کافرکے برادرِ نسبتی ہیں{ FR 6865 }۔ کیا اس کے بعد بھی بے حیائی اور اَخلاقی انحطاط کا کوئی درجہ باقی رہ جاتا ہے؟
اب ذرا دوسرے ستون کا حال بھی دیکھیے۔ تمام ہندوستان سے اسلامی تعزیرات کا پورا قانون مٹ چکا ہے۔ زنا اور قذف کی حد نہ مسلمان ریاستوں میں جاری ہوتی ہے نہ برٹش انڈیا میں۔ صرف یہی نہیں بلکہ جو قانون اس وقت ملک میں نافذ ہے وہ سرے سے زنا کو جرم ہی نہیں سمجھتا۔ اگر کسی شریف بہو بیٹی کو کوئی شخص بہکا کر بدکار بنانا چاہے تو آپ کے پاس کوئی قانونی ذریعہ ایسا نہیں ہے جس سے اس کی عصمت محفوظ رکھ سکیں۔ اگر کوئی شخص کسی بالغ عورت پر اس کی رضامندی سے ناجائز تصرف کرے تو آپ کسی قانون کے ذریعہ سے اسے سزا نہیں دلوا سکتے اگر کوئی عورت اعلانیہ فحش کاری پراتر آئے تو آپ کے پاس کوئی قوت ایسی نہیں جس سے آپ اسے روک سکیں۔ قانون صرف زِنا بالجبر کو جرم ٹھہراتا ہے مگر جو لوگ قانون پیشہ ہیں ان سے پوچھیے کہ زنا بالجبر کا ثبوت کس قدر مشکل ہے۔ منکوحہ عورت کو بھگا لے جانا بھی جرم ہے۔ مگر انگریزی قانون جاننے والوں سے دریافت کیجیے کہ اگر منکوحہ عورت خود اپنی رضامندی سے کسی کے گھر جا پڑے تو اس کے لیے آپ کے فرماں روائوں کی عدالت میں کیا چارہ کار ہے؟
غور کیجیے۔ یہ دونوں ستون منہدم ہو چکے ہیں۔ اب آپ کے نظم معاشرت کی پوری عمارت صرف ایک ستون پر قائم ہے۔ کیا آپ اسے بھی مسمار کر دینا چاہتے ہیں؟ ایک طرف پردے کے وہ نقصانات ہیں جنھیں آپ نے اوپر گنایا ہے۔ دوسری طرف پردہ اٹھا دینے میں اخلاق اور نظامِ معاشرت کی کامل تباہی ہے۔ دونوں کے درمیان موازنہ کیجیے۔ مصیبتیں دونوں ہیں اور ایک کو بہرحال قبول کرنا ہے۔ اب آپ خود ہی اپنے دل سے فتوٰی طلب کیجیے کہ ان میں سے کون سی مصیبت کم تر ہے؟
پس اگر احوالِ زمانہ ہی پر فیصلہ کا انحصار ہے تو مَیں کہتا ہوں کہ یہاں کے احوال پردے کی تخفیف کے نہیں اور زیادہ اہتمام کے مقتضی ہیں۔ کیوں کہ آپ کے نظامِ معاشرت کی حفاظت کرنے والے دو ستون گر چکے ہیں اور اب تمام دار و مدار صرف ایک ہی ستون پر ہے۔ تمدن، معیشت اور سیاست کے مسائل آپ کو حل کرنا ہیں تو سر جوڑ کر بیٹھیے، غور کیجیے، اسلامی حدود کے اندر اس کے حل کی دوسری صورتیں بھی نکل سکتی ہیں مگر اس بچے کھچے ستون کو، جو پہلے ہی کافی کم زور ہو چکا ہے اور زیادہ کم زور نہ بنائیے۔ اس میں تخفیف کرنے سے پہلے کم از کم اتنی قوت پیدا کرنی چاہیے کہ اگرکوئی مسلمان عورت بے نقاب ہو تو جہاں اسے گھورنے کے لیے دو آنکھیں موجود ہوں، وہیں ان آنکھوں کو نکال لینے کے لیے پچاس ہاتھ بھی موجود ہوں۔
٭…٭…٭…٭…٭