Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ
کچھ جدید اڈیشن کے بارے میں
۱۔ نوعیتِ مسئلہ
۲ ۔عورت مختلف اَدوار میں
۳ ۔دَورِ جدید کا مسلمان
۴۔ نظریات
۵ ۔نتائج
۶ ۔چند اور مثالیں
۷۔ فیصلہ کن سوال
۸ ۔قوانینِ فطرت
۹ ۔انسانی کوتاہیاں
۱۰ ۔اسلامی نظامِ معاشرت
۱۱ ۔پردہ کے احکام
۱۲۔ باہر نکلنے کے قوانین
۱۳۔ خاتمہ

پردہ

  مغربی تہذیب کی برق پاشیوں اور جلوہ سامانیوں نے اہل ِمشرق کی عموماً اور مسلمانوں کی نظروں کو خصوصاً جس طرح خیرہ کیا ہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عریانی نے جس سیل رواں کی شکل اختیار کی ہے اس نے ہماری ملی اور دینی اقدار کو خس و خاشاک کی طرح بہادیا گیا۔ اس کی چمک دمک نے ہمیں کچھ اس طرح مبہوت کردیا کہ ہم یہ بھی تمیز نہ کر سکے کہ اس چمکتی ہوئی شے میں زرِخالص کتنا ہے اور کھوٹ کتنا۔ اس تیز وتند سیلاب کے مقابلہ میں ہم اتنے بے بس ہو کر رہ گئے ہیں کہ ہماری اکثریت نے اپنے آپ کو پوری طرح اس کے حوالے کردیا۔ نیتجتاً ہمارا معاشرہ تلپٹ ہوگیا اور ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ کچھ اس طرح منتشر ہواکہ کوچہ کوچہ ہماری اس تہذیبی خودکشی پر نوحہ کر رہا ہے۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ان با بصیرت اصحاب میں سے ہیں جنھوں نے اس سیلاب بلا خیز کی تباہ کا ریوں کا بروقت اندازہ لگا کر ملت کو اس عظیم خطرے سے متنبہ کیا اور اسے روکنے کے لیے مضبوط بند باندھنے کی کو شش کی۔

”پردہ “ آپ کی انھی کوششوں کی آئینہ دار ہے۔

عصرِ حاضر میں اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ،”پردہ “ان میں ممتاز مقام رکھتی ہے اس کا دل نشین اندازِ بیان، پرزوراستدلال اور حقائق سے لبریز تجزیے اپنے اندروہ کشش رکھتا ہے کہ کٹر سے کٹر مخالف بھی قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا۔یہی وجہ ہے کہ پورے عالمِ اسلام میں اس کتاب کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ بہت کم کتابوں کو نصیب ہوئی ہے ۔مشرقِ وسطیٰ میں اس کا عربی ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ یہی حال اس کے اردو اور انگریزی ایڈیشن کا ہے۔

۴۔ نظریات

پردے کی مخالفت جن وجوہ سے کی جاتی ہے وہ محض سلبی نوعیت ہی کے نہیں ہیں بلکہ دراصل ایک ثبوتی و ایجابی بنیاد پر قائم ہیں۔ ان کی بنا صرف یہی نہیں ہے کہ لوگ عورت کے گھر میں رہنے اور نقاب کے ساتھ باہر نکلنے کوناروا قید سمجھتے ہیں اور بس اسے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ان کے پیشِ نظر عورت کے لیے زندگی کا دوسرا نقشہ ہے۔ تعلقاتِ مرد و زن کے بارے میں وہ اپنا ایک مستقل نظریہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عورتیں یہ نہ کریں بلکہ کچھ اور کریں اور پردے پر ان کا اعتراض اس وجہ سے ہے کہ عورت اپنی اس خانہ نشینی اور روپوشی کے ساتھ نہ تو زندگی کا وہ نقشہ جما سکتی ہے، نہ وہ ’’کچھ اور‘‘ کر سکتی ہے۔
اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ ’’کچھ اور‘‘ کیا ہے اس کی تہ میں کون سے نظریات اور کون سے اُصول ہیں، وہ بجائے خود کہاں تک درست اورمعقول ہے، اورعملًا اس سے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ اگر ان کے نظریات اوراُصولوں کو جوں کا توں تسلیم کر لیا جائے تب تو پردہ، اور وہ نظامِ معاشرت جس کا جزو یہ پردہ ہے، واقعی سراسر غلط قرار پائے گا۔ مگر ہم بغیر کسی تنقید اور بغیر کسی عقلی اور تجربی امتحان کے آخر کیوں ان کے نظریات تسلیم کر لیں؟ کیا محض جدید ہونا، یا محض یہ واقعہ کہ ایک چیز دنیا میں زور شور سے چل رہی ہے، اس بات کے لیے بالکل کافی ہے کہ آدمی کسی جانچ پڑتال کے بغیر اس کے آگے سپر ڈال ہی دے؟
۱۔ اٹھارہویں صدی کا تصورِ آزادی
جیسا کہ اس سے پہلے اشارہ کر چکا ہوں، اٹھارہویں صدی میں جن فلاسفہ اورعلمائے طبیعین اور اہلِ ادب نے اصلاح کی آواز بلند کی تھی انھیں دراصل ایک ایسے نظامِ تمدن سے سابقہ درپیش تھا جس میں طرح طرح کی جکڑ بندیاں تھیں، جو کسی پہلو سے لوچ اور لچک نام کو نہ رکھتا تھا جو غیر معقول رواجوں، جامد قاعدوں اور عقل و فطرت کے خلاف صریح تناقضات سے لبریز تھا۔ صدیوں کے مسلسل انحطاط نے اسے ترقی کے ہر راستہ میں سنگِ گراں بنا دیا تھا۔ ایک طرف نئی عقلی و علمی بیداری طبقہ متوسط (بورثوا طبقے) میں ابھرنے اور ذاتی جدوجہد سے آگے بڑھنے کا پرجوش جذبہ پیدا کر رہی تھی اور دوسری طرف اُمرا اور پیشوایانِ مذہب کا طبقہ ان کے اوپر بیٹھا ہوا روایتی قیود کی گرہیں مضبوط کرنے میں لگا ہوا تھا۔ چرچ سے لے کر فوج اور عدالت کے محکموں تک شاہی محلوں سے لے کر کھیتوں اورمالی لین دین کی کوٹھیوں تک، زندگی کا ہر شعبہ، اور اجتماعی تنظیمات کا ہرادارہ اس طرح کام کر رہا تھا کہ محض پہلے سے قائم شدہ حقوق کے زور پر چند مخصوص طبقے ان نئے ابھرنے والے لوگوں کی محنتوں اور قابلیتوں کے ثمرات چھین لے جاتے تھے جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر وہ کوشش جو اس صورتِ حال کی اصلاح کے لیے کی جاتی تھی، برسرِ اقتدار طبقوں کی خود غرضی و جہالت کے مقابلہ میں ناکام ہو جاتی تھی۔ ان وجوہ سے اصلاح و تغیر کا مطالبہ کرنے والوں میں روز بروز اندھا انقلابی جوش پیدا ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ بالآخر اس پورے اجتماعی نظام اور اس کے ہر شعبے اور ہر جزو کے خلاف بغاوت کا جذبہ پھیل گیا اور شخصی آزادی کا ایک ایسا انتہا پسندانہ نظریہ مقبولِ عام ہوا جس کا مقصد سوسائٹی کے مقابلہ میں فرد کو حریتِ تامہ اور اِباحتِ مطلقہ عطا کر دینا تھا۔ کہا جانے لگا کہ فرد کو پوری خود مختاری کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق ہر وہ کام کرنے کا حق ہونا چاہیے جو اسے پسند آئے، اور ہر اس کام سے باز رہنے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے جو اسے پسند نہ آئے۔ سوسائٹی کو اس کی انفرادی آزادی چھین لینے کا کوئی حق نہیںحکومت کا فرض صرف یہ ہے کہ افراد کی اس آزادیٔ عمل کو محفوظ رکھے، اور اجتماعی ادارات صرف اس لیے ہونے چاہییں کہ مرد کو اس کے مقاصد حاصل کرنے میں مدد دیں۔
آزادی کا یہ مبالغہ آمیز تصور، جودراصل ایک ظالمانہ اجتماعی نظام کے خلاف غصے کا نتیجہ تھا، اپنے اندر ایک بڑے اور عظیم تر فساد کے جراثیم رکھتا تھا۔ جن لوگوں نے اسے ابتدائً پیش کیا وہ خود بھی پوری طرح اس کے منطقی نتائج سے آگاہ نہ تھے۔ شاید ان کی رُوح کانپ اٹھتی اگر ان کے سامنے وہ نتائج متمثل ہو کر آ جاتے جن پرایسی بے قیدِ اباحت اور ایسی خود سرانہ انفرادیت لازمًا منتہی ہونے والی تھی۔ انھوں نے زیادہ تر ان ناروا سختیوں اور غیر معقول بندشوں کو توڑنے کے لیے اسے بطور ایک آلہ کے استعمال کرنا چاہا تھا جو ان کے زمانہ کی سوسائٹی میں پائی جاتی تھی۔ لیکن بالآخر اس تصور نے مغربی ذہن میں جڑ پکڑ لی اور نشوونما پانا شروع کر دی۔
۲۔انیسویں صدی کے تغیرات
فرانس کا انقلاب اسی تصورِ آزادی کے زیر اثر رونما ہوا۔ اس انقلاب میں بہت سے پرانے اخلاقی نظریات{ FR 6791 } اور تمدنی و مذہبی ضابطوں کی دھجیاں اُڑا دی گئیں اور جب ان کا اڑنا ترقی کا ذریعہ ثابت ہوا تو انقلاب پسند دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہر وہ نظریہ اور ہر وہ ضابطہ عمل جو پہلے سے چلا آ رہا ہے، ترقی کی راہ کا روڑا ہے، اسے ہٹائے بغیر قدم آگے نہیں بڑھ سکتا۔ چنانچہ مسیحی اخلاقیات کے غلط اصولوں کو توڑنے کے بعد بہت جلدی ان کی مقراضِ تنقید انسانی اخلاقیات کے اساسی تصورات کی طرف متوجہ ہو گئی۔ یہ عصمت کیا بلا ہے؟ یہ جوانی پر تقوٰی کی مصیبت آخر کیوں ڈالی گئی ہے؟ نکاح کے بغیراگر کوئی کسی سے محبت کرلے تو کیا بگڑ جاتا ہے؟ اور نکاح کے بعد کیا دل آدمی کے سینے سے نکل جاتا ہے کہ اس سے محبت کرنے کا حق چھین لیا جائے؟ اس قسم کے سوالات نئی انقلابی سوسائٹی میں ہر طرف سے اُٹھنے لگے اور خصوصیت کے ساتھ افسانوی گروہ (romantic school) نے انھیں سب سے زیادہ زور کے ساتھ اُٹھایا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں ژور ژساں (George Sand) اس گروہ کی لیڈر تھی۔ اس عورت نے خود ان تمام اخلاقی اصولوں کو توڑا جن پر ہمیشہ سے انسانی شرافت اور خصوصًا عورت کی عزت کا مدار رہا ہے۔ اس نے ایک شوہر کی بیوی ہوتے ہوئے حصنِ نکاح سے باہر آزادانہ تعلقات قائم کیے۔ آخر کار شوہر سے مفارقت ہوئی۔ اس کے بعد یہ دوست پر دوست بدلتی چلی گئی اور کسی کے ساتھ دو برس سے زیادہ نباہ نہ کیا۔ اس کی سوانح حیات میں کم از کم چھے ایسے آدمیوں کے نام ملتے ہیں جن کے ساتھ اس کی علانیہ اور باقاعدہ آشنائی رہی ہے۔ اس کے انھی دوستوں میں سے ایک اس کی تعریف ان الفاظ میں کرتا ہے:
ژور ژساں پہلے ایک پروانے کو پکڑتی ہے اور اسے پھولوں کے پنجرے میں قید کرتی ہے۔ یہ اس کی محبت کا دَور ہوتا ہے۔ پھر وہ اپنی پِن سے اسے چبھونا شروع کرتی ہے اور اس کے پھڑپھڑانے سے لطف اٹھاتی ہے… یہ اس کی سرد مہری کا دَور ہوتا ہے اور دیر یا سویر یہ دور بھی ضرور آتا ہے… پھر وہ اس کے پر نوچ کر اس کا تجزیہ کرکے اسے ان پروانوں کے ذخیرے میں شامل کر لیتی ہے جن سے وہ اپنے ناولوں کے لیے ہیرو کا کام لیا کرتی ہے۔
فرانسیسی شاعر الفرے مسے (Alfred Musse) بھی اس کے عشاق میں سے تھا، اور آخرکار وہ اس کی بے وفائیوں سے اس قدر دل شکستہ ہوا کہ مرتے وقت اس نے وصیت کی کہ ژورژساں اس کے جنازے پر نہ آنے پائے۔ یہ تھا اس عورت کا ذاتی کیریکٹر جو کم و بیش تیس سال تک اپنی شاداب تحریروں سے فرانس کی نوخیز نسلوں پر گہرا اثر ڈالتی رہی۔
اپنے ناول لیلیا (Lelia)میں وہ لیلیا کی طرف سے استینو کو لکھتی ہے:
جس قدر زیادہ مجھے دنیا کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے، مَیں محسوس کرتی جاتی ہوں کہ محبت کے متعلق ہمارے نوجوانوں کے خیالات کتنے غلط ہیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ محبت ایک ہی سے ہونی چاہیے اور اس کے دل پر پورا قبضہ ہونا چاہیے اور وہ ہمیشہ کے لیے ہونی چاہیے۔ بلاشبہ تمام مختلف خیالات کو گوارا کرنا چاہیے۔ مَیں یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہ بعض خاص روحوں کو ازدواجی زندگی میں وفادار رہنے کا حق ہے مگر اکثریت کچھ دوسری ضروریات اور کچھ دوسری قابلیتیں رکھتی ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ طرفین ایک دوسرے کو آزادی دیں، باہمی رواداری سے کام لیں، اور اس خود غرضی کو دل سے نکال دیں جس کی وجہ سے رشک و رقابت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ تمام محبتیں صحیح ہیں، خواہ وہ تیز و تند ہوں یا پُرسکون، شہوانی ہوں یا روحانی، پائدار ہوں یا تغیر پزیر، لوگوں کو خودکشی کی طرف لے جائیں یا لطف و مسرت کی طرف۔
اپنے ایک دوسرے ناول ’’ژاک‘‘ (Jaccuse)میں وہ اس شوہر کا کیریکٹر پیش کرتی ہے جو اس کے نزدیک شوہریت کا بہترین نمونہ ہو سکتا تھا۔ اس کے ہیرو ژاک کی بیوی اپنے آپ کو ایک غیر مرد کی آغوش میں ڈال دیتی ہے۔مگر فراخ دل شوہر اس سے نفرت نہیں کرتا اورنفرت نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کرتا ہے کہ جو پھول میری بجائے کسی اور کو خوش بو دینا چاہتا ہے، مجھے کیا حق ہے کہ اسے پائوں تلے روند ڈالوں۔
آگے چل کر اسی ناول میں وہ ژاک کی زبان سے یہ خیالات ظاہر کراتی ہے:
مَیں نے اپنی رائے نہیں بدلی، مَیں نے سوسائٹی سے صلح نہیں کی، میری رائے میں نکاح تمام اجتماعی طریقوں میں وہ انتہائی وحشیانہ طریقہ ہے جس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آخر کار یہ طریقہ موقوف ہو جائے گا۔ اگر نسلِ انسانی نے انصاف اور عقل کی طرف کوئی واقعی ترقی کی۔ پھر اس کی جگہ ایک دوسرا طریقہ لے گا جو نکاح سے کم مقدس نہ ہو گا مگر اس سے زیادہ انسانی طریقہ ہو گا۔ اس وقت انسانی نسل ایسے مردوں اور عورتوں سے آگے چلے گی جو کبھی ایک دوسرے کی آزادی پر کوئی پابندی عائد نہ کریں گے۔ فی الحال تو مرد اتنے خود غرض اور عورتیں اتنی بزدل ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی موجودہ قانون سے زیادہ شریفانہ قانون کا مطالبہ نہیں کرتا۔ ہاں! جن میں ضمیر اور نیکی کا فقدان ہے۔ انھیں تو بھاری زنجیروں میں جکڑا ہی جانا چاہیے۔
یہ وہ خیالات ہیں جو ۱۸۳۳ء اور اس کے لگ بھگ زمانہ میں ظاہر کیے گئے تھے۔ ژور ژساں صرف اسی حد تک جا سکی۔ اس تخیل کو آخری منطقی نتائج تک پہنچانے کی اسے بھی ہمت نہ ہوئی۔ بایں ہمہ آزاد خیالی، روشن دماغی اور پرانے روایتی اخلاق کی تاریکی پھر بھی کچھ نہ کچھ اس کے دماغ میں موجود تھی۔ اس کے تیس پینتیس سال بعد فرانس میں ڈراما نویسوں، ادیبوں اور اَخلاقی فلسفیوں کا ایک دوسرا لشکر نمودار ہوا جس کے سرخیل الکساندے دوما (Alexander Dumas) اور الفرے ناکے (Alfred Naquet) تھے۔ ان لوگوں نے سارا زور اس خیال کی اشاعت پر صَرف کیا کہ آزادی اور لطفِ زندگی بجائے خود انسان کا پیدائشی حق ہے اور اس حق پر ضوابطِ اخلاق و تمدن کی جکڑ بندیاں لگانا فرد پر سوسائٹی کا ظلم ہے۔ اس سے پہلے فرد کے لیے آزادی عمل کا مطالبہ محبت کے نام پر کیا جاتا تھا۔ بعد والوں کو یہ نری جذباتی بنیاد کم زور محسوس ہوئی۔ لہٰذا انھوں نے انفرادی خودسری، آوارگی اور بے قید آزادی کو عقل، فلسفہ اور حکمت کی مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کی کوشش کی تاکہ نوجوان مرد اور عورتیں جو کچھ بھی کریں قلب و ضمیر کے کامل اطمینان کے ساتھ کریں اور سوسائٹی صرف یہی نہیں کہ ان کی شورشِ شباب کو دیکھ کر دم نہ مار سکے، بلکہ اخلاقًا جائز و مستحسن سمجھے۔
انیسویں صدی کے آخری دور میں پال آدم (Paul Adam) ہنری بتائی (Henry Bataille) پیرلوئی (Pierne Louis) اور بہت سے دوسرے ادیبوں نے اپنا تمام زور نوجوانوں میں جرأتِ رندانہ پیدا کرنے پر صرف کیا تاکہ قدیم اَخلاقی تصورات کے بچے کھچے اثرات سے جو جھجک اور رکاوٹ طبیعتوں میں باقی ہے وہ نکل جائے چنانچہ پول اوان اپنی کتاب (La Morale De Lamour) میں نوجوانوں کو ان کی اس جہالت و حماقت پر دل کھول کر ملامت کرتا ہے کہ وہ جس (لڑکی یا لڑکے) سے محبت کے تعلقات قائم کرتے ہیں اسے جھوٹ موٹ یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس پر مر مٹے ہیں اور اس سے حقیقی عشق رکھتے ہیