Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۸ ۔قوانینِ فطرت

فطرت نے تمام انواع کی طرح انسان کو بھی ’’زوجین‘‘ یعنی دو ایسی صنفوں کی صورت میں پیدا کیا ہے جو ایک دوسرے کی جانب طبعی میلان رکھتی ہیں۔ مگر دوسری انواع حیوانی کا جس حد تک مطالعہ کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اس صنفی تقسیم اور اس طبعی میلان کا مقصد محض بقائے نوع ہے۔ اسی لیے ان میں یہ میلان صرف اس حد تک رکھا گیا ہے جو ہر نوع کی بقا کے لیے ضروری ہے، اور ان کی جبلت میں ایسی قوتِ ضابطہ رکھ دی گئی ہے جو انھیں صنفی تعلق میں اس حدِّمقرر سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ اس کے برعکس انسان میں یہ میلان غیر محدود، غیر منضبط اور تمام دوسری انواع سے بڑھا ہوا ہے۔ اس کے لیے وقت اور موسم کی کوئی قید نہیں ہے۔ اس کی جبلت میں کوئی ایسی قوت ضابطہ بھی نہیں ہے جو اسے کسی حد پر روک دے، مرد اور عورت ایک دوسرے کی طرف دائمی میلان رکھتے ہیں۔ ان کے اندر ایک دوسرے کی طرف جذب و انجذاب اور صنفی کشش کے غیر محدود اسباب فراہم کیے گئے ہیں۔ ان کے قلب میںصنفی محبت اور عشق کا ایک زبردست داعیہ رکھا گیا ہے۔ ان کے جسم کی ساخت اور اس کے تناسب اور اس کے رنگ و روپ، اور اس کے لمس اور اس کے ایک ایک جز میں صنف مقابل کے لیے کشش پیدا کر دی گئی ہے۔ ان کی آواز، رفتار، انداز و ادا، ہر ایک چیز میں کھینچ لینے کی قوت بھر دی گئی ہے اور گرد و پیش کی دنیا میں بے شمار ایسے اسباب پھیلا دیے گئے ہیں جو دونوں کے داعیات صنفی کو حرکت میں لاتے اور انھیں ایک دوسرے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ہوا کی سرسراہٹ، پانی کی روانی، سبزہ کا رنگ، پھولوں کی خوش بو، پرندوں کے چہچہے، فضا کی گھٹائیں، شب مہ کی لطافتیں، غرض جمالِ فطرت کا کوئی مظہر اور حسنِ کائنات کا کوئی جلوہ ایسا نہیں ہے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس تحریک کا سبب نہ بنتا ہو۔
پھر انسان کے نظامِ جسمانی کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہو گا کہ اس میں طاقت کا جو زبردست خزانہ رکھا گیا ہے۔ وہ بیک وقت قوتِ حیات اور قوتِ عمل بھی ہے، اور صنفی تعلق کی قوت بھی۔ وہی غدود (glands) جو اس کے اعضا کو جیون رس (harmone)بہم پہنچاتے ہیں، اور اس میں چستی، توانائی، ذہانت اور عمل کی طاقت پیدا کرتے ہیں، انھی کے سپرد یہ خدمت بھی کی گئی ہے کہ اس میں صنفی تعلق کی قوت پیدا کریں، اس قوت کو حرکت میں لانے والے جذبات کو نشوونما دیں، ان جذبات کو اُبھارنے کے لیے حسن، روپ، نکھار اور پھبن کے گوناگوں آلات بہم پہنچائیں اور ان آلات سے متاثر ہونے کی قابلیت اس کی آنکھوں، اس کے کانوں، اس کی شامہ اور لامسہ حتّٰی کہ اس کی قوتِ متخیلہ تک میں فراہم کر دیں۔
قدرت کی یہی کار فرمائی انسان کے قوائے نفسانی میں بھی نظر آتی ہے۔ اس کے نفس میں جتنی محرک قوتیں پائی جاتی ہیں ان سب کا رشتہ دوزبردست داعیوں سے ملتا ہے۔ ایک وہ داعیہ جو اسے خود اپنے وجود کی حفاظت اور اپنی ذات کی خدمت پر اُبھارتا ہے۔ دوسرا وہ داعیہ جو اسے اپنے مقابل کی صنف سے تعلق پر مجبور کرتا ہے۔ شباب کے زمانہ میں جب کہ انسان کی عملی قوتیں اپنے پورے عروج پر ہوتی ہیں، یہ دوسرا داعیہ اتنا قوی ہوتا ہے کہ بسا اوقات پہلے داعیہ کو بھی دبا لیتا ہے اور اس کے اثر سے انسان اس قدر مغلوب ہو جاتا ہے کہ اسے اپنی جان تک دے دینے اور اپنے آپ کو جانتے بوجھتے ہلاکت میں ڈال دینے میں بھی تامل نہیں ہوتا۔
تمدن کی تخلیق میں صنفی کشش کا اثر
یہ سب کچھ کس لیے ہے؟ کیا محض بقائے نوع کے لیے؟ نہیں۔ کیوں کہ نوعِ انسانی کو باقی رکھنے کے لیے اس قدر تناسل کی بھی ضرورت نہیں ہے جس قدر مچھلی، بکری اور ایسی ہی دوسری انواع کے لیے ہے۔ پھر کیا وجہ ہے؟ کہ فطرت نے ان سب انواع سے زیادہ صنفی میلان انسان میں رکھا ہے اور اس کے لیے سب سے زیادہ اسبابِ تحریک فراہم کیے ہیں کیا یہ محض انسان کے لطف اور لذت کے لیے ہے؟ یہ بھی نہیں۔ فطرت نے کہیں بھی لطف اور لذت کو مقصود بالذات نہیں بنایا ہے۔ وہ تو کسی بڑے مقصد کی خدمت پر انسان اور حیوان کو مجبور کرنے کے لیے لطف اور لذت کو محض چاشنی کے طور پر لگا دیتی ہے تاکہ وہ اس خدمت کو غیر کا نہیں بلکہ اپنا کام سمجھ کر انجام دیں۔ اب غور کیجیے کہ اس معاملہ میں کون سا بڑا مقصد فطرت کے پیشِ نظر ہے؟ آپ جتنا غور کریں گے کوئی اور وجہ اس کے سوا سمجھ میں نہ آئے گی کہ فطرت دوسری تمام انواع کے خلاف، نوعِ انسانی کو متمدّن بنانا چاہتی ہے۔
اسی لیے انسان کے قلب میں صنفی محبت اور عشق کا وہ داعیہ رکھا گیا ہے جو محض جسمانی اِتصال اور فعل تناسل ہی کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ ایک دائمی معیت اورقلبی وابستگی اور روحانی لگائو کا مطالبہ کرتا ہے۔
اسی لیے انسان میں صنفی میلان اس کی واقعی قوتِ مباشرت سے بہت زیادہ رکھا گیا ہے۔ اس میں جتنی صنفی خواہش اور صنفی کشش رکھی گئی ہے۔ اگر اسی نسبت سے، بلکہ ایک اور دس کی نسبت سے بھی وہ فعلِ تناسل کا اِرتکاب کرے تو اس کی صحت جواب دے دے اور عمرِ طبعی کو پہنچنے سے پہلے ہی اس کی جسمانی قوتیں ختم ہو جائیں۔ یہ بات اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ انسان میں صنفی کشش کی زیادتی کا مقصود یہ نہیں ہے کہ وہ تمام حیوانات سے بڑھ کر صنفی عمل کرے۔ بلکہ اس سے مرد اور عورت کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرنا اور ان کے باہمی تعلق میں استمرار و استقلال پیدا کرنا ہے۔
اسی لیے عورت کی فطرت میں صنفی کشش اور صنفی خواہش کے ساتھ شرم و حیا اور تمانع، فرار اور رکاوٹ کا مادّہ رکھا گیا ہے جو کم و بیش ہر عورت میں پایا جاتا ہے۔ یہ فرار اور منع کی کیفیت اگرچہ دوسرے حیوانات کے اناث میں بھی نظر آتی ہے، مگر انسان کی صنفِ اناث میں اس کی قوت و کمیت بہت زیادہ ہے اور اسے جذبہ شرم و حیا کے ذریعہ سے اور زیادہ شدید کر دیا گیا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں صنفی مقناطیسیت کا مقصد ایک مستقل وابستگی ہے، نہ کہ ہر صنفی کشش ایک صنفی عمل پر منتج ہو۔
اسی لیے انسان کے بچے کو تمام حیوانات کے بچوں سے زیادہ کم زور اور بے بس کیا گیا ہے۔ بخلاف دوسرے حیوانات کے انسان کا بچہ کئی سال تک ماں باپ کی حفاظت اور تربیت کا محتاج ہوتا ہے اور اس میں اپنے آپ کو سنبھالنے اور اپنی مدد آپ کرنے کی قابلیت بہت دیر میں پیدا ہوتی ہے۔ اس سے بھی یہ مقصود ہے کہ عورت اور مرد کا تعلق محض تعلقِ صنفی کی حد تک نہ رہے بلکہ اس تعلق کا نتیجہ انھیں باہمی ارتباط اور تعاون پر مجبور کر دے۔
اسی لیے انسان کے دل میں اولاد کی محبت تمام حیوانات سے زیادہ رکھی گئی ہے۔ حیوانات ایک قلیل مدت تک اپنے بچوں کی پرورش کرنے کے بعد ان سے الگ ہو جاتے ہیں۔ پھر ان میں کوئی تعلق باقی نہیں رہتا۔ بلکہ وہ ایک دوسرے کوپہچانتے بھی نہیں۔ بخلاف اس کے انسان ابتدائی پرورش کا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی اولاد کی محبت میں گرفتار رہتا ہے۔ حتّٰی کہ یہ محبت اولاد کی اولاد تک منتقل ہوتی ہے اور انسان کی خود غرض حیوانیت اس محبت کے اثر سے اس درجہ مغلوب ہو جاتی ہے کہ وہ جو کچھ اپنی ذات کے لیے چاہتا ہے اس سے زیادہ اپنی اولاد کے لیے چاہتا ہے اور اس کے دل میں اندر سے یہ امنگ پیدا ہوتی ہے کہ اپنی حدِ امکان تک اولاد کے لیے بہتر سے بہتر اسبابِ زندگی بہم پہنچائے اور اپنی محنتوں کے نتائج ان کے لیے چھوڑ جائے۔ اس شدید جذبۂ محبت کی تخلیق سے فطرت کا مقصد صرف یہی ہو سکتا ہے کہ عورت اور مرد کے صنفی تعلق کو ایک دائمی رابطہ میں تبدیل کر دے، پھر اس دائمی رابطہ کو ایک خاندان کی ترکیب کا ذریعہ بنائے۔ پھر خونی رشتوں کی محبت کا سلسلہ بہت سے خاندانوں کو مصاہرت کے تعلق سے مربوط کرتا چلا جائے، پھر محبتوں اور محبوبوں کا اشتراک ان کے درمیان تعاون اور معاملت کا تعلق پیدا کر دے، اور اس طرح ایک معاشرہ اور ایک نظامِ تمدن وجود میں آ جائے۔
۱۔تمدن کا بنیادی مسئلہ
اس سے معلوم ہوا کہ یہ صنفی میلان جو انسانی جسم کے ریشے ریشے اور اس کے قلب و روح کے گوشے گوشے میں رکھا گیا ہے اور جس کی مدد کے لیے بڑے وسیع پیمانہ پر کائنات کے چپے چپے میں اسباب و محرکات فراہم کیے گئے ہیں۔ اس کا مقصد انسان کی انفرادیت کو اجتماعیت کی طرف مائل کرنا ہے۔ فطرت نے اس میلان کو تمدنِ انسانی کی اصل قوتِ محرکہ بنایا ہے۔ اس میلان وکشش کے ذریعہ سے نوعِ انسانی کی دو صنفوں میں وابستگی پیدا ہوتی ہے اور پھر اس وابستگی سے اجتماعی زندگی (social life) کا آغاز ہوتا ہے۔
جب یہ امر متحقق ہو گیا، تو یہ بات بھی آپ سے آپ ظاہر ہو گئی کہ عورت اور مرد کے تعلق کا مسئلہ دراصل تمدن کا بنیادی مسئلہ ہے اور اسی کے صحیح حل پر تمدن کی صلاح و فساد اور اس کی بہتری و بدتری، اور اس کے استحکام و ضعف کا انحصار ہے۔ نوعِ انسانی کے ان دونوں حصوں میں ایک تعلق حیوانی یا بالفاظ دیگر خالص صنفی اورسراسر شہوانی ہے جس کا مقصود بقائے نوع کے سوا کچھ نہیں۔ اور دوسرا تعلق انسانی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں مل کر مشترک اغراض کے لیے اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق تعاون کریں۔ اس تعاون کے لیے ان کی صنفی محبت ایک واسطہ اتصال کے طور پر کام دیتی ہے، اور یہ حیوانی و انسانی عناصر، دونوں مل کر بیک وقت ان سے تمدن کا کاروبار چلانے کی خدمت بھی لیتے ہیں اور اس کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے مزید افراد فراہم کرنے کی خدمت بھی۔ تمدن کی صلاح و فساد کا مدار اس پر ہے کہ دونوں عناصر کا امتزاج نہایت متناسب اور معتدل ہو۔
۲۔مدنیتِ صالحہ کے لوازم
آئیے اب ہم اس مسئلہ کا تجزیہ کرکے یہ معلوم کریں کہ ایک صالح تمدن کے لیے عورت اور مرد کے حیوانی اور انسانی تعلق میں معتدل اور متناسب امتزاج کی صورت کیا ہے اور اس امتزاج پر بے اعتدالی کی کن کن صورتوں کے عارض ہونے سے تمدن فاسد ہو جاتا ہے۔
(۱) میلانِ صنفی کی تعدیل
سب سے اہم اور مقدم سوال خود اس صنفی کشش اور میلان کا ہے کہ اسے کس طرح قابو میں رکھا جائے۔ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ انسان کے اندر یہ میلان تمام حیوانات سے زیادہ طاقت ور ہے۔ نہ صرف یہ کہ انسانی جسم کے اندر صنفی تحریک پیدا کرنے والی قوتیں زیادہ شدید ہیں، بلکہ باہر بھی اس وسیع کائنات میں ہر طرف بے شمار صنفی محرکات پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ چیز جس کے لیے فطرت نے خود ہی اتنے انتظامات کر رکھے ہیں، اگر انسان بھی اپنی توجہ اور قوتِ ایجاد سے کام لے کر اسے بڑھانے اور ترقی دینے کے اسباب مہیا کرنے لگے اور ایسا طرزِ تمدن اختیار کرے جس میں اس کی صنفی پیاس بڑھتی چلی جائے اور پھر اس پیاس کو بجھانے کی آسانیاں بھی پیدا کی جاتی رہیں تو ظاہر ہے اس صورت میں یہ حدِ مطلوب سے بہت زیادہ متجاوز ہو جائے گی، انسان کا حیوانی عنصر اس کے انسانی عنصر پر پوری طرح غالب ہو جائے گا اور یہ حیوانیت اس کی انسانیت اور اس کے تمدن دونوں کو کھا جائے گی۔
صنفی تعلق اور اس کے مبادی اور محرکات میں سے ایک ایک چیز کو فطرت نے لذیذ بنایا ہے۔ مگر جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں، فطرت نے یہ لذت کی چاٹ محض اپنے مقصد یعنی تعمیرِ تمدن کے لیے لگائی ہے۔ اس چاٹ کا حد سے بڑھ جانا اور اسی میں انسان کا منہمک ہوجانا نہ صرف تمدن بلکہ خود انسان کی بھی تخریب و ہلاکت کا موجب ہو سکتا ہے، ہو رہا ہے اور بارہا ہوچکا ہے۔ جو قومیں تباہ ہو چکی ہیں ان کے آثار اور ان کی تاریخ کو دیکھیے۔ شہوانیت ان میں حد سے متجاوز ہو چکی تھی۔ ان کے لٹریچر اسی قسم کے ہیجان انگیز مضامین سے لبریز پائے جاتے ہیں۔ ان کے تخیلات، ان کے افسانے، ان کے اشعار، ان کی تصویریں، ان کے مجسمے، ان کے عبادت خانے، ان کے محلات سب کے سب اس پر شاہد ہیں۔ جو قومیں اب تباہی کی طرف جا رہی ہیں ان کے حالات بھی دیکھ لیجیے۔ وہ اپنی شہوانیت کو آرٹ، ادبِ لطیف، ذوقِ جمال اور ایسے کتنے ہی خوش نما اور معصوم ناموں سے موسوم کر لیں، مگر تعبیر کے بدل جانے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ یہ کیا چیز ہے کہ سوسائٹی میں عورت کوعورتوں سے زیادہ مرد کی صحبت اور مرد کو مردوں سے زیادہ عورتوں کی معیت مرغوب ہے؟ یہ کیوں ہے کہ عورتوں اور مردوں میں تزئین و آراش کا ذوق بڑھتا چلا جا رہا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے کہ مخلوط سوسائٹی میں عورت کا جسم لباس سے باہر نکلا پڑتا ہے؟ وہ کون سی شے ہے جس کے سبب سے عورت اپنے جسم کے ایک ایک حصے کو کھول کھول کر پیش کر رہی ہے اور مردوں کی طرف سے ھل من مزید کا تقاضا ہے؟ اس کی کیا علت ہے کہ برہنہ تصویریں، ننگے مجسمے اور عریاں ناچ، سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں؟ اس کا کیا سبب ہے کہ سینما میں اُس وقت تک لطف ہی نہیں جب تک کہ عشق و محبت کی چاشنی نہ ہو اور اس پر صنفی تعلقات کے بہت سے قولی اور فعلی مبادی کا اضافہ نہ کیا جائے؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے مظاہر اگر شہوانیت کے مظاہر نہیں تو کس چیز کے ہیں؟ جس تمدن میں ایسا غیر معتدل شہوانی ماحول پیدا ہو جائے اس کا انجام تباہی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔
ایسے ماحول میں صنفی میلان کی شدت اور پیہم ہیجان اور مسلسل تحریک کی وجہ سے ناگزیر ہے کہ نسلیں کم زور ہو جائیں، جسمانی اور عقلی قوتوں کی نشوونما بگڑ جائے۔ قوائے ذہنی پراگندہ { FR 6819 } ہو جائیں، فواحش کی کثرت ہو، امراضِ خبیثہ کی وبائیں پھیلیں، مانع حمل، اسقاطِ حمل اور قتلِ اطفال جیسی تحریکیں وجود میں آئیں، مرد اور عورت بہائم کی طرح ملنے لگیں، بلکہ فطرت نے ان کے اندر جو صنفی میلان تمام حیوانات سے بڑھ کر رکھا ہے اسے وہ مقاصد فطرت کے خلاف استعمال کریں اوراپنی بہیمیت میں تمام حیوانات سے بازی لے جائیں، حتّٰی کہ بندروں اور بکروں کو بھی مات کر دیں۔ لامحالہ ایسی شدید حیوانیت انسانی تمدن و تہذیب بلکہ خود انسانیت کو بھی غارت کر دے گی اور جو لوگ اس میں مبتلا ہوں گے ان کا اَخلاقی انحطاط انھیں ایسی پستی میں گرائے گا جہاں سے وہ پھر کبھی نہ اُٹھ سکیں گے۔
ایسا ہی انجام اس تمدن کا بھی ہو گا جو تفریط کا پہلو اختیار کرے گا۔ جس طرح صنفی میلان کا حدِ اعتدال سے بڑھ جانا مضر ہے اسی طرح اسے حد سے زیادہ دبانا اور کچل دینا بھی مضر ہے۔ جو نظامِ تمدن انسان کو سنیاس اور برہمچریہ اور رہبانیت کی طرف لے جانا چاہتا ہے وہ فطرت سے لڑتا ہے اور فطرت اپنے مدِ مقابل سے کبھی شکست نہیں کھاتی بلکہ خود اسی کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ خالص رہبانیت کا تصور تو ظاہر ہے کہ کسی تمدن کی بنیاد بن ہی نہیں سکتا۔ کیوں کہ وہ دراصل تمدن و تہذیب کی نفی ہے۔ البتہ راہبانہ تصورات کو دلوں میں راسخ کرکے نظامِ تمدن میں ایک ایسا غیر صنفی ماحول ضرور پیدا کیا جا سکتا ہے جس میں صنفی تعلق کو بذاتِ خود ایک ذلیل، قابلِ نفرت اور گھنائونی چیز سمجھا جائے، اس سے پرہیز کرنے کو معیارِ اَخلاق قرار دیا جائے اور ہر ممکن طریقے سے اس میلان کو دبانے کی کوشش کی جائے۔ مگر صنفی میلان کا دبنا دراصل انسانیت کا دبنا ہے وہ اکیلا نہیں دبے گا بلکہ اپنے ساتھ انسان کی ذہانت، قوتِ عمل، عقلی استعداد، حوصلہ و عزم اور ہمت وشجاعت سب کو لے کر دب جائے گا۔ اس کے دبنے سے انسان کی ساری قوتیں ٹھٹھر کر رہ جائیں گی۔ اس کا خون سرد اور منجمد ہو کر رہ جائے گا۔ اس میں اُبھرنے کی کوئی صلاحیت باقی نہ رہے گی۔ کیوں کہ انسان کی سب سے بڑی محرک طاقت یہی صنفی طاقت ہے۔
پس صنفی میلان کو افراط و تفریط سے روک کر توسط و اعتدال کی حالت پر لانا اور اسے ایک مناسب ضابطے سے منضبط (regulate) کرنا ایک صالح تمدن کا اولین فریضہ ہے۔ اجتماعی زندگی کا نظام ایسا ہونا چاہیے کہ وہ ایک طرف غیر معتدل (abnormal) ہیجان و تحریک کے ان تمام اسباب کو روک دے جنھیں انسان خود اپنے ارادے اور اپنی لذت پرستی سے پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف فطری (normal) ہیجانات کی تسکین و تشفی کے لیے ایسا راستہ کھول دے جو خود منشائے فطرت کے مطابق ہو۔
(۲) خاندان کی تاسیس
اب یہ سوال خود بخود ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ فطرت کا منشا کیا ہے؟ کیا اس معاملہ میں ہمیں بالکل تاریکی میں چھوڑ دیا گیا ہے کہ آنکھیں بند کرکے ہم جس چیز پر چاہیں ہاتھ رکھ دیں اور وہی فطرت کا منشا قرار پائے؟ یا نوامیسِ فطرت پرغور کرنے سے ہم منشائے فطرت تک پہنچ سکتے ہیں؟ شاید بہت سے لوگ صورتِ اول ہی کے قائل ہیں اور اسی لیے وہ نوامیس فطرت پر نظر کیے بغیر ہی کیف ماا تفق جس چیز کو چاہتے ہیں، منشائے فطرت کہہ دیتے ہیں، لیکن ایک محقق جب حقیقت کی جستجو کے لیے نکلتا ہے تو چند ہی قدم چل کر اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ گویا فطرت آپ ہی اپنے منشا کی طرف صاف صاف انگلی اُٹھا کر اشارہ کر رہی ہے۔
یہ تو معلوم ہے کہ تمام انواعِ حیوانی کی طرح انسان کو بھی زوجین یعنی دو صنفوں کی صورت میں پیدا کرنے اور ان کے درمیان صنفی کشش کی تخلیق کرنے سے فطرت کا اولین مقصد بقائے نوع ہے لیکن انسان سے فطرت کا مطالبہ صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ وہ اس سے بڑھ کرکچھ دوسرے مطالبات بھی اس سے کرتی ہے اور باادنیٰ تامل ہمیں معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ مطالبات کیا ہیں اور کس نوعیت کے ہیں۔
سب سے پہلے جس چیز پر نظر پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام حیوانات کے برعکس انسان کا بچہ نگاہ داشت اور پرورش کے لیے بہت زیادہ وقت، محنت اور توجہ مانگتا ہے۔ اگر اسے مجرد ایک حیوانی وجود ہی کی حیثیت سے لے لیا جائے تب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی حیوانی ضروریات پوری کرنے… یعنی غذا حاصل کرنے اور اپنے نفس کی مدافعت کرنے… کے قابل ہوتے ہوئے وہ کئی سال لے لیتا ہے اور ابتدائی دو تین سال تک تو وہ اتنا بے بس ہوتا کہ ماں کی پیہم توجہ کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔
لیکن یہ ظاہر ہے کہ انسان خواہ وحشت کے کتنے ہی ابتدائی درجہ میں ہو، بہرحال نرا حیوان نہیں ہے۔ کسی نہ کسی مرتبہ کی مدنیت بہرحال اس کی زندگی کے لیے ناگزیر ہے اور اس مدنیت کی وجہ سے پرورشِ اولاد کے فطری تقاضے پر لامحالہ اور تقاضوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایک یہ کہ بچہ کی پرورش میں ان تمام تمدنی وسائل سے کام لیا جائے جو اس کے پرورش کرنے والے کو بہم پہنچ سکیں۔ دوسرے یہ کہ بچے کو ایسی تربیت دی جائے کہ جس تمدنی ماحول میں وہ پیدا ہوا ہے وہاں تمدن کے کارخانے کو چلانے اور سابق کارکنوں کی جگہ لینے کے لیے وہ تیار ہو سکے۔
پھر تمدن جتنا زیادہ ترقی یافتہ اور اعلیٰ درجہ کا ہوتا جاتا ہے، یہ دونوں تقاضے بھی اتنے ہی زیادہ بھاری اور بوجھل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک طرف پرورشِ اولاد کے ضروری وسائل و لوازم بڑھتے جاتے ہیں اور دوسری طرف تمدن نہ صرف اپنے قیام و بقا کے لیے اپنے مرتبے کے مطابق اچھے تعلیم و تربیت یافتہ کا رکن مانگتا ہے، بلکہ اپنے نشو و ارتقا کے لیے یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ ہر نسل پہلی نسل سے بہتر اُٹھے، یعنی دوسرے الفاظ میں ہر بچے کا نگاہ بان اسے خود اپنے آپ سے بہتر بنانے کی کوشش کرے… انتہا درجہ کا ایثار جو انسان سے جذبہ خود پسندی تک کی قربانی مانگتا ہے۔
یہ ہیں فطرتِ انسانی کے مطالبات اور ان مطالبات کی اوّلین مخاطب ہے عورت۔ مرد ایک ساعت کے لیے عورت سے مل کر ہمیشہ کے لیے اس سے اور اس ملاقات کی ذمہ داری سے الگ ہو سکتا ہے۔ لیکن عورت کو تو اس ملاقات کا قدرتی نتیجہ برسوں کے لیے بلکہ عمر بھر کے لیے پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ حمل قرار پانے کے بعد سے کم از کم پانچ برس تک تو یہ نتیجہ اس کا پیچھا کسی طرح چھوڑتا ہی نہیں اور اگر تمدن کے پورے مطالبات ادا کرنا ہوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ مزید پندرہ سال تک وہ عورت، جس نے ایک ساعت کے لیے مرد کی معیت کا لطف اٹھایا تھا، اس کی ذمہ داریوں کا بار سنبھالتی رہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک مشترک فعل کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تنہا ایک فریق کس طرح آمادہ ہو سکتا ہے؟ جب تک عورت کو اپنے شریکِ کار کی بے وفائی کے خوف سے نجات نہ ملے، جب تک اسے اپنے بچے کی پرورش کا پورا اطمینان نہ ہو جائے، جب تک اسے خود اپنی ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے کے کام سے بھی ایک بڑی حد تک سبک دوش نہ کر دیا جائے، وہ اتنے بھاری کام کا بوجھ اُٹھانے پر کیسے آمادہ ہو جائے گی؟ جس عورت کا کوئی قوام (protector provider) نہ ہو اس کے لیے تو حمل یقینا ایک حادثہ اور مصیبت، بلکہ ایک خطرناک بلا ہے جس سے چھٹکارا پانے کی خواہش اس میں طبعی طور پر پیدا ہونی چاہیے آخر وہ اسے خوش آمدید کیسے کہہ سکتی ہے؟
لامحالہ یہ ضروری ہے…… اگر نوع کی بقا اور تمدن کا قیام اور ارتقا ضروری ہے…… کہ جو مرد جس عورت کو بار آور کرے وہی اس بار کو سنبھالنے میں اس کا شریک بھی ہو۔ مگر اس شرکت پر اسے راضی کیسے کیا جائے؟ وہ تو فطرتًا خود غرض واقع ہوا ہے۔ جہاں تک بقائے نوع کے طبعی فریضے کا تعلق ہے، اس کے حصے کا کام تو اسی ساعت پورا ہو جاتا ہے جب کہ وہ عورت کو بار آور کر دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ بار تنہا عورت کے ساتھ لگا رہتا ہے اور مرد سے وہ کسی طرح بھی چسپاں نہیں ہوتا۔ جہاں تک صنفی کشش کا تعلق ہے وہ بھی اسے مجبور نہیں کرتی کہ اسی عورت کے ساتھ وابستہ رہے۔ وہ چاہے تو اسے چھوڑ کر دوسری اور دوسری کوچھوڑ کر تیسری سے تعلق پیدا کر سکتا ہے اور ہر زمین میں بیج پھینکتا پھر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ معاملہ محض اس کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ بخوشی اس بار کو سنبھالنے کے لیے آمادہ ہو جائے۔ آخر کون سی چیز اسے مجبورکرنے والی ہے کہ وہ اپنی محنتوں کا پھل اس عورت اور اس بچے پر صرف کرے؟ کیوں وہ ایک دوسری حسین دوشیزہ کو چھوڑ کر اس پیٹ پھولی عورت سے اپنا دل لگائے رکھے؟ کیوں وہ گوشت پوست کے ایک بے کار لوتھڑے کو خواہ مخواہ اپنے خرچ پر پالے؟ کیوں اس کی چیخوں سے اپنی نیند حرام کرے؟ کیوں اس چھوٹے سے شیطان کے ہاتھوں اپنا نقصان کرائے جو ہر چیز کو توڑتا پھوڑتا اور گھر بھر میں گندگی پھیلاتا پھرتا ہے اورکسی کی سن کر نہیں دیتا۔
فطرت نے کسی حد تک اس مسئلہ کے حل کا خود بھی اہتمام کیا ہے۔ اس نے عورت میں حُسن، شیرینی، دل لبھانے کی طاقت اور محبت کے لیے ایثار و قربانی کرنے کی صلاحیت پیدا کی ہے تاکہ ان ہتھیاروں سے مرد کی خود غرضانہ انفرادیت پر فتح پائے اوراسے اپنا اسیر بنا لے۔ اس نے بچے کے اندر بھی ایک عجیب قوتِ تسخیر بھر دی ہے تاکہ وہ اپنی تکلیف دہ، برباد کن، پاجیانہ خصوصیات کے باوجود ماں باپ کو اپنے دامِ محبت میں گرفتار رکھے۔ مگر صرف یہی چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ بجائے خود ان کا زور انسان کو اپنے اَخلاقی، فطری، تمدنی فرائض ادا کرنے کے لیے برسوں نقصان، اذیت، قربانی کرنے پر مجبورکر سکے۔ آخر انسان کے ساتھ اس کا وہ ازلی دشمن بھی تو لگا ہوا ہے جو اسے فطرت کے راستے سے منحرف کرنے کی ہر وقت کوشش کرتا رہتا ہے جس کی زنبیلِ عیاری میں ہر زمانے اور ہر نسل کے لوگوں کو بہکانے کے لیے طرح طرح کی دلیلوں اور ترغیبات کا نہ ختم ہونے والا ذخیرہ بھرا ہوا ہے۔
یہ مذہب کا معجزہ ہے کہ وہ انسان کو…… مرد اور عورت دونوں کو …… نوع اور تمدن کے لیے قربانی پر آمادہ کرتا ہے اور اس خود غرض جانور کو آدمی بنا کر ایثار کے لیے تیار کر دیتا ہے۔ وہ خدا کے بھیجے ہوئے انبیا ہی تھے جنھوں نے فطرت کے منشا کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر عورت اور مرد کے درمیان صنفی تعلق اور تمدنی تعاون کی صحیح صورت، نکاح تجویز کی۔ انھی کی تعلیم و ہدایت سے دنیا کی ہر قوم اور روئے زمین کے ہر گوشے میں نکاح کا طریقہ جاری ہوا۔ انھی کے پھیلائے ہوئے اخلاقی اصولوں سے انسان کے اندر اتنی روحانی صلاحیت پیدا ہوئی کہ وہ اس خدمت کی تکلیفیں اور نقصانات برداشت کرے، ورنہ حق یہ ہے کہ ماں اور باپ سے زیادہ بچے کا دشمن اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا، انھی کے قائم کیے ہوئے ضوابطِ معاشرت سے خاندانی نظام کی بِنا پڑی جس کی مضبوط گرفت لڑکیوں اور لڑکوں کو اس ذمہ دارانہ تعلق اور اس اشتراکِ عمل پر مجبور کرتی ہے، ورنہ شباب کے حیوانی تقاضوں کا زور اتنا سخت ہوتا ہے کہ محض اخلاقی ذمہ داری کا احساس کسی خارجی ڈسپلن کے بغیر انھیں آزاد شہوت رانی سے نہ روک سکتا تھا۔ شہوت کا جذبہ بجائے خود اجتماعیت کا دشمن (anti social)ہے۔ یہ خود غرضی، انفرادیت اور انارکی کا میلان رکھنے والا جذبہ ہے۔ اس میں پائداری نہیں۔ اس میں احساسِ ذمہ داری نہیں۔ یہ محض وقتی لطف اندوزی کے لیے تحریک کرتا ہے۔ اس دیو کو مسخر کرکے اس سے اجتماعی زندگی کی…… اس زندگی کی جو صبر و ثبات، محنت، قربانی، ذمہ داری اور پیہم جفاکشی چاہتی ہے… خدمت لیناکوئی آسان کام نہیں۔ وہ نکاح کا قانون اور خاندان کا نظام ہی ہے جو اس دیو کو شیشے میں اُتار کر اس سے شرارت اور بدنظمی کی ایجنسی چھین لیتا ہے اور اسے مرد و عورت کے اس لگاتار تعاون و اشتراکِ عمل کا ایجنٹ بنا دیتا ہے جو اجتماعی زندگی کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے۔ یہ نہ ہو تو انسان کی تمدنی زندگی ختم ہو جائے، انسان حیوان کی طرح رہنے لگیں اور بالآخر نوعِ انسانی صفحہ ہستی سے ناپید ہو جائے۔
پس صنفی میلان کو انارکی اور بے اعتدالی سے روک کر اس کے فطری مطالبات کی تشفی و تسکین کے لیے جو راستہ خود فطرت چاہتی ہے کہ کھولا جائے وہ صرف یہی ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان نکاح کی صورت میں مستقل وابستگی ہو، اور اس وابستگی سے خاندانی نظام کی بِنا پڑے۔ تمدن کے وسیع کارخانے کو چلانے کے لیے جن پُرزوں کی ضرورت ہے وہ خاندان کی اسی چھوٹی کارگاہ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ یہاں لڑکیوں اور لڑکوں کے جوان ہوتے ہی کارگاہ کے منتظمین کو خود بخود یہ فکر لگ جاتی ہے کہ حتی الامکان ان کے ایسے جوڑ لگائیں جوایک دوسرے کے لیے زیادہ مناسب ہوں تاکہ ان کے ملاپ سے زیادہ سے زیادہ بہتر نسل پیدا ہو سکے۔ پھر ان سے جو نسل نکلتی ہے، اس کارگاہ کا ہر کارکن اپنے دل کے سچے جذبہ سے کوشش کرتا ہے کہ اسے جتنا بہتر بنا سکتا ہے بنائے۔ زمین پرا پنی زندگی کا پہلا لمحہ شروع کرتے ہی بچے کو خاندان کے دائرہ میں محبت، خبر گیری، حفاظت اور تربیت کا وہ ماحول ملتا ہے جو اس کی نشوونما کے لیے آبِ حیات کا حکم رکھتا ہے۔ درحقیقت خاندان ہی میں بچے کو وہ لوگ مل سکتے ہیں جو اس سے نہ صرف محبت کرنے والے ہوں، بلکہ جو اپنے دل کی امنگ سے یہ چاہتے ہوں کہ بچہ جس مرتبہ پر پیدا ہوا ہے اس سے اونچے مرتبے پر پہنچے۔ دنیا میں صرف ماں اور باپ ہی کے اندر یہ جذبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو ہر لحاظ سے خود اپنے سے بہتر حالت میں اور خود اپنے سے بڑھا ہوا دیکھیں۔ اس طرح وہ بِلا ارادہ، غیر شعوری طور پر آیندہ نسل کو موجودہ نسل سے بہتر بنانے اور انسانی ترقی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی اس کوشش میں خود غرضی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ وہ اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے۔ وہ بس اپنے بچے کی فلاح چاہتے ہیں اور اس کے ایک کام یاب اور عمدہ انسان بن کر اٹھنے ہی کو اپنی محنت کا کافی صلہ سمجھتے ہیں۔ ایسے مخلص کارکن (labourers) اور ایسے بے غرض خادم (workers) تمھیں خاندان کی اس کارگاہ کے باہر کہاں ملیں گے جو نوعِ انسانی کی بہتری کے لیے نہ صرف بِلامعاوضہ محنت صرف کریں، بلکہ اپنا وقت، اپنی آسائش، اپنی قوت و قابلیت اور اپنی محنت کا سب کچھ اس خدمت میں صَرف کر دیں؟ جو اس چیز پر اپنی ہر قیمتی شے قربان کرنے کے لیے تیار ہوں جس کا پھل دوسرے کھانے والے ہوں؟ جو اپنی محنتوں کا صلہ بس اسے سمجھیں کہ دوسرے کے لیے انھوں نے بہتر کارکن اور خادم فراہم کر دیے۔ کیا اس سے زیادہ پاکیزہ اور بلند ترین ادارہ انسانیت میں کوئی دوسرا بھی ہے؟
ہر سال نسلِ انسانی کو اپنی بقا کے لیے اور تمدن انسانی کو اپنے تسلسل و ارتقا کے لیے ایسے لاکھوں اور کروڑوں جوڑوں کی ضرورت ہے جو بخوشی و رضا اپنے آپ کو اس خدمت اور اس کی ذمہ داریوں کے لیے پیش کریں، اور نکاح کرکے اس نوعیت کی مزید کارگاہوں کی بِنا ڈالیں۔ یہ عظیم الشان کارخانہ جو دنیا میں چل رہا ہے، یہ اسی طرح چل اور بڑھ سکتا ہے کہ اس قسم کے رضا کار پیہم خدمت کے لیے اٹھتے رہیں اور اس کارخانہ کے لیے کام کے آدمی فراہم کرتے رہیں۔ اگر نئی بھرتی نہ ہو اور قدرتی اسباب سے پُرانے کارکن بے کار ہو کر ہٹتے جائیں تو کام کے آدمی کم اور کم تر ہوتے چلے جائیں گے اور ایک دن یہ ساز ہستی بالکل بے نوا ہو کر رہ جائے گا۔ ہر آدمی جو اس تمدن کی مشین کو چلا رہا ہے، اس کا فرض صرف یہی نہیں ہے کہ اپنے جیتے جی اسے چلائے جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ اپنی جگہ لینے کے لیے اپنے ہی جیسے اشخاص مہیا کرنے کی کوشش کرے۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو نکاح کی حیثیت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ صنفی جذبات کی تسکین و تشفی کے لیے ہی ایک جائز صورت ہے۔ بلکہ دراصل یہ ایک اجتماعی فریضہ ہے، یہ فرد پر جماعت کا فطری حق ہے اور فرد کو اس بات کا اختیار ہرگز نہیں دیا جا سکتا کہ وہ نکاح کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ خود اپنے لیے محفوظ رکھے۔ جو لوگ بغیر کسی معقول وجہ کے نکاح سے انکار کرتے ہیں وہ جماعت کے نکھٹو افراد (parasites)بلکہ غدار اور لٹیرے ہیں۔ ہر فرد جو زمین پر پیدا ہوا ہے اس نے زندگی کا پہلا سانس لینے کے بعد جوانی کی عمر کو پہنچنے تک اس بے حد و حساب سرمایہ سے استفادہ کیا ہے جو پچھلی نسلوں نے فراہم کیا تھا۔ ان کے قائم کیے ہوئے ادارات ہی کی بدولت اسے زندہ رہنے، بڑھنے، پھولنے اور آدمیت میں نشوونما پانے کا موقع ملا۔ اس دوران میں وہ لیتا ہی رہا۔ اس نے دیا کچھ نہیں۔ جماعت نے اس امید پر اس کی ناقص قوتوں کی تکمیل کی طرف لے جانے میں اپنا سرمایہ اور اپنی قوت صرف کی کہ جب وہ کچھ دینے کے قابل ہو گا تو دے گا۔ اب اگر وہ بڑا ہو کر اپنے لیے شخصی آزادی اور خود مختاری کا مطالبہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں صرف اپنی خواہشات پوری کروں گا۔ مگر ان ذمہ داریوں کا بوجھ نہ اٹھائوں گا جو ان خواہشات کے ساتھ وابستہ ہیں، تو دراصل وہ اس جماعت کے ساتھ غداری اور دھوکا بازی کرتا ہے۔ اس کی زندگی کا ہر لمحہ ایک ظلم اور بے انصافی ہے۔ جماعت میں اگر شعور موجود ہو تو وہ اس مجرم کو جنٹلمین، یا معزز لیڈی، یا مقدس بزرگ سمجھنے کی بجائے اُس نظر سے دیکھے، جس سے وہ چوروں، ڈاکوئوں اور جعل سازوں کو دیکھتی ہے۔ ہم نے خواہ چاہا ہو یا نہ چاہا ہوبہرطور ہم اس تمام سرمایہ اور ذخیرہ کے وارث ہوئے ہیں جو ہم سے پہلے کی نسلوں نے چھوڑا ہے۔ اب ہم اس فیصلہ میں آزاد کیسے ہو سکتے ہیں کہ جس فطری قانون کے مطابق یہ ورثہ ہم تک پہنچا ہے اس کے منشا کو پورا کریں یا نہ کریں؟ ایسی نسل تیار کریں یا نہ کریں جو نوعِ انسانی کے اس سرمایہ اور ذخیرہ کی وارث ہو؟ اسے سنبھالنے کے لیے دوسرے آدمی اسی طرح تیار کریں یا نہ کریں جس طرح ہم خود تیارکیے گئے ہیں؟
(۳) صنفی آوارگی کا سدِّباب
نکاح اور تاسیسِ خاندان کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حصنِ نکاح سے باہر خواہشاتِ صنفی کی تسکین کا دروازہ سختی کے ساتھ بند کیا جائے کیوں کہ اس کے بغیر فطرت کا وہ منشا پورا نہیں ہو سکتا جس کے لیے وہ نکاح اور تاسیسِ خاندان کا تقاضا کرتی ہے۔
پُرانی جاہلیت کی طرح اس نئی جاہلیت کے دَور میں بھی اکثر لوگ زنا کو ایک فطری فعل سمجھتے ہیں اور نکاح ان کے نزدیک محض تمدن کی ایجاد کردہ مصنوعات یا زوائد میں سے ایک چیز ہے۔ ان کا خیال ہے کہ فطرت نے جس طرح ہر بکری کو ہر بکرے کے لیے اور ہر کتیا کو ہر کتے کے لیے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح ہر عورت کو بھی ہر مرد کے لیے پیدا کیا ہے اور فطری طریقہ یہی ہے کہ جب خواہش ہو، جب موقع بہم پہنچ جائے، اور جب دونوں صنفوں کے کوئی سے دو فرد باہم راضی ہوں، تو ان کے درمیان اسی طرح صنفی عمل واقع ہو جائے جس طرح جانوروں میں ہو جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فطرتِ انسانی کی بالکل غلط تعبیر ہے۔ ان لوگوں نے انسان کو محض ایک حیوان سمجھ لیا ہے لہٰذا جب کبھی یہ فطرت کے لفظ بولتے ہیں تو اس سے ان کی مراد حیوانی فطرت ہوتی ہے نہ کہ انسانی فطرت۔ جس منتشر تعلق کو یہ فطری کہتے ہیں وہ حیوانات کے لیے تو ضرور فطری ہے مگر انسان کے لیے ہرگز فطری نہیں۔ وہ نہ صرف انسانی فطرت کے خلاف ہے، بلکہ اپنے آخری نتائج کے اعتبار سے اس حیوانی فطرت کے بھی خلاف واقع ہو جاتا ہے جو انسان کے اندرموجود ہے۔ اس لیے کہ انسان کے اندر انسانیت اور حیوانیت دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ دراصل ایک وجود کے اندر دونوں مل کر ایک ہی شخصیت بناتی ہیں اور دونوں کے مقتضیات باہم ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح وابستہ ہو جاتے ہیں کہ جہاں تک ایک منشا سے منہ موڑا گیا دوسری کا منشا بھی خودبخود فوت ہو کر رہ جاتا ہے۔
زِنا میں بظاہر آدمی کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ کم از کم فطرتِ حیوانی کے اقتضا کو تو پورا کر دیتا ہے کیوں کہ تناسل اور بقائے نوع کا مقصد مجرد صنفی عمل سے پورا ہو جاتا ہے۔ عام اس سے کہ وہ نکاح کے اندر ہو یا باہر۔ لیکن اس سے پہلے جو کچھ ہم بیان کر چکے ہیں اس پر پھر ایک نگاہ ڈال کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ فعل جس طرح فطرتِ انسانی کے مقصد کو نقصان پہنچاتا ہے اسی طرح فطرتِ حیوانی کے مقصد کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ فطرتِ انسانی چاہتی ہے کہ صنفی تعلق میں استحکام اور استقلال ہو تاکہ بچہ کو ماں اور باپ مل کر پرورش کریں اور ایک کافی مدت تک مرد نہ صرف بچہ کا بلکہ بچہ کی ماں کا بھی کفیل رہے۔ اگر مرد کو یقین نہ ہو کہ بچہ اسی کا ہے تو وہ اس کی پرورش کے لیے قربانی اور تکلیفیں برداشت ہی نہ کرے گا اور نہ یہی گوارا کرے گا کہ وہ اس کے بعد اس کے ترکہ کا وارث ہو۔ اسی طرح اگر عورت کو یقین نہ ہو کہ جو مرد اسے بارآور کر رہا ہے وہ اس کی اور اس کے بچے کی کفالت کے لیے تیار ہے تو وہ حمل کی مصیبت اٹھانے کے لیے تیار ہی نہ ہو گی۔ اگر بچہ کی پرورش میں ماں اور باپ تعاون نہ کریں تو اس کی تعلیم و تربیت اور اس کی اَخلاقی، ذہنی اور معاشی حیثیت کبھی اس معیار پر نہ پہنچ سکے گی جس سے وہ انسانی تمدن کے لیے کوئی مفید کارکن بن سکے۔ یہ سب فطرتِ انسانی کے مقتضیات ہیں اور جب ان مقتضیات سے منہ موڑ کر محض حیوانوں کی طرح مرد اور عورت عارضی تعلق قائم کرتے ہیں تو وہ خود فطرتِ حیوانی کے اقتضا (یعنی توالد و تناسل) سے بھی منہ موڑ جاتے ہیں، کیوں کہ اس وقت توالدو تناسل ان کے پیشِ نظر نہیں ہوتا اور نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ان کے درمیان صنفی تعلق صرف خواہشاتِ نفس کی تسکین اور صرف لذت طلبی و لطف اندوزی کے لیے ہوتا ہے جو سرے سے منشائے فطرت ہی کے خلاف ہے۔
جاہلیتِ جدیدہ کے علَم بردار اس پہلو کو خود بھی کم زور پاتے ہیں۔ اس لیے وہ اس پر ایک اور استدلال کا اضافہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر جماعت کے دو فرد آپس میں مل کر چند ساعتیں لطف اور تفریح میں گزار دیں تو اس میں آخر سوسائٹی کا بگڑتا کیا ہے کہ وہ اس میں مداخلت کرے؟ سوسائٹی اس صورت میں تو ضرور مداخلت کا حق رکھتی ہے جب کہ ایک فریق دوسرے پرجبر کرے، یا دھوکے اور فریب سے کام لے، یا کسی جماعتی قضیہ کا سبب بنے لیکن جہاں ان میں سے کوئی بات بھی نہ ہو، اور صرف دو اشخاص کے درمیان لذت اندوزی ہی کا معاملہ ہو تو سوسائٹی کو ان کے بیچ میں حائل ہونے کا کیا حق ہے؟ لوگوں کے ایسے پرائیویٹ معاملات میں بھی اگر دخل دیا جائے تو شخصی آزادی محض ایک لفظ بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔
شخصی آزادی کا یہ تصور اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی ان جہالتوں میں سے ایک ہے جن کی تاریکی، علم اور تحقیق کی پہلی کرن نمودار ہوتے ہی کافور ہو جاتی ہے۔ تھوڑے سے غور و خوض کے بعد ہی آدمی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ جس آزادی کا مطالبہ افراد کے لیے کیا جا رہا ہے اس کے لیے کوئی گنجائش جماعتی زندگی میں نہیں ہے۔ جسے ایسی آزادی مطلوب ہو اسے جنگل میں جا کر حیوانوں کی طرح رہنا چاہیے۔ انسانی اجتماع تو دراصل علائق اور روابط کے ایسے جال کا نام ہے جس میں ہر فرد کی زندگی دوسرے بے شمار افراد کے ساتھ وابستہ ہے، ان پر اثر ڈالتی ہے اور ان سے اثر قبول کرتی ہے۔ اس تعلق باہمی میں انسان کے کسی فعل کو بھی خالص شخصی اور بالکل انفرادی نہیں کہا جا سکتا کسی ایسے شخصی فعل کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جس کا اثر بحیثیتِ مجموعی پوری جماعت پر نہ پڑتا ہو۔ افعالِ جوارح تو درکنار، دل میں چھپا ہوا کوئی خیال بھی ایسا نہیں جو ہمارے وجود پر اور اس سے منعکس ہو کر دوسروں پراثر انداز نہ ہوتا ہو۔ ہمارے قلب وجسم کی ایک ایک حرکت کے نتائج ہم سے منتقل ہو کر اتنی دور تک پہنچتے ہیں کہ ہمارا علم کسی طرح ان کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔ ایسی حالت میں یہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا اپنی کسی قوت کا استعمال کرنا اس کی اپنی ذات کے سوا کسی پر اثر نہیں ڈالتا، لہٰذا کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں اور اسے اپنے معاملہ میں پوری آزادی حاصل ہونی چاہیے؟ اگر مجھے یہ آزادی نہیں دی جا سکتی کہ ہاتھ میں لکڑی لے کر جہاں چاہوں گھمائوں، اپنے پائوں کو حرکت دے کر جہاں چاہوں گھس جائوں۔ اپنی گاڑی کو جس طرح چاہوں چلائوں، اپنے گھر میں جتنی غلاظت چاہوں جمع کر لوں، اگر یہ اور ایسے ہی بے شمار شخصی معاملات اجتماعی ضوابط کے پابند ہونے ضروری ہیں، تو آخر میری قوتِ شہوانی ہی تنہا اس شرف کی حق دار کیوں ہو کہ اسے کسی اجتماعی ضابطہ کا پابند نہ بنایا جائے اورمجھے بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے کہ اسے جس طرح چاہوں صرف کروں؟
یہ کہنا کہ ایک مرد اور ایک عورت باہم مل کر ایک پوشیدہ مقام پر سب سے الگ جو لطف اُٹھاتے ہیں اس کا کوئی اثر اجتماعی زندگی پر نہیں پڑتا، محض بچوں کی سی بات ہے۔ دراصل اس کا اثر صرف اس سوسائٹی پر ہی نہیں پڑتھا، جس سے وہ براہِ راست متعلق ہیں، بلکہ پوری انسانیت پر پڑتا ہے اور اس کے اثرات صرف حال کے لوگوں ہی تک محدود نہیں رہتے بلکہ آیندہ نسلوں تک منتقل ہوتے ہیں۔ جس اجتماعی و عمرانی رابطہ میں پوری انسانیت بندھی ہوئی ہے اس سے کوئی فرد کسی حال میں کسی محفوظ مقام پر بھی الگ نہیں ہے۔ بند کمروں میں، دیواروں کی حفاظت میں بھی وہ اسی طرح جماعت کی زندگی سے مربوط ہے جس طرح بازار یا محفل میں ہے، جس وقت وہ خلوت میں اپنی تولیدی طاقت کو ایک عارضی اور غیر نتیجہ خیز لطف اندوزی پر ضائع کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت دراصل وہ اجتماعی زندگی میں بد نظمی پھیلانے اور نوع کی حق تلفی اور جماعت کو بے شمار اَخلاقی، مادّی، تمدنی نقصانات پہنچانے میں مشغول ہوتا ہے۔ وہ اپنی خود غرضی سے ان تمام اجتماعی ادارت پر ضرب لگاتا ہے جن سے اس نے جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے فائدہ تو اٹھایا مگر ان کے قیام و بقا میں اپنا حصہ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ جماعت نے میونسپلٹی سے لے کر اسٹیٹ تک، مدرسہ سے لے کر فوج تک، کارخانوں سے لے کر علمی تحقیقات کی مجلسوں تک جتنے بھی ادارے قائم کر رکھے ہیں، سب اسی اعتماد پر قائم کیے ہیں کہ ہر وہ فرد جو ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے، ان کے قیام اور ان کی ترقی میں اپنا واجبی حصہ ادا کرے گا لیکن جب اس بے ایمان نے اپنی قوتِ شہوانی کو اس طرح استعمال کیا کہ اس میں توالد و تناسل اور تربیتِ اطفال کے فرائض انجام دینے کی سرے سے نیت ہی نہ تھی تو اس نے ایک ہی ضرب میں اپنی حد تک اس پورے نظام کی جڑ کاٹ دی۔ اس نے اس اجتماعی معاہدہ کو توڑ ڈالا جس میں وہ عین اپنے انسان ہونے ہی کی حیثیت سے شریک تھا۔ اس نے اپنے ذمہ کا بار خود اٹھانے کی بجائے دوسروں پر سارا بار ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ کوئی شریف آدمی نہیں ہے بلکہ ایک چور، خائن اور لٹیرا ہے۔ اس سے رعایت کرنا پوری انسانیت پر ظلم کرنا ہے۔
اجتماعی زندگی میں فرد کا مقام کیا ہے، اس چیز کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہ سکتا کہ ایک ایک قوت جو ہمارے نفس اور جسم میں ودیعت کی گئی ہے محض ہماری ذات کے لیے نہیں ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہمارے پاس امانت ہے اور ہم ان میں سے ہر ایک کے لیے پوری انسانیت کے حق میں جواب دہ ہیں۔ اگر ہم خود اپنی جان کو یا اپنی قوتوںمیں سے کسی کو ضائع کرتے ہیں یا اپنی غلط کاری سے اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں تو ہمارے اس فعل کی اصلی حیثیت یہ نہیں ہے کہ جو کچھ ہمارا تھا اسے ہم نے ضائع کیا یا نقصان پہنچا دیا۔ بلکہ دراصل اس کی حیثیت یہ ہے کہ تمام عالمِ انسانی کے لیے جو امانت ہمارے پاس تھی، اس میں ہم نے خیانت کی اور اپنی اس حرکت سے پوری نوع کو نقصان پہنچایا۔ ہمارا دنیا میں موجود ہونا خود اس بات پر شاہد ہے کہ دوسرے نے ذمہ داریوں اور تکلیفوں کا بوجھ اٹھا کر زندگی کا نور ہماری طرف منتقل کیا تب ہی ہم اس عالم میں آئے۔ پھر اسٹیٹ کی تنظیم نے ہماری جان کی حفاظت کی۔ حفظانِ صحت کے محکمے ہماری زندگی کے تحفظ میں لگے رہے۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں نے مل کر ہماری ضروریات فراہم کیں۔ تمام اجتماعی اداروں نے مل کر ہماری قوتوں کو سنوارنے اور تربیت دینے کی کوشش کی اور ہمیں وہ کچھ بنایا جو ہم ہیں۔ کیا ان سب کا یہ جائز بدلہ ہو گا، کیا یہ انصاف ہو گا کہ جس جان اور جن قوتوں کے وجود، بقا، نشوونما میں دوسروں کا اتنا حصہ ہے اسے ہم ضائع کر دیں یا مفید بنانے کی بجائے مضر بنائیں؟ خودکشی اس بِنا پر حرام ہے۔ ہاتھ سے شہوت رانی کرنے والے کو اسی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے حکیم نے ملعون کہا ہے۔ (ناکح الید ملعون) { FR 6820 }عملِ قومِ لوط کو اسی بنیاد پر بدترین جرم قرار دیا گیا ہے اور زنا بھی اسی وجہ سے انفرادی تفریح اور خوش وقتی نہیں ہے بلکہ پوری انسانی جماعت پر ظلم ہے۔
۳۔ زِنا اور اجتماعی مظالم
غور کیجیے، فعلِ زِنا کے ساتھ کتنے اجتماعی مظالم کا قریبی اور گہرا رشتہ ہے۔
(۱) سب سے پہلے ایک زانی اپنے آپ کو امراضِ خبیثہ کے خطرہ میں ڈالتا ہے۔ اور اس طرح نہ صرف اپنی جسمانی قوتوں کی اجتماعی افادیت میں نقص پیدا کرتا ہے بلکہ جماعت اور نسل کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ سوزاک کے متعلق ہر طبیب آپ کو بتا دے گاکہ مجرائے بول کا یہ قرحہ شاذونادر ہی کامل طور پر مندمل ہوتا ہے۔ ایک بڑے ڈاکٹر کا قول ہے کہ ’’ایک دفعہ سوزاک ہمیشہ کے لیے سوزاک‘‘ اس سے جگر، مثانہ، انثیین وغیرہ اعضا بھی بسا اوقات آفت رسیدہ ہو جاتے ہیں۔ گنٹھیا اور بعض دوسرے امراض کا بھی یہ سبب بن جاتا ہے۔ اس سے مستقل بانجھ پن پیدا ہو جانے کا بھی امکان ہے۔ اور یہ دوسروں کی طرف متعدی بھی ہوتا ہے۔ رہا آتشک تو کسے معلوم نہیں کہ اس سے پورا نظامِ جسمانی مسموم ہو جاتا ہے۔ سر سے پائوں تک کوئی عضو بلکہ جسم کا کوئی جزو ایسا نہیں جس میں اس کا زہر نفوذ نہ کر جاتا ہو۔ یہ نہ صرف خود مریض کی جسمانی قوتوں کو ضائع کرتا ہے بلکہ ایک شخص سے نہ معلوم کتنے اشخاص تک مختلف ذرائع سے پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس کی بدولت مریض کی اولاد اور اولاد کی اولاد تک بے قصور سزا بھگتتی ہے۔ بچوں کا اندھا، گونگا، بہرا، فاتر العقل پیدا ہونا لطف کی ان چند گھڑیوں کا معمولی ثمرہ ہے جنھیں ظالم باپ نے اپنی زندگی میں متاعِ عزیز سمجھا تھا۔
(۲) امراضِ خبیثہ میں تو ہر زانی کا مبتلا ہو جانا یقینی نہیں ہے، مگر ان اخلاقی کم زوریوں سے کسی کا بچنا ممکن نہیں جو اس فعل سے لازمًا تعلق رکھتی ہیں۔ بے حیائی، فریب کاری، جھوٹ، بدنیتی، خود غرضی، خواہشات کی غلامی، ضبطِ نفس کی کمی، خیالات کی آوارگی، طبیعت میں ذواقی اور ہرجائی پن اور ناوفاداری۔ یہ سب زنا کے وہ اخلاقی اثرات ہیں جو خود زانی کے نفس پر مترتب ہوتے ہیں۔ جو شخص یہ خصوصیات اپنے اندر پرورش کرتا ہے اس کی کم زوریوں کا اثر محض صنفی معاملات ہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی طرف سے یہی ہدیہ جماعت کو پہنچتا ہے۔ اگر جماعت میں کثرت سے لوگوں کے اندر یہ اوصاف نشوونما پا گئے ہوں تو ان کی بدولت آرٹ اور ادب، تفریحات اور کھیل، عام اور فنون، صنعت اور حرفت، معاشرت اور معیشت، سیاست اور عدالت، فوجی خدمات اور انتظامِ ملکی، غرض ہر چیز کم و بیش مائوف ہو کر رہے گی۔ خصوصًا جمہوری نظام میں تو افراد کی ایک ایک اخلاقی خصوصیت کا پوری قوم کی زندگی پر منعکس ہونا یقینی ہے۔ جس قوم کے بیش تر افراد کے مزاج میں کوئی قرار و ثبات نہ ہو اور جس قوم کے اکثر اجزائے ترکیبی وفا سے، ایثار سے اور خواہشات پر قابو رکھنے کی صفات سے عاری ہوں اس کی سیاست میں استحکام آخر آئے کہاں سے؟
(۳) زِنا کو جائز رکھنے کے ساتھ یہ بھی لازم ہو جاتا ہے کہ سوسائٹی میں فاحشہ گری کا کاروبار جاری رہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ایک جوان مرد کو ’’تفریح‘‘ کا حق حاصل ہے، وہ گویا ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں ایک معتدبہ طبقہ ایسی عورتوں کا موجود رہنا چاہیے جو ہر حیثیت سے انتہائی پستی و ذلت کی حالت میں ہوں۔ آخر یہ عورتیں آئیں گی کہاں سے؟ اس سوسائٹی ہی میں سے تو پیدا ہوں گی۔ بہرحال کسی کی بیٹی اور بہن ہی تو ہوں گی۔ وہ لاکھوں عورتیں جو ایک ایک گھر کی ملکہ، ایک ایک خاندان کی بانی، کئی کئی بچوں کی مربی بن سکتی تھیں، انھی کو لا کر تو بازار میں بٹھانا پڑے گا تاکہ میونسپلٹی کے پیشاب خانوں کی طرح وہ آوارہ مزاج مردوں کے لیے رفع حاجت کا محل بنیں۔ ان سے عورت کی تمام شریفانہ خصوصیات چھینی جائیں، انھیں ناز فروشی کی تربیت دی جائے، انھیں اس غرض کے لیے تیار کیا جائے کہ اپنی محبت، اپنے دل، اپنے جسم اور حسن اور اپنی ادائوں کو ہر ساعت ایک نئے خریدار کے ہاتھ بیچیں اور کوئی نتیجہ خیز و بار آور خدمت کی بجائے تمام عمر دوسروں کی نفس پرستی کے لیے کھلونا بنی رہیں۔
(۴) زنا کے جواز سے نکاح کے تمدنی ضابطہ کو لامحالہ نقصان پہنچتا ہے، بلکہ انجام کار نکاح ختم ہو کر صرف زِنا ہی زِنا رہ جاتا ہے۔ اول تو زنا کا میلان رکھنے والے مردوں اور عورتوں میں یہ صلاحیت ہی بہت کم باقی رہ جاتی ہے کہ صحیح ازدواجی زندگی بسر کر سکیں۔ کیوں کہ جو بد نیتی، بدنظری، ذواقی اور آوارہ مزاجی اس طریقِ کار سے پیدا ہوتی ہے اور ایسے لوگوں میں جذبات کی بے ثباتی اور خواہشاتِ نفس پر قابو نہ رکھنے کی جو کم زوری پرورش پاتی ہے، وہ ان صفات کے لیے سمِ قاتل ہے جو ایک کام یاب ازدواجی تعلق کے لیے ضروری ہیں۔ وہ اگر ازدواج کے رشتہ میں بندھیں گے بھی تو ان کے درمیان وہ حُسنِ سلوک، وہ سنجوگ، وہ باہمی اعتماد، اور وہ مہر و وفا کا رابطہ کبھی اُستوار نہ ہو گا جس سے اچھی نسل پیدا ہوتی ہے اور ایک مسرت بھرا گھر وجود میں آتا ہے۔ پھر جہاں زِنا کی آسانیاں ہوں وہاں عملًا یہ ناممکن ہے کہ نکاح کا تمدن پرور طریقہ قائم رہ سکے کیوں کہ جن لوگوں کو ذمہ داریاں قبول کیے بغیر خواہشاتِ نفس کی تسکین کے مواقع حاصل ہوں انھیں کیا ضرورت ہے کہ نکاح کرکے اپنے سر پر بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ لاد لیں؟
(۵) زِنا کے جواز اور رواج سے نہ صرف تمدن کی جڑ کٹتی ہے، بلکہ خود نسلِ انسانی کی جڑ بھی کٹتی ہے۔ جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے، آزادانہ صنفی تعلق میں مرد اور عورت دونوں میں سے کسی کی بھی یہ خواہش نہیں ہوتی اور نہیں ہو سکتی کہ بقائے نوع کی خدمت انجام دیں۔
(۶) زِنا سے نوع اور سوسائٹی کو اگر بچے ملتے ہیں تو حرامی بچے ہوتے ہیں۔ نسب میں حلال اور حرام کی تمیز محض ایک جذباتی چیز نہیں ہے جیسا کہ بعض نادان لوگ گمان کرتے ہیں۔ دراصل متعدد حیثیات سے حرام کا بچہ پیدا کرنا خود بچے پر اورپورے انسانی تمدن پر ایک ظلمِ عظیم ہے۔ اول تو ایسے بچہ کا نطفہ ہی اس حالت میں قرار پاتا ہے جب کہ ماں اور باپ دونوں پر خالص حیوانی جذبات کا تسلط ہوتا ہے۔ ایک شادی شدہ جوڑے میں صنفی عمل کے وقت جو پاک انسانی جذبات ہوتے ہیں وہ ناجائز تعلق رکھنے والے جوڑے کو کبھی میسر ہی نہیں آ سکتے۔ انھیں تو مجرد بہیمیت کا جوش ایک دوسرے سے ملاتا ہے اور اس وقت تمام انسانی خصوصیات برطرف ہوتی ہیں۔ لہٰذا ایک حرامی بچہ طبعًا اپنے والدین کی حیوانیت کا وارث ہوتا ہے۔ پھر وہ بچہ جس کا خیر مقدم کرنے کے لیے نہ ماں تیار ہو نہ باپ، جو کہ مطلوب چیز کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ناگہانی مصیبت کی حیثیت سے والدین کے درمیان آیا ہو، جسے باپ کی محبت اور اس کے وسائل بالعموم میسر نہ آئیں، جو صرف ماں کی یک طرفہ تربیت پائے اور وہ بھی ایسی جس میں بے دلی اور بے زاری شامل ہو، جسے دادا، دادی، چچا، ماموں اوردوسرے اہلِ خاندان کی سرپرستی حاصل نہ ہو، وہ بہرحال ایک ناقص ونامکمل انسان ہی بن کر اُٹھے گا۔ نہ اس کا صحیح کریکٹر بن سکے گا۔ نہ اس کی صلاحیتیں چمک سکیں گی۔ نہ اسے ترقی اور کار پردازی کے پورے وسائل بہم پہنچ سکیں گے۔ وہ خود بھی ناقص، بے وسیلہ، بے یار و مددگار اور مظلوم ہو گا اور تمدن کے لیے کسی طرح اتنا مفید نہ بن سکے گا جتنا وہ حلال ہونے کی صوت میں ہو سکتا تھا۔
آزاد شہوت رانی کے حامی کہتے ہیں کہ بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لیے ایک قومی نظام ہونا چاہیے تاکہ بچوں کو ان کے والدین اپنے آزادانہ تعلق سے جنم دیں اور قوم انھیں پال پوس کر تمدن کی خدمت کے لیے تیار کرے۔ اس تجویز سے ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی آزادی اور ان کی انفرادیت محفوظ رہے اور ان کی نفسانی خواہشات کو نکاح کی پابندیوں میں جکڑے بغیر تولید نسل و تربیت اطفال کا مدعا حاصل ہو جائے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کو موجودہ نسل کی انفرادیت اتنی عزیز ہے وہ آیندہ نسل کے لیے قومی تعلیم یا سرکاری تربیت کا ایسا سسٹم تجویز کرتے ہیں جس میں انفرادیت کی نشوونما اور شخصیت کے ارتقا کی صورت نہیں ہے۔ اس قسم کے ایک سسٹم میں جہاں ہزاروں لاکھوں بچے بیک وقت ایک نقشے، ایک ضابطے اور ایک ہی ڈھنگ پر تیار کیے جائیں، بچوں کا انفرادی تشخص ابھر اور نکھر ہی نہیں سکتا۔ وہاں تو ان میں زیادہ سے زیادہ یکسانی اور مصنوعی ہمواری پیدا ہو گی۔ اس کارخانے سے بچے اُسی طرح ایک سی شخصیت لے کر نکلیں گے جس طرح کسی بڑی فیکٹری سے لوہے کے پرزے یکساں ڈھلے ہوئے نکلتے ہیں۔ غور تو کرو انسان کے متعلق ان کم عقل لوگوں کا تصور کتنا پست اور کتنا گھٹیا ہے۔ یہ باٹا کے جوتوں کی طرح انسانوں کو تیار کرنا چاہتے ہیں۔ انھیں معلوم نہیں کہ بچے کی شخصیت کو تیار کرنا ایک لطیف ترین آرٹ ہے۔ یہ آرٹ ایک چھوٹے نگار خانے ہی میں انجام پا سکتا ہے جہاں ہر مصور کی توجہ ایک ایک تصویر پر مرکوز ہو۔ ایک بڑی فیکٹری میں جہاں کرایہ کے مزدور ایک ہی طرز کی تصویریں لاکھوں کی تعداد میں تیار کرتے ہیں، یہ آرٹ غارت ہو گا نہ کہ ترقی کرے گا۔
پھر قومی تعلیم و تربیت کے اس سسٹم میں آپ کو بہرحال ایسے کارکنوں کی ضرورت ہو گی جو سوسائٹی کی طرف سے بچوں کی پرورش کا کام سنبھالیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس خدمت کو انجام دینے کے لیے ایسے ہی کارکن موزوں ہو سکتے ہیں جو اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو رکھتے ہوں اور جن میں خود اخلاقی انضباط پایا جاتا ہو۔ ورنہ وہ بچوں میں اَخلاقی انضباط کیسے پیدا کر سکیں گے؟ اب سوال یہ ہے کہ ایسے آدمی آپ لائیں گے کہاں سے؟ آپ تو قومی تعلیم و تربیت کا سسٹم قائم ہی اس لیے کر رہے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کو اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا جائے۔ اس طرح جب آپ نے سوسائٹی میں سے اخلاقی انضباط اور خواہشات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت کا بیج ہی مار دیا تو اندھوں کی بستی میں آنکھوں والے دست یاب کہاں ہوں گے کہ وہ نئی نسلوں کو دیکھ کر چلنا سکھائیں؟
(۷) زِنا کے ذریعہ سے ایک خود غرض انسان جس عورت کو بچہ کی ماں بنا دیتا ہے اُس کی زندگی ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جاتی ہے اور اس پر ذلت اور نفرت عامہ اور مصائب کا ایسا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے کہ جیتے جی وہ اس کے بوجھ تلے سے نہیں نکل سکتی۔ نئے اخلاقی اصولوں نے اس مشکل کا حل یہ تجویز کیا ہے کہ ہر قسم کی مادریت کو مساوی حیثیت دے دی جائے، خواہ وہ قید نکاح کے اندر ہو یا باہر۔ کہا جاتا ہے کہ مادریت بہرحال قابلِ احترام ہے اور یہ کہ جس لڑکی نے اپنی سادگی سے یا بے احتیاطی سے ماں بننے کی ذمہ داری قبول کر لی اس پر یہ ظلم ہے کہ سوسائٹی میں اسے مطعون کیا جائے لیکن اول تو یہ حل ایسا ہے کہ اس میں ایسی فاحشہ عورتوں کے لیے چاہے کتنی ہی سہولت ہو، سوسائٹی کے لیے بحیثیت مجموعی سراسر مصیبت ہی مصیبت ہے۔ سوسائٹی فطرتًا حرامی بچہ کی ماں کو جس نفرت اور ذلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے وہ ایک طرف افراد کو گناہ اور بدکاری سے روکنے کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے اور دوسری طرف وہ خود سوسائٹی میں بھی اخلاقی حس کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ اگر حرامی بچہ کی ماں اور حلالی بچہ کی ماں کو مساوی سمجھا جانے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جماعت سے خیر اور شر، بھلائی اور بُرائی، گناہ اور ثواب کی تمیز ہی رخصت ہو گئی۔ پھر بالفرض اگر یہ ہو بھی جائے تو کیا اس سے فی الواقع وہ مشکلات حل ہو جائیں گی جو حرامی بچہ کی ماں کو پیش آتی ہیں۔ تم اپنے نظریہ میں حرام اور حلال دونوں قسم کی مادریت کو مساوی قرار دے سکتے ہو، مگر فطرت ان دونوں کو مساوی نہیں کرتی اور حقیقت میں وہ کبھی مساوی ہو ہی نہیں سکتیں۔ ان کی مساوات عقل، منطق، انصاف، حقیقت، ہر چیز کے خلاف ہے۔ آخر وہ بے وقوف عورت جس نے شہوانی جذبات کے وقتی ہیجان سے مغلوب ہو کر اپنے آپ کو ایک ایسے خود غرض آدمی کے حوالہ کر دیا جو اس کی اور اس کے بچہ کی کفالت کا ذمہ لینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس عقل مند عورت کے برابر کس طرح ہو سکتی ہے جس نے اپنے جذبات کو اس وقت تک قابو میں رکھا جب تک اسے ایک شریف ذمہ دار آدمی نہ مل گیا؟ کون سی عقل ان دونوں کو یکساں کہہ سکتی ہے؟ تم چاہو تو نمائشی طور پر انھیں برابر کر دو مگر تم اس بے وقوف عورت کو وہ کفالت و حفاظت، وہ ہم دردانہ رفاقت، وہ محبت آمیز نگاہ داشت، وہ خیر خواہانہ دیکھ بھال اور وہ سکینت وطمانیت کہاں سے دلوائو گے جو صرف ایک شوہر والی عورت ہی کو تو مل سکتی ہے؟ تم اس کے بچہ کو باپ کی شفقت اور پورے سلسلۂ پدری کی محبت و عنایت کس بازار سے لا دو گے؟ زیادہ سے زیادہ تم قانون کے زور سے اسے نفقہ دلوا سکتے ہو۔ مگر کیا ایک ماں اور ایک بچہ کو دنیا میں صرف نفقہ ہی کی ضرورت ہوا کرتی ہے؟ پس یہ حقیقت ہے کہ حرام اور حلال کی مادریت کو یکساں کر دینے سے گناہ کرنے والیوں کو خارجی تسلی چاہے کتنی ہی مل جائے، بہرحال یہ چیز انھیں ان کی حماقت کے طبعی نتائج سے ان کے بچوں کو اس طرح کی پیدائش کے حقیقی نقصانات سے نہیں بچا سکتی۔
ان وجوہ سے یہ بات جماعتی زندگی کے قیام اور صحیح نشوونما کے لیے اہم ضروریات میں سے ہے کہ جماعت میں صنفی عمل کے انتشار کو قطعی روک دیا جائے اور جذباتِ شہوانی کی تسکین کے لیے صرف ایک ہی دروازہ…… ازدواج کا دروازہ کھولا جائے۔ افراد کو زنا کی آزادی دینا ان کے ساتھ بے جا رعایت اور سوسائٹی پر ظلم، بلکہ سوسائٹی کا قتل ہے۔ جو سوسائٹی اس معاملہ کو حقیر سمجھتی ہے اور زنا کو محض افراد کی ’’خوش وقتی‘‘ (having a good time) سمجھ کر نظر انداز کر دینا چاہتی ہے۔ اور ’’آزادانہ تخم ریزی‘‘ (Sowing Wild Oats) کے ساتھ رواداری برتنے کے لیے تیار ہے، وہ دراصل ایک جاہل سوسائٹی ہے۔ اسے اپنے حقوق کا شعور نہیں ہے۔ وہ آپ اپنے ساتھ دُشمنی کرتی ہے۔ اگر اسے اپنے حقوق کا شعور ہو اور وہ جانے اور سمجھے کہ صنفی تعلقات کے معاملہ میں انفرادی آزادی کے اثرات جماعتی مفاد پر کیا مرتب ہوتے ہیں تو وہ اس فعل کو اسی نظر سے دیکھے جس سے چوری، ڈاکا اور قتل کو دیکھتی ہے بلکہ یہ چوری سے اشد ہے۔ چور، قاتل اور ڈاکو زیادہ سے زیادہ ایک فرد یا چند افراد کا نقصان کرتے ہیں۔ مگر زانی پوری سوسائٹی پر اور اس کی آیندہ نسلوں پر ڈاکا ڈالتا ہے۔ وہ بیک وقت لاکھوں کروڑوں انسانوں کی چوری کرتا ہے۔ اس کے جرم کے نتائج ان سب مجرموں سے زیادہ دُور رس اور زیادہ وسیع ہیں۔ جب یہ تسلیم ہے کہ افراد کی خود غرضانہ دست درازیوں کے مقابلہ میں سوسائٹی کی مدد پر قانون کی طاقت ہونی چاہیے اور جب اسی بنیاد پر چوری، قتل، لوٹ مار، جعل سازی اور غصبِ حقوق کی دوسری صورتوں کو جرم قراردے کر تعزیر کے زور سے ان کا سدِّ باب کیا جاتا ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ زِنا کے معاملہ میں قانون سوسائٹی کا محافظ نہ ہو اور اسے تعزیری جرم قرار نہ دیا جائے۔
اصولی حیثیت سے بھی یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ نکاح اور سفاح دونوں بیک وقت ایک نظامِ معاشرت کے جزو نہیں ہو سکتے۔ اگر ایک شخص کے لیے ذمہ داریاں قبول کیے بغیر خواہشاتِ نفس کی تسکین جائز رکھی جائے تو اسی کام کے لیے نکاح کا ضابطہ مقرر کرنا محض بے معنی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ریل میں بلا ٹکٹ سفر کرنے کو جائز بھی رکھا جائے اور پھر سفر کے لیے ٹکٹ کا قاعدہ بھی مقرر کیا جائے۔ کوئی صاحبِ عقل آدمی ان دونوں طریقوں کو بیک وقت اختیار نہیں کر سکتا۔ معقول صورت یہی ہے کہ یا تو ٹکٹ کا قاعدہ سرے سے اڑا دیا جائے یا اگر یہ قاعدہ مقرر کرنا ہے تو بلا ٹکٹ سفر کرنے کو جرم قرار دیا جائے۔ اسی طرح نکاح اور سفاح کے معاملہ میں بھی دو عملی ایک قطعی غیر معقول چیز ہے۔ اگر تمدن کے لیے نکاح کا ضابطہ ضروری ہے، جیسا کہ پہلے بدلائل ثابت کیا جا چکا ہے، تو اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ سفاح کو جرم قراردیا جائے۔{ FR 6822 } جاہلیت کی خصوصیات میں سے یہ بھی ایک نمایاں خصوصیت ہے کہ جن چیزوں کے نتائج محدود ہوتے ہیں اور جلدی اور محسوس شکل میں سامنے آ جاتے ہیں ان کا تو ادراک کر لیا جاتا ہے مگر جن کے نتائج وسیع اور دور رس ہونے کی وجہ سے غیر محسوس رہتے ہیں اور دیر میں مرتب ہوا کرتے ہیں انھیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، بلکہ ناقابل اعتنا سمجھا جاتا ہے۔ چوری، قتل اور ڈکیتی جیسے معاملات کو اہم اور زنا کو غیر اہم سمجھنے کی وجہ یہی ہے۔ جو شخص اپنے گھر میں طاعون کے چوہے جمع کرتا ہے یا متعدی امراض پھیلاتا ہے۔ جاہلیت کا تمدن اسے تو معافی کے قابل نہیں سمجھتا کیوں کہ اس کا فعل صریح طور پر نقصان رساں نظر آتا ہے۔ مگر جو زنا کار اپنی خود غرضی سے تمدن کی جڑ کاٹتا ہے، اس کے نقصانات چوں کہ محسوس ہونے کی بجائے معقول ہیں اس لیے وہ جاہلوں کو ہر رعایت کا مستحق نظر آتا ہے بلکہ ان کی سمجھ میں یہ آتا ہی نہیں کہ اس کے فعل میں جرم کی آخر کون سی بات ہے۔ اگر تمدن کی بنیاد جاہلیت کی بجائے عقل اور علم فطرت پر ہو تو یہ طرزِ عمل کبھی اختیار نہ کیا جائے۔
۴۔ انسدادِ فواحش کی تدابیر
تمدن کے لیے جو فعل نقصان دِہ ہو اسے روکنے کے لیے صر ف اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ اسے بس قانونًا جرم قرار دیاجائے اور اس کے لیے ایک سزا مقرر کر دی جائے، بلکہ اس کے ساتھ چار قسم کی تدبیریں اور بھی اختیار کرنا ضروری ہیں:
ایک یہ کہ تعلیم و تربیت کے ذریعہ سے افراد کی ذہنیت درست کی جائے اور ان کے نفس کی اس حد تک اصلاح کر دی جائے کہ وہ خود اس فعل سے نفرت کرنے لگیں، اسے گناہ سمجھیں اور ان کااپنا اخلاقی وجدان انھیں اس کے ارتکاب سے باز رکھے۔
دوسرے یہ کہ جماعتی اخلاق اور رائے عام کو اس گناہ یا جرم کے خلاف اس حد تک تیار کر دیا جائے کہ عام لوگ اسے عیب اور لائقِ شرم فعل سمجھنے اور اس کے مرتکب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں تاکہ جن افراد کی تربیت ناقص رہ گئی ہو، یا جن کا اخلاقی وجدان کم زور ہو انھیں رائے عام کی طاقت ارتکابِ جرم سے باز رکھے۔
تیسرے یہ کہ نظامِ تمدن میں ایسے تمام اسباب کا انسداد کر دیا جائے جو اس جرم کی تحریک کرنے والے اور اس کی طرف ترغیب وتحریص دلانے والے ہوں اور اس کے ساتھ ہی ان اسباب کو بھی حتی الامکان دور کیا جائے جو افراد کو اس فعل پر مجبور کرنے والے ہوں۔
چوتھے یہ کہ تمدنی زندگی میں ایسی رکاوٹیں اور مشکلات پیدا کر دی جائیں کہ اگر کوئی شخص اس جرم کا ارتکاب کرنا بھی چاہے تو آسانی سے نہ کر سکے۔
یہ چاروں تدبیریں ایسی ہیں جن کی صحت اور ضرورت پرعقل شہادت دیتی ہے۔ فطرت ان کا مطالبہ کرتی ہے اور بالفعل ساری دنیا کا تعامل بھی یہی ہے کہ سوسائٹی کا قانون جن جن چیزوں کو جرم قرار دیتا ہے ان سب کو روکنے کے لیے تعزیر کے علاوہ یہ چاروں تدبیریں بھی کم و بیش ضرور استعمال کی جاتی ہیں۔ اب اگر یہ مسلم ہے کہ صنفی تعلقات کا انتشار تمدن کے لیے مہلک ہے اور سوسائٹی کے خلاف ایک شدید جرم کی حیثیت رکھتا ہے تو لامحالہ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسے روکنے کے لیے تعزیر کے ساتھ ساتھ وہ سب اصلاحی و انسدادی تدابیر استعمال کرنا ضروری ہیں جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے افراد کی تربیت بھی ہونی چاہیے، رائے عام کو بھی اس کی مخالفت کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ تمدن کے دائرے سے ان تمام چیزوں کو خارج بھی کرنا چاہیے جو افراد کے شہوانی جذبات کو مشتعل کرتی ہیں، نظامِ معاشرت سے ان رکاوٹوں کو بھی دور کرنا چاہیے جو نکاح کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہیں اور مردوں اور عورتوں کے تعلقات پر ایسی پابندیاں بھی عائد کرنی چاہییں کہ اگر وہ دائرہ ازدواج کے باہر صنفی تعلق قائم کرنے کی طرف مائل ہوں تو ان کی راہ میں بہت سے مضبوط حجابات حائل ہو جائیں۔ زنا کو جرم اور گناہ تسلیم کر لینے کے بعد کوئی صاحبِ عقل آدمی ان تدابیر کے خلاف ایک لفظ نہیں کہہ سکتا۔
بعض لوگ ان تمام اخلاقی و اجتماعی اصولوں کو تسلیم کرتے ہیں جن کی بنیاد پر زنا کو گناہ قرار دیا گیا ہے، مگر ان کا اصرار یہ ہے کہ اس کے خلاف تعزیری اور انسدادی تدابیر اختیار کرنے کی بجائے صرف اصلاحی تدبیروں پر اکتفا کرنا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’تعلیم اور تربیت کے ذریعہ سے لوگوں میں اتنا باطنی احساس، ان کے ضمیر کی آواز میں اتنی طاقت اور ان کے اَخلاقی وجدان میں اتنا زور پیدا کر دو کہ وہ خود اس گناہ سے رُک جائیں۔ ورنہ اصلاحِ نفس کی بجائے تعزیری اور انسدادی تدابیر اختیار کرنے کے معنی تو یہ ہوں گے کہ تم آدمیوں کے ساتھ بچوں کا سا سلوک کرتے ہو، بلکہ آدمیت کی توہین کرتے ہو۔‘‘ہم بھی ان کے ارشاد کو اس حد تک تسلیم کرتے ہیں کہ اصلاحِ آدمیت کا اعلیٰ اور اشرف طریقہ وہی ہے جو وہ بیان فرماتے ہیں۔ تہذیب کی غایت فی الحقیقت یہی ہے کہ افراد کے باطن میں ایسی قوت پیدا ہو جائے جس سے وہ خود بخود سوسائٹی کے قوانین کا احترام کرنے لگیں اور خود ان کا اپنا ضمیر انھیں اَخلاقی ضوابط کی خلاف ورزی سے روک دے۔ اسی غرض کے لیے افراد کی تعلیم و تربیت پر سارا زور صرف کیا جاتا ہے۔ مگر کیا فی الواقع تہذیب اپنی اس غایت کو پہنچ چکی ہے؟ کیا حقیقت میں تعلیم اور اَخلاقی تربیت کے ذرائع سے افراد انسانی کو اتنا مہذب بنایا جا چکا ہے کہ ان کے باطن پر کامل اعتماد کیا جا سکتا ہو اور جماعتی نظام کی حفاظت کے لیے خارج میں کسی انسدادی اورتعزیری تدبیرکی ضرورت باقی نہ رہی ہو؟ زمانہ قدیم کا ذکر چھوڑئیے کہ آپ کی زبان میں وہ ’’تاریک‘‘ دور تھا۔ یہ بیسویں صدی، یہ ’’قرنِ منور‘‘ آپ کے سامنے موجود ہے۔ اس زمانہ میں یورپ اور امریکا کے مہذب ترین ممالک کو دیکھ لیجیے جن کا ہر باشندہ تعلیم یافتہ ہے، جنھیں اپنے شہریوں کی اعلیٰ تربیت پر ناز ہے، کیا وہاں تعلیم اور اصلاح نفس نے جرائم اور قانون شکنی کو روک دیا ہے؟ کیا وہاں چوریاں نہیں ہوتیں؟ ڈاکے نہیں پڑتے؟ قتل نہیں ہوتے؟ جعل اور فریب اور ظلم اور فساد کے واقعات پیش نہیں آتے؟ کیا وہاں افراد کے اندر اَخلاقی ذمہ داری کا اتنا احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اب ان کے ساتھ ’’بچوں کا سا سلوک‘‘ نہیں کیا جاتا؟ اگر واقعہ یہ نہیں ہے، اگر اس روشن زمانہ میں بھی سوسائٹی کے نظم و آئین کو محض افراد کے اخلاقی وجدان پر نہیں چھوڑا جا سکا ہے، اگر اب بھی ہر جگہ ’’آدمیت کی یہ توہین‘‘ ہو رہی ہے کہ جرائم کے سدِّ باب کے لیے تعزیری اور انسدادی دونوں قسم کی تدبیریں استعمال کی جاتی ہیں، تو آخر کیا وجہ ہے کہ صرف صنفی تعلقات ہی کے معاملہ میں آپ کو یہ توہین ناگوار ہے؟ صرف اسی ایک معاملہ میں کیوں ان ’’بچوں‘‘ سے ’’بڑوں‘‘ کا سلوک کیے جانے پر آپ کو اصرار اور اتنا اصرار ہے؟ ذرا ٹٹول کر دیکھیے، کہیں دل میں کوئی چور تو چھپا ہوا نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جن چیزوں کو تم شہوانی محرکات قرار دے کر تمدن کے دائرے سے خارج کرنا چاہتے ہو وہ تو سب آرٹ اورذوقِ جمال کی جان ہیں، انھیں نکال دینے سے تو انسانی زندگی میں لطافت کا سرچشمہ ہی سوکھ کر رہ جائے گا، لہٰذا تمھیں تمدن کی حفاظت اور معاشرت کی اصلاح جو کچھ بھی کرنا ہے اس طرح کرو کہ فنونِ لطیفہ اور جمالیت کو ٹھیس نہ لگنے پائے۔ ہم بھی ان حضرات کے ساتھ اس حد تک متفق ہیں کہ آرٹ اور ذوقِ جمال فی الواقع قیمتی چیزیں ہیں جن کی حفاظت بلکہ ترقی ضرور ہونی چاہیے مگر سوسائٹی کی زندگی اور اجتماعی فلاح ان سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ اسے کسی آرٹ اورکسی ذوق پر قربان نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹ اور جمالیت کو اگر پھلنا پھولنا ہے تو اپنے لیے نشوونما کا وہ راستہ ڈھونڈیں جس میں وہ اجتماعی زندگی اور فلاح کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں۔ جو آرٹ اور ذوقِ جمال زندگی کی بجائے ہلاکت اور فلاح کی بجائے فساد کی طرف لے جانے والا ہو اسے جماعت کے دائرے میں ہرگز پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا جا سکتا۔ یہ کوئی ہمارا انفرادی اور خانہ زاد نظریہ نہیں ہے بلکہ یہی عقل و فطرت کا مقتضا ہے، تمام دنیا اسے اصولًا تسلیم کرتی ہے اور اسی پر ہر جگہ عمل بھی ہو رہا ہے۔ جن چیزوں کو بھی دنیا میں جماعتی زندگی کے لیے مہلک اور موجبِ فساد سمجھا جاتا ہے انھیں کہیں آرٹ اورذوقِ جمال کی خاطر گوارا نہیں کیا جاتا، مثلاً جو لٹریچر فتنہ و فساد اور قتل و غارت گری پر اُبھارتا ہو اسے کہیں بھی محض اس کی ادبی خوبیوں کی خاطر جائز نہیں رکھا جاتا۔ جس ادب میں طاعون یا ہیضہ پھیلانے کی ترغیب دی جائے اسے کہیں برداشت نہیں کیا جاتا۔ جو سینما یا تھیٹر امن شکنی اور بغاوت پر اکساتا ہو اسے دنیا کی کوئی حکومت منظرِ عام پر آنے کی اجازت نہیں دیتی۔ جو تصویریں ظلم اور فسادات اور شرارت کے جذبات کی مظہر ہوں یا جن میں اخلاق کے تسلیم شدہ اصول توڑے گئے ہوں اور خواہ کتنی ہی کمالِ فن کی حامل ہوں، کوئی قانون اور کسی سوسائٹی کا ضمیر انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جیب کترنے کا فن اگرچہ ایک لطیف ترین فن ہے اور ہاتھ کی صفائی کا اس سے بہتر کمال شاید ہی کہیں پایا جاتا ہو، مگر کوئی اس کے پھلنے پھولنے کا روادار نہیں ہوتا۔ جعلی نوٹ، چیک اور دستاویزیں تیار کرنے میں حیرت انگیز ذہانت اور مہارت صرف کی جاتی ہے، مگر کوئی اس آرٹ کی ترقی کو جائز نہیں رکھتا۔ ٹھگی میں انسانی دماغ نے اپنی قوتِ ایجاد کے کیسے کیسے کمالات کا اظہار کیا ہے مگر کوئی مہذب سوسائٹی ان کمالات کی قدر کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ پس یہ اصول بجائے خود مسلم ہے کہ جماعت کی زندگی، اس کا امن، اس کی فلاح و بہبود، ہر فنِ لطیف اور ہر ذوقِ جمال و کمال سے زیادہ قیمتی ہے اور کسی آرٹ پر اسے قربان نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اختلاف جس امر میں ہے وہ صرف یہ ہے کہ ایک چیز کو ہم جماعتی زندگی اور فلاح کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں اور دوسرے ایسا نہیں سمجھتے۔ اگر اس امر میں ان کا نقطہ نظر بھی وہی ہوجائے جو ہمارا ہے تو انھیں بھی آرٹ اور ذوقِ جمال پر وہی پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگے گی جن کی ضرورت ہم محسوس کرتے ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ناجائز صنفی تعلقات کو روکنے کے لیے عورتوں اور مردوں کے درمیان حجابات حائل کرنا اور معاشرت میں ان کے آزادانہ اختلاط پر پابندیاں عائد کرنا دراصل ان کے اخلاق اور ان کی سیرت پر حملہ ہے۔ اس سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ گویا تمام افراد کو بدچلن فرض کر لیا گیا ہے اور یہ کہ ایسی پابندیاں لگانے والوں کو نہ ہی اپنی عورتوں پر اعتماد ہے نہ مردوں پر۔ بات بڑی معقول ہے۔ مگر اسی طرزِ استدلال کو ذرا آگے بڑھائیے۔ ہر قفل جو کسی دروازے پر لگایا جاتاہے گویا اس امرکا اعلان ہے کہ اس کے مالک نے تمام دنیا کو چور فرض کیا ہے۔ ہر پولیس مین کا وجود اس پر شاہد ہے کہ حکومت اپنی تمام رعایا کو بدمعاش سمجھتی ہے۔ پھر لین دین میں جو دستاویز لکھائی جاتی ہے وہ اس امر کی دلیل ہے کہ ایک فریق نے دوسرے فریق کو خائن قرار دیا ہے۔ ہر وہ انسدادی تدبیر جو ارتکاب جرائم کی روک تھام کے لیے اختیار کی جاتی ہے، اس کے عین وجود میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ان سب لوگوں کو امکانی مجرم فرض کیا گیا ہے جن پر اس تدبیر کا اثر پڑتا ہو۔ اس طرزِ استدلال کے لحاظ سے توآپ ہر آن چور، بدمعاش، خائن اور مشتبہ چال چلن کے آدمی قرار دیے جاتے ہیں۔ مگر آپ کی عزتِ نفس کو ذرا سی ٹھیس بھی نہیں لگتی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف اسی ایک معاملہ میں آپ کے احساسات اتنے نازک ہو گئے ہیں؟
اصل بات وہی ہے جس کی طرف ہم اوپر اشارہ کر چکے ہیں۔ جن لوگوں کے ذہن میں پرانے اَخلاقی تصورات کا بچا کھچا اثر ابھی باقی ہے وہ زنا اور صنفی انارکی کو بُرا تو سمجھتے ہیں، مگر ایسا زیادہ بُرا نہیں سمجھتے کہ اس کے قطعی انسداد کی ضرورت محسوس کریں۔ اسی وجہ سے اصلاح و انسداد کی تدابیر میں ہمارا اور ان کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ اگر فطرت کے حقائق ان پر پوری طرح منکشف ہو جائیں اور وہ اس معاملہ کی صحیح نوعیت سمجھ لیں تو انھیں ہمارے ساتھ اس امر میں اتفاق کرنا پڑے گا کہ انسان جب تک انسان ہے اور اس کے اندر جب تک حیوانیت کا عنصر موجود ہے اس وقت تک کوئی ایسا تمدن، جو اشخاص کی خواہشات اور ان کے لطف و لذت سے بڑھ کر جماعتی زندگی کی فلاح کو عزیز رکھتا ہو، ان تدابیر سے غافل نہیں ہو سکتا۔
۵۔ تعلقِ زَوجین کی صحیح صورت
خاندان کی تاسیس اور صنفی انتشار کا سدِّباب کرنے کے بعد ایک صالح تمدن کے لیے جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نظامِ معاشرت میں مرد اور عورت کے تعلق کی صحیح نوعیت متعین کی جائے، ان کے حقوق ٹھیک ٹھیک عدل کے ساتھ مقررکیے جائیں، ان کے درمیان ذمہ داریاں پوری مناسبت کے ساتھ تقسیم کی جائیں اور خاندان میں ان کے مراتب اور وظائف کا تقرر اس طور پر ہو کہ اعتدال اور توازن میں فرق نہ آنے پائے۔ تمدن کے جملہ وسائل میں یہ مسئلہ سب سے زیادہ پیچیدہ ہے، مگر انسان کو اس گتھی کے سلجھانے میں اکثر ناکامی ہوئی ہے۔
بعض قومیں ایسی ہیں جن میں عورت کو مرد پر قوام بنایا گیا ہے۔ مگر ہمیں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ اس قسم کی قوموں سے کوئی قوم تہذیب و تمدن کے کسی اعلیٰ مرتبہ پرپہنچی ہو۔ کم از کم تاریخی معلومات کے ریکارڈ میں تو کسی ایسی قوم کا نشان پایا نہیں جاتا جس نے عورت کو حاکم بنایا ہو پھر دنیا میں عزت اور طاقت حاصل کی ہو یا کوئی کارِ نمایاں انجام دیا ہو۔
بیش تر اقوامِ عالم نے مرد کو عورت پر قوام بنایا، مگر اس ترجیح نے اکثر ظلم کی شکل اختیار کر لی ہے۔ عورت کو لونڈی بنا کر رکھا گیا۔ اس کی تذلیل و تحقیر کی گئی۔ اسے کسی قسم کے معاشی اورتمدنی حقوق نہ دیے گئے۔ اسے خاندان میں ایک ادنیٰ خدمت گار اور مرد کے لیے آلۂ شہوت رانی بنا کر رکھا گیا اور خاندان سے باہر عورتوں کے ایک گروہ کو کسی حد تک علم اور تہذیب کے زیوروں سے آراستہ کیا بھی گیا تو صرف اس لیے کہ وہ مردوں کے صنفی مطالبات زیادہ دلاویز طریقے سے پورا کریں، ان کے لیے اپنی موسیقی سے لذتِ گوش اور اپنے رقص اور ناز و ادا سے لذتِ نظر اور اپنے صنفی کمالات سے لذتِ جسم بن جائیں۔ یہ عورت کی توہین و تذلیل کا سب سے زیادہ شرم ناک طریقہ تھا جو مرد کی نفس پرستی نے ایجاد کیا، اور جن قوموں نے یہ طریقہ اختیار کیا وہ خود بھی نقصان سے نہ بچ سکیں۔
جدید مغربی تمدن نے تیسرا طریقہ اختیارکیا ہے۔ یعنی یہ کہ مردوں اور عورتوں میں مساوات ہو، دونوں کی ذمہ داریاں یکساں اور قریب قریب ایک ہی طرح کی ہوں، دونوں ایک ہی حلقہ عمل میں مسابقت کریں، دونوں اپنی روزی آپ کمائیں اور اپنی ضروریات کے آپ کفیل ہوں۔ معاشرت کی تنظیم کا یہ قاعدہ ابھی تک پوری طرح تکمیل کو نہیں پہنچا ہے۔ کیوں کہ مرد کی فضیلت و برتری اب بھی نمایاں ہے، زندگی کے کسی شعبہ میں بھی عورت مرد کی ہم پلہ نہیں ہے اور اسے وہ تمام حقوق حاصل نہیں ہوئے ہیں جو کامل مساوات کی صورت میں اسے ملنے چاہییں۔ لیکن جس حد تک بھی مساوات قائم کی گئی ہے اس نے ابھی سے نظامِ تمدن میں فساد برپا کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ہم تفصیل کے ساتھ اس کے نتائج بیان کر چکے ہیں لہٰذا یہاں اس پر مزید تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ تینوں قسم کے تمدن، عدل، توازُن اور تناسب سے خالی ہیں کیوں کہ انھوں نے فطرت کی راہ نمائی کو سمجھنے اور ٹھیک ٹھیک اس کے مطابق طریقہ اختیار کرنے میں کوتاہی کی ہے۔ اگر عقلِ سلیم سے کام لے کر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ فطرت خود ان مسائل کا صحیح حل بتا رہی ہے۔ بلکہ یہ بھی دراصل فطرت ہی کی زبردست طاقت ہے جس کے اثر سے عورت نہ تو اس حد تک گر سکی جس حد تک اسے گرانے کی کوشش کی گئی اور نہ اس حد تک بڑھ سکی جس حد تک اس نے بڑھنا چاہا یا مرد نے اسے بڑھانے کی کوشش کی۔ افراط اور تفریط کے دونوں پہلو انسان نے غلط اندیش عقل اور اپنے بہکے ہوئے تخیلات کے اثر سے اختیار کیے ہیں۔ مگر فطرتِ عدل اور تناسب چاہتی ہے اور خود اس کی صورت بناتی ہے۔
اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان ہونے میں مرد اور عورت دونوں مساوی ہیں۔ دونوں نوعِ انسانی کے دو مساوی حصے ہیں۔ تمدن کی تعمیر اور تہذیب کی تاسیس و تشکیل اور انسانیت کی خدمت میں دونو ںبرابر کے شریک ہیں۔ دل، دماغ، عقل، جذبات، خواہشات اور بشری ضروریات دونوں رکھتے ہیں۔ تمدن کی صلاح و فلاح کے لیے دونوں کی تہذیب نفس، دماغی تربیت اور عقلی و فکری نشوونما یکساں ضروری ہے تاکہ تمدن کی خدمت میں ہر ایک اپنا پورا پورا حصہ ادا کر سکے۔ اس اعتبار سے مساوات کا دعوٰی بالکل صحیح ہے اور ہر صالح تمدن کا فرض یہی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی اپنی فطری استعداد اور صلاحیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ ترقی کرنے کا موقع دے۔ انھیں علم اور اعلیٰ تربیت سے مزین کرے، انھیں بھی مردوں کی طرح تمدنی و معاشی حقوق عطا کرے اور انھیں معاشرت میں عزت کا مقام بخشے تاکہ ان میں عزتِ نفس کا احساس پیدا ہو اور ان کے اندر وہ بہترین بشری صفات پیدا ہو سکیں جو صرف عزتِ نفس کے احساس ہی سے پیدا ہو سکتی ہیں۔ جن قوموں نے اس قسم کی مساوات سے انکار کیا ہے، جنھوں نے اپنی عورتوں کو جاہل، ناتربیت یافتہ، ذلیل اور حقوقِ مدنیت سے محروم رکھا ہے، وہ خود پستی کے گڑھے میں گر گئی ہیں، کیوں کہ انسانیت کے پورے نصف حصہ کو گرا دینے کے معنی خود انسانیت کو گراں دینے کے ہیں۔ ذلیل مائوں کی گودیوں سے عزت والے، اور ناتربیت یافتہ مائوں کی آغوش سے اعلیٰ تربیت والے اور پست خیال مائوں کے گہوارے سے اُونچے خیال والے انسان نہیں نکل سکتے۔
لیکن مساوات کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کا حلقہ عمل ایک ہی ہو، دونوں ایک ہی طرح سے کام کریں، دونوں پر زندگی کے تمام شعبوں کی ذمہ داریاں یکساں عائد کر دی جائیں اور نظامِ تمدن میں دونوں کی حیثیتیں بالکل ایک سی ہوں۔ اس کی تائید میں سائنس کے مشاہدات اور تجربات سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت اور مرد اپنی جسمانی استعداد اور قوت کے لحاظ سے مساوی (equipotential) ہیں مگر صرف یہ امر کہ ان دونوں میں اس قسم کی مساوات پائی جاتی ہے، اس امر کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ فطرت کا مقصود بھی دونوں سے ایک ہی طرح کے کام لینے ہیں۔ ایسی رائے قائم کرنا اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا۔ جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ دونوں کے نظامِ جسمانی بھی یکساں ہیں۔ دونوں پر فطرت نے ایک ہی جیسی خدمات کا بار بھی ڈالا ہے اور دونوں کی نفسی کیفیات بھی ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ انسان نے اب تک جتنی سائنٹیفک تحقیقات کی ہیں ان سے ان تینوں تنقیحات کا جواب نفی میں ملتا ہے۔
علم الحیات (biology) کی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ عورت اپنی شکل و صورت اور ظاہری اعضا سے لے کر جسم کے ذرات اور نسیجی خلا یا (protein molecules of tissue cells) تک ہر چیز میں مرد سے مختلف ہے۔ جس وقت رحم میں بچے کے اندر صنفی تشکیل (sex formation) واقع ہوتی ہے اسی وقت سے دونوں صنفوں کی جسمانی ساخت بالکل ایک دوسرے سے مختلف صورت میں ترقی کرتی ہے۔ عورت کا پورا نظام جسمانی اس طور پر بنایا جاتا ہے کہ وہ بچہ جننے اور اس کی پرورش کرنے کے لیے مستعد ہو۔ ابتدائی جنینی تشکیل سے لے کر سنِ بلوغ تک اس کے جسم کی پوری نشوونما اسی استعداد کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے اور یہی چیز اس کی آیندہ زندگی کا راستہ متعین کرتی ہے۔
بالغ ہونے پر ایامِ ماہواری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے اثر سے اس کے جسم کے تمام اعضا کی فعلیت متاثر ہو جاتی ہے۔ اکابرِ فنِ حیاتیات و عضویات کے مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایامِ ماہواری میں عورت کے اندر حسبِ ذیل تغیرات ہوتے ہیں:
(۱) جسم میں حرارت کو روکنے کی قوت کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے حرارت زیادہ خارج ہوتی ہے اور درجہ حرارت گر جاتا ہے۔
(۲) نبض سست ہو جاتی ہے۔ خون کا دبائو کم ہو جاتا ہے۔ خلایائے دم [blood cells] کی تعداد میں فرق واقع ہو جاتا ہے۔
(۳) درُونِ افرازی غدد (endocrines)گلے کی گلٹیوں (tonsils) اور غدد لمفاوی (lymphatic glands)میں تغیر واقع ہو جاتا ہے۔
(۴) پروٹینی تحول (protein metabolism) میں کمی آ جاتی ہے۔
(۵) فاسفیٹس اور کلورائیڈس کے اخراج میں کمی اور ہوائی تحول (gaseous metabolism)میں انحطاط رونما ہوتا ہے۔
(۶) ہضم میں اختلاط واقع ہوتا ہے اور غذا کے پروٹینی اجزا اور چربی کے جزو بدن بننے میں کمی ہو جاتی ہے۔
(۷) تنفس کی قابلیت میں کمی اور گویائی کے اعضا میں خاص تغیرات واقع ہوتے ہیں۔
(۸) عضلات میں سستی اور احساسات میں بلادت آ جاتی ہے۔
(۹) ذہانت اور خیالات کو مرکوز کرنے کی طاقت کم ہو جاتی ہے۔
یہ تغیرات ایک تن دُرُست عورت کو بیماری کی حالت سے اس قدر قریب کردیتے ہیں کہ درحقیقت اس وقت صحت اور مرض کے درمیان کوئی واضح خط کھینچنا مشکل ہوتا ہے۔ سو (۱۰۰) میں سے بمشکل تیئس عورتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں ایامِ ماہواری بغیر کسی درد اور تکلیف کے آتے ہوں۔ ایک مرتبہ ۱۰۲۰ عورتوں کو بلا انتخاب لے کر ان کے حالات کی تحقیق کی گئی تو ان میں ۸۴ فی صدی ایسی نکلیں جنھیں ایامِ ماہواری میں درد اور دوسری تکلیفوں سے سابقہ پیش آتا تھا۔
ڈاکٹر امیل نووک جو اس شعبہ علم کا بڑا محقق ہے، لکھتا ہے:
’’حائضہ عورتوں میں عموماً جو کیفیات پائی جاتی ہیں وہ یہ ہیں:
دَردِ سر، تکان، اعضا شکنی، اعصابی کم زوری، طبیعت کی پستی، مثانہ کی بے چینی، ہضم کی خرابی، بعض حالات میں قبض، کبھی کبھی متلی اور قے۔ اچھی خاصی تعداد ایسی عورتوں کی ہے جن کی چھاتیوں میں ہلکا سا درد ہوتا ہے اور کبھی کبھی وہ اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ ٹیسیں سی اُٹھتی معلوم ہوتی ہیں۔ بعض عورتوں کا غدّہ ورقہ (تھائی رائڈ) اس زمانہ میں سوج جاتا ہے جس سے گلا بھاری ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات فتورِ ہضم کی شکایت ہوتی ہے اوراکثر سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر کریگر نے جتنی عورتوں کا معاینہ کیا ہے ان میں سے آدھی ایسی تھیں جنھیں ایامِ ماہواری میں بدہضمی کی شکایت ہو جاتی تھی اور آخری دنوں میں قبض ہو جاتا تھا۔ ڈاکٹر گب ہارڈ کا بیان ہے کہ ایسی عورتیں بہت کم مشاہدہ میں آئی ہیں جنھیں زمانۂ حیض میں کوئی تکلیف نہ ہوتی ہو۔ بیش تر ایسی ہی دیکھی گئی ہیں جنھیں دردِ سر، تکان، زیر ناف درد اور تھوک کی کمی لاحق ہوتی ہے۔ طبیعت میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے اور رونے کو جی چاہتاہے۔‘‘
ان حالات کے اعتبار سے یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ ایامِ ماہواری میں ایک عورت دراصل بیمار ہوتی ہے۔ یہ ایک بیماری ہی ہے جو اسے ہر مہینہ لاحق ہوتی رہتی ہے۔
ان جسمانی تغیرات کا اثر لامحالہ عورت کے ذہنی قوٰی اور اس کے افعال اعضا پر بھی پڑتا ہے۔ ۱۹۰۹ء میں ڈاکٹر (Voicechevsky) نے گہرے مشاہدہ کے بعد یہ نتیجہ ظاہر کیا تھا کہ اس زمانے میں عورت کے اندر مرکزیت خیال اور دماغی محنت کی طاقت کم ہو جاتی ہے پروفیسر (Krschiskersky)نفسیاتی مشاہدات کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس زمانہ میں عورت کا نظامِ عصبی نہایت اشتعال پزیر ہو جاتا ہے۔ احساسات میں بلادت اور ناہمواری پیدا ہو جاتی ہے۔ مرتب انعکاسات کو قبول کرنے کی صلاحیت کم اور بسا اوقات باطل ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ پہلے سے حاصل شدہ مرتب انعکاسات میں بھی بد نظمی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے وہ افعال بھی درست نہیں رہتے جن کی وہ اپنی روز مرہ زندگی میں خوگر ہوتی ہے۔ ایک عورت جو ٹرام کی کنڈکٹر ہے اس زمانہ میں غلط ٹکٹ کاٹ دے گی اور ریز گاری گننے میں الجھے گی۔ ایک موٹر ڈرائیور عورت گاڑی آہستہ اورڈرتے ڈرتے چلائے گی اور ہر موڑ پر گھبرائے گی۔ ایک لیڈی ٹائپسٹ غلط ٹائپ کرے گی، دیرمیں کرے گی۔ کوشش کے باوجود الفاظ چھوڑ جائے گی، غلط جملے بنائے گی، کسی حرف پر انگلی مارنا چاہے گی اور ہاتھ کسی پر جا پڑے گا۔ ایک بیرسٹر عورت کی قوتِ استدلال درست نہ رہے گی اور اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں اس کا دماغ اور اس کی قوتِ بیان دونوں غلطی کریں گے۔ ایک مجسٹریٹ عورت کی قوتِ فہم اور قوتِ فیصلہ دونوں متاثر ہو جائیں گی۔ ایک دندان ساز عورت کو اپنا کام کرتے وقت مطلوبہ اوزار مشکل سے ملیں گے۔ ایک گانے والے عورت اپنے لہجہ اور آواز کی خوبی کو کھو دے گی حتّٰی کہ ایک ماہر نطقیات محض آواز سن کر بتا دے گا کہ گانے والی اس وقت حالتِ حیض میں ہے۔ غرض یہ کہ اس زمانہ میں عورت کے دماغ اور اعصاب کی مشین بڑی حد تک سست اور غیر مرتب ہو جاتی ہے، اس کے اعضا پوری طرح اس کے ارادے کے تحت عمل نہیں کر سکتے، بلکہ اندر سے ایک اضطراری حرکت اس کے ارادے پر غالب آ کر اس کی قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ کو مائوف کر دیتی ہے۔ اس سے مجبورانہ افعال سرزد ہونے لگتے ہیں۔ اس حالت میں اس کی آزادی عمل باقی نہیں رہتی اور وہ کوئی ذمہ دارانہ کام کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔
پروفیسر لاپنسکی (Lapinsky) اپنی کتاب (The Development of Personality in Woman) میں لکھتا ہے کہ زمانۂ حیض عورت کو اس کی آزادیٔ عمل سے محروم کر دیتا ہے۔ وہ اس وقت اضطراری حرکات کی غلام ہوتی ہے اور اس میں بالارادہ کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کی قوت بہت کم ہو جاتی ہے۔
یہ سب تغیرات ایک تن دُرُست عورت میں ہوتے ہیں اور بآسانی ترقی کرکے مرض کی صورت اختیار کر سکتے ہیں۔ ریکارڈ پر ایسے واقعات بکثرت موجود ہیں کہ اس حالت میں عورت دیوانی سی ہو جاتی ہے۔ ذرا سے اشتعال پر غضب ناک ہو جانا، وحشیانہ اور احمقانہ حرکات کر بیٹھنا، حتّٰی کہ خود کشی تک کر گزرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ڈاکٹرکرافت ایبنگ (Kraft Ebing) لکھتا ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو عورتیں نرم مزاج، سلیقہ مند اور خوش خلق ہوتی ہیں ان کی حالت ایامِ ماہواری کے آتے ہی یکایک بدل جاتی ہے۔ یہ زمانہ ان کے اوپر گویا ایک طوفان کی طرح آتا ہے۔ وہ چڑچڑی، جھگڑالو اور کٹ کھنی ہو جاتی ہیں۔ نوکر، بچے اور شوہر سب ان سے نالاں ہوتے ہیں۔ حتّٰی کہ وہ اجنبی لوگوں سے بھی بُری طرح پیش آتی ہیں بعض دوسرے اہلِ فن گہرے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ عورتوں سے اکثر جرائم حالتِ حیض میں سرزد ہوتے ہیں کیوں کہ وہ اس وقت اپنے قابو میں نہیں ہوتیں۔ ایک اچھی خاصی نیک عورت اس زمانہ میں چوری کر گزرے گی اور بعد میں خود اسے اپنے فعل پر شرم آئے گی…… وائن برگ (Weinberg) اپنے مشاہدات کی بنا پر لکھتا ہے کہ خود کشی کرنے والی عورتوں میں ۵۰ فی صدی ایسی پائی گئی ہیں جنھوں نے حالتِ حیض میں یہ فعل کیا ہے۔ اسی بِنا پر ڈاکٹر کرافت ایبنگ کی رائے یہ ہے کہ بالغ عورتوں پر جب کسی جرم کی پاداش میں مقدمہ چلایا جائے توعدالت کو اس امر کی تحقیق کر لینی چاہیے کہ جرم کہیں حالتِ حیض میں تو نہیں کیا گیا۔
ایامِ ماہواری سے بڑھ کر حمل کا زمانہ عورت پر سخت ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ریپریف (Reprev) لکھتا ہے کہ حمل کے زمانہ میں عورت کے جسم سے فضلات کا اخراج بسا اوقات فاقہ زدگی کی حالت سے بھی زیادہ مقدار میں ہوتا ہے۔ اس زمانہ میں عورت کے قوٰی کسی طرح بھی جسمانی اور دماغی محنت کا وہ بار نہیں سنبھال سکتے جو حمل کے ماسوا دوسرے ایام میں سنبھال سکتے ہیں۔ جو حالات اس زمانہ میں عورت پر گزرتے ہیں وہ اگر مرد پر گزریں یا غیر زمانہ حمل میں خود عورت پر گزریں تو قطعی بیماری کا حکم لگا دیا جائے۔ اس زمانہ میں کئی مہینے تک اس کا نظامِ عصبی مختل رہتا ہے۔ اس کا دماغی توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس کے تمام عناصر روحی ایک مسلسل بدنظمی کی حالت میں ہوتے ہیں۔ وہ مرض اور صحت کے درمیان معلق رہتی ہے اور ایک ادنیٰ سی وجہ اسے بیماری کی سرحد میں پہنچا سکتی ہے۔ ڈاکٹر فشر کا بیان ہے کہ ایک تن درست عورت بھی حمل کے زمانہ میں سخت نفسی اضطراب میں مبتلا رہتی ہے۔ اس میں تلون پیدا ہو جاتا ہے، خیالات پریشان رہتے ہیں، ذہن پراگندہ ہوتا ہے۔ شعور، غور و فکر اور سمجھ بوجھ کی صلاحیت بہت کم ہو جاتی ہے۔ ہیولاک ایلیس اور البرٹ مول اور بعض دوسرے ماہرین کی متفقہ رائے یہ ہے کہ زمانۂ حمل کا آخری ایک مہینا تو ہرگز اس قابل نہیں ہوتا کہ اس میں عورت سے کوئی جسمانی یا دماغی محنت لی جائے۔
وضع حمل کے بعد متعدد بیماریوں کے رونما ہونے اور ترقی کرنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ زچگی کے زخم زہریلے اثرات قبول کرنے کے لیے مستعد رہتے ہیں۔ قبلِ حمل کی حالت پر واپس جانے کے لیے اعضا میں ایک حرکت شروع ہوتی ہے جو سارے نظامِ جسمانی کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ اگر کوئی خطرہ بھی نہ پیش آئے تب بھی اسے اپنی اصلی حالت پر آنے میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح استقرارِ حمل کے بعد سے پورے ایک سال تک عورت درحقیقت بیمار یا کم از کم نیم بیمار ہوتی ہے اور اس کی قوتِ کارکردگی عام حالات کی بہ نسبت آدھی بلکہ اس سے بھی کم رہ جاتی ہے۔
پھر رضاعت کا زمانہ ایسا ہوتا ہے جس میں درحقیقت وہ اپنے لیے نہیں جیتی بلکہ اُس امانت کے لیے جیتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔ اس کے جسم کا جوہر اس کے بچے کے لیے دودھ بنتا ہے۔ جو کچھ غذا وہ کھاتی ہے اس میں صرف اس قدر حصہ اس کے جسم کو ملتا ہے جس قدر اسے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے باقی سب کا سب دودھ کی پیدائش میں صرف ہوتا ہے۔
اس کے بعد ایک مدتِ دراز تک بچہ کی پرورش، نگاہ داشت اور تربیت پر اسے تمام تر توجہ صرف کرنا پڑتی ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسئلہ رضاعت کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ بچوں کو خارجی غذائوں پر رکھا جائے۔ لیکن یہ کوئی صحیح حل نہیں ہے اس لیے کہ فطرت نے بچہ کی پرورش کا جو سامان ماں کے سینے میں رکھ دیا ہے اس کا صحیح بدل اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ بچے کو اس سے محروم کرنا ظلم اور خود غرضی کے سوا کچھ نہیں۔ تمام ماہرینِ فن اس بات پر متفق ہیں کہ بچے کی صحیح نشوونما کے لیے ماں کے دودھ سے بہتر کوئی غذا نہیں ہے۔
اسی طرح تربیتِ اطفال کے لیے نرسنگ ہوم اور تربیت گاہ اطفال کی تجویزیں نکالی گئی ہیں تاکہ مائیں اپنے بچوں سے بے فکر ہوکر بیرون خانہ کے مشاغل میں منہمک ہو سکیں۔ لیکن کسی نرسنگ ہوم اور کسی تربیت گاہ میں شفقتِ مادری فراہم نہیں کی جا سکتی۔ طفولیت کا ابتدائی زمانہ جس محبت اور جس دردمندی و خیر سگالی کا محتاج ہے وہ کرایہ کی پالنے پوسنے والیوں کے سینے میں کہاں سے آ سکتا ہے۔ تربیتِ اطفال کے یہ جدید طریقے ابھی تک آزمودہ نہیں ہیں۔ ابھی تک وہ نسلیں پھل پھول بھی نہیں لائیں جو بچے پالنے کے ان نئے کارخانوں میں تیار کی گئی ہیں۔ ابھی تک ان کی سیرت ان کے اخلاق، ان کے کارنامے دنیا کے سامنے نہیں آئے ہیں کہ اس تجربہ کی کام یابی و ناکامی کے متعلق کوئی رائے قائم کی جا سکے۔ لہٰذا اس طریقے کے متعلق یہ دعوٰی کرنا قبل از وقت ہے کہ دنیا نے ماں کی آغوش کا صحیح بدل پا لیا ہے۔ کم از کم اس وقت تو یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ بچہ کی فطری تربیت گاہ اس کی ماں کی آغوش ہی ہے۔
اب یہ بات ایک معمولی عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر عورت اور مرد دونوں کی جسمانی اور دماغی قوت و استعداد بالکل مساوی بھی ہے۔ تب بھی فطرت نے دونوں پرمساوی بار نہیں ڈالا ہے۔ بقائے نوع کی خدمت میں تخم ریزی کے سوا اور کوئی کام مرد کے سپرد نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد وہ بالکل آزاد ہے۔ زندگی کے جس شعبہ میں چاہے کام کرے۔ بخلاف اس کے اس خدمت کا پورا بار عورت پر ڈال دیا گیا ہے۔ اسی بار کے سنبھالنے کے لیے اسے اس وقت سے مستعد کیا جاتا ہے جب کہ وہ ماں کے پیٹ میں محض ایک مضغۂ گوشت ہوتی ہے۔ اس کے لیے اس کے جسم کی ساری مشین موزوں کی جاتی ہے۔ اس کے لیے اس پر جوانی کے پورے زمانے میں ایامِ ماہواری کے دورے آتے ہیں جو ہر مہینے میں تین سے لے کر سات یا دس دن اسے کسی بڑی ذمہ داری کا بار سنبھالنے اور کوئی اہم جسمانی یا دماغی محنت کرنے کے قابل نہیں رکھتے۔ اسی کے لیے اس پر حمل اور مابعد حمل کا پورا ایک سال سختیاں جھیلتے گزرتا ہے جس میں وہ درحقیقت نیم جاں ہوتی ہے۔ اسی کے لیے اس پر رضاعت کے پورے دو سال اس طرح گزرتے ہیں کہ وہ اپنے خون سے انسانیت کی کھیتی کو سینچتی ہے اور اسے اپنے سینے کی نہروں سے سیراب کرتی ہے۔ اسی کے لیے اس پر بچے کی ابتدائی پرورش کے کئی سال اس محنت و مشقت میں گزرتے ہیں کہ اس پر رات کی نیند اور دن کی آسائش حرام ہوتی ہے اور وہ اپنی راحت، اپنے لطف، اپنی خوشی، اپنی خواہشات، غرض ہر چیز کو آنے والی نسل پر قربان کر دیتی ہے۔
جب حال یہ ہے تو غور کیجیے کہ عدل کا تقاضا کیا ہے؟ کیا عدل یہی ہے کہ عورت سے ان فطری ذمہ داریوں کی بجا آوری کا بھی مطالبہ کیا جائے جن میں مرد اس کا شریک نہیں ہے اور پھر ان تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اس پر مرد کے برابر ڈال دیا جائے جنھیں سنبھالنے کے لیے مرد فطرت کی تمام ذمہ داریوں سے آزاد رکھا گیا ہے؟ اس سے کہا جائے کہ تو وہ ساری مصیبتیں بھی برداشت کر جو فطرت نے تیرے اوپر ڈالی ہیں اور پھر ہمارے ساتھ آ کر روزی کمانے کی مشقتیں بھی اٹھا، سیاست، عدالت، صنعت و حرفت، تجارت و زراعت، قیامِ امن اور مدافعتِ وطن کی خدمتوں میں بھی برابرکا حصہ لے، ہماری سوسائٹی میں آ کر ہمارا دل بھی بہلا اور ہمارے لیے عیش و مسرت اور لطف و لذت کے سامان بھی فراہم کر؟ یہ عدل نہیں ظلم ہے، مساوات نہیں صریح نامساوات ہے۔ عدل کا تقاضا تو یہ ہونا چاہیے کہ جس پر فطرت نے بہت زیادہ بار ڈالا ہے اسے تمدن کے ہلکے اور سبک کام سپرد کیے جائیں اور جس پر فطرت نے کوئی با رنہیں ڈالا اس پر تمدن کی اہم اور زیادہ محنت طلب ذمہ داریوں کا بار ڈالا جائے اور اسی کے سپرد یہ خدمت بھی کی جائے کہ وہ خاندان کی پرورش اور اس کی حفاظت کرے۔
صرف یہی نہیں کہ عورت پر بیرون خانہ کی ذمہ داریاں ڈالنا ظلم ہے۔ بلکہ درحقیقت وہ ان مردانہ خدمات کو انجام دینے کی پوری طرح اہل بھی نہیں ہے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ ان کاموں کے لیے وہی کارکن موزوں ہو سکتے ہیں جن کی قوتِ کارکردگی پائدار ہو، جومسلسل اور علی الدوام اپنے فرائض کو یکساں اہلیت کے ساتھ انجام دے سکتے ہوں اور جن کی دماغی و جسمانی قوتوں پر اعتماد کیا جا سکتا ہو۔ لیکن جن کارکنوں پر ہمیشہ ہر مہینا ایک کافی مدت کے لیے عدم اہلیت یا کمی اہلیت کے دورے پڑتے ہوں اور جن کی قوتِ کارکردگی بار بار معیارِ مطلوب سے گھٹ جایا کرتی ہو، وہ کس طرح ان ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھا سکتے ہیں؟ اس فوج یا اس بحری بیڑے کی حالت کا اندازہ کیجیے جو عورتوں پرمشتمل ہو اور جس میں عین موقع کار زار پرکئی فی صدی ایام ماہواری کی وجہ سے نیم بے کار ہو رہی ہوں، ایک اچھی خاصی تعداد زچگی کی حالت میں بستروں پر پڑی ہو، اور ایک معتدبہ جماعت حاملہ ہونے کی وجہ سے ناقابلِ کار ہو رہی ہو۔ فوج کی مثال کو آپ کہہ دیں گے کہ یہ زیادہ سخت قسم کے فرائض سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر پولیس، عدالت، انتظامی محکمے، سفارتی خدمات، ریلوے، صنعت و حرفت اور تجارت کے کام، ان میں سے کس کی ذمہ داریاں ایسی ہیں جو مسلسل قابلِ اعتماد کارکردگی کی اہلیت نہ چاہتی ہوں، پس جو لوگ عورتوں سے مردانہ کام لینا چاہتے ہیں ان کا مطلب شاید یہ ہے کہ یا تو سب عورتوں کو ناعورت بنا کر نسلِ انسانی کا خاتمہ کر دیا جائے یا یہ کہ ان میں سے چند فی صدی لازمًا ناعورت بننے کی سزا کے لیے منتخب کی جاتی رہیں یا یہ کہ تمام معاملاتِ تمدن کے لیے اہلیت کا معیار بالعموم گھٹا دیا جائے۔
مگر خواہ آپ ان میں سے کوئی صورت بھی اختیار کریں، عورت کو مردانہ کاموں کے لیے تیار کرنا عین اقتضائے فطرت اور وضع فطرت کے خلاف ہے اور یہ چیز نہ انسانیت کے لیے مفید ہے نہ خود عورت کے لیے۔ چوں کہ علم الحیات کی رُو سے عورت کو بچہ کی پیدائش اور پرورش کے لیے بنایا گیا ہے، اس لیے نفسیات کے دائرے میں بھی اس کے اندر وہی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں جو اس کے فطری وظیفہ کے لیے موزوں ہیں۔ یعنی محبت، ہم دردی، رحم وشفقت، رقتِ قلب، ذکاوتِ حس اور لطافتِ جذبات اور چوں کہ صنفی زندگی میں مرد کو فعل کا اور عورت کو انفعال کا مقام دیا گیا ہے۔ اس لیے عورت کے اندر تمام وہی صفات پیدا کی گئی ہیں جو اسے زندگی کے صرف منفعلانہ پہلو میں کام کرنے کے لیے تیار کرتی ہیں۔ اس کے اندر سختی اور شدت کی بجائے نرمی، نزاکت اور لچک ہے۔ اس میں اثر اندازی کی بجائے اثر پزیری ہے، فعل کی بجائے انفعال ہے، جمنے اور ٹھہرنے کی بجائے جھکنے اور ڈھل جانے کی صلاحیت ہے، بے باکی اور جسارت کی بجائے منع، فرار اوررکاوٹ ہے، کیا ان خصوصیات کو لے کر وہ کبھی ان کاموں کے لیے موزوں ہو سکتی ہے اور ان دوائر حیات میں کام یاب ہو سکتی ہے جو شدت، تحکم، مزاحمت اور سرد مزاجی چاہتے ہیں، جن میں نرم جذبات کی بجائے مضبوط ارادے اور بے لاگ رائے کی ضرورت ہے؟ تمدن کے ان شعبوں میں عورت کو گھسیٹ لانا خود اسے بھی ضائع کرنا ہے اور ان شعبوں کو بھی۔
اس میں عورت کے لیے ارتقا نہیں بلکہ انحطاط ہے۔ ارتقا اسے نہیں کہتے کہ کسی کی قدرتی صلاحیتوں کو دبایا اور مٹایا جائے اور اس میں مصنوعی طور پر وہ صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جو فطری طور پر اس کے اندر نہ ہوں، بلکہ ارتقا اس کا نام ہے کہ قدرتی صلاحیتوں کو نشوونما دی جائے، انھیں نکھارا اورچمکایا جائے اورا ن کے لیے بہتر سے بہتر عمل کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
اس میں عورت کے لیے کام یابی نہیں بلکہ ناکامی ہے۔ زندگی کے ایک پہلو میں عورتیں کم زور ہیں اور مرد بڑھے ہوئے ہیں۔ دوسرے پہلو میں مرد کم زور ہیں اور عورتیں بڑھی ہوئی ہیں۔ تم غریب عورتوں کو اس پہلو میں مرد کے مقابلہ پر لاتے ہو جس میں وہ کم زور ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا کہ عورتیں ہمیشہ مردوں سے کم تر رہیں گی۔ تم خواہ کتنی ہی تدبیریں کر لو، ممکن نہیں ہے کہ عورتوں کی صنف سے ارسطو، ابن سینا، کانٹ، ہیگل، خیام، شیکسپئر، سکندر، نپولین، صلاح الدین، نظام الملک طوسی، اور سمارک کی ٹکر کا ایک فرد بھی پیدا ہو سکے۔ البتہ تمام دنیا کے مرد چاہے کتنا ہی سرمار لیں، وہ اپنی پوری صنف میں سے ایک معمولی درجہ کی ماں بھی پیدا نہیں کر سکتے۔
اس میں خود تمدن کا بھی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے۔ انسانی زندگی اور تہذیب کو جتنی ضرورت غلظت، شدت اور صلابت کی ہے، اتنی ہی ضرورت رقت، نرمی اور لچک کی بھی ہے۔ جتنی ضرورت اچھے سپہ سالاروں، اچھے مدبروں اور اچھے منتظمین کی ہے، اتنی ہی ضرورت اچھی مائوں، اچھی بیویوں اور اچھی خانہ داروں کی بھی ہے۔ دونوں عنصروں میں جسے بھی ساقط کیا جائے گا تمدن بہرحال نقصان اٹھائے گا۔
یہ وہ تقسیمِ عمل ہے جو خود فطرت نے انسان کی دونوں صنفوں کے درمیان کر دی ہے۔ حیاتیات، عضویات، نفسیات اورعمرانیات کے تمام علوم اس تقسیم کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ بچہ جننے اور پالنے کی خدمت کا عورت کے سپرد ہونا ایک ایسی فیصلہ کن حقیقت ہے جوخود بخود انسانی تمدن میں اس کے لیے ایک دائرہ عمل مخصوص کر دیتی ہے اور کسی مصنوعی تدبیر میں یہ طاقت نہیں ہے کہ فطرت کے اس فیصلہ کو بدل سکے۔ ایک صالح تمدن وہی ہو سکتا ہے جو اولًا اس فیصلہ کو جوں کا توں قبول کرے۔ پھر عورت کو اس کے صحیح مقام پر رکھ کر اسے معاشرت میں عزت کا مرتبہ دے۔ اس کے جائز تمدنی و معاشی حقوق تسلیم کرے، اس پر صرف گھر کی ذمہ داریوں کا بار ڈالے اور بیرون خانہ کی ذمہ داریاں اور خاندان کی قوامیت مرد کے سپرد کر دے۔ جو تمدن اس تقسیم کو مٹانے کی کوشش کرے گا وہ عارضی طور پر مادی حیثیت سے ترقی اور شان و شوکت کے کچھ مظاہر پیش کر سکتا ہے، لیکن بالاخر ایسے تمدن کی بربادی یقینی ہے کیوں کہ جب عورت پر مرد کے برابر معاشی و تمدنی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جائے گا تو وہ اپنے اوپر سے فطری ذمہ داریوں کا بوجھ اتار پھینکے گی اور اس کا نتیجہ نہ صرف تمدن بلکہ خود انسانیت کی بربادی ہو گا۔ عورت اپنی افتاد طبع اور اپنی فطری ساخت کے خلاف اگر کوشش کرے تو کسی نہ کسی حد تک مرد کے سب کاموں کا بوجھ سنبھال لے جائے گی۔ لیکن مرد کسی طرح بھی اپنے آپ کو بچے جننے اور پالنے کے قابل نہیں بنا سکتا۔
فطرت کی اس تقسیمِ عمل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاندان کی جو تنظیم اور معاشرت میں مرد و عورت کے وظائف کی جو تعیین کی جائے گی اس کے ضروری ارکان لامحالہ حسب ذیل ہوں گے:
۱۔ خاندان کے لیے روزی کمانا، اس کی حمایت و حفاظت کرنا اور تمدن کی محنت طلب خدمات انجام دینا مرد کا کام ہو اور اس کی تعلیم و تربیت ایسی ہو کہ وہ ان اغراض کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بن سکے۔
۲۔ بچوں کی پرورش، خانہ داری کے فرائض اور گھر کی زندگی کو سکون و راحت کی جنت بنانا عورت کا کام ہو اور اسے بہتر سے بہتر تعلیم و تربیت دے کر انھی اغراض کے لیے تیار کیا جائے۔
۳۔ خاندان کے نظم کو برقرار رکھنے اور اسے طوائف الملوکی سے بچانے کے لیے ایک فرد کو قانونی حدود کے اندر ضروری حاکمانہ اختیارات حاصل ہوں تاکہ خاندان ایک بن سری فوج بن کر نہ رہ جائے۔ ایسا فرد صرف مرد ہی ہو سکتا ہے کیوں کہ جس رکنِ خاندان کی دماغی اور قلبی حالت باربار ایامِ ماہواری اور حمل کے زمانہ میں بگڑتی ہو وہ بہرحال ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے قابل نہیں ہو سکتا۔
۴۔ تمدن کے نظام میں اس تقسیم اور ترتیب و تنظیم کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تحفظات رکھے جائیں تاکہ بے عقل افراد اپنی حماقت سے مردوں اورعورتوں کے حلقہ ہائے عمل مخلوط کرکے اس صالح تمدنی نظام کو درہم برہم نہ کر سکیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں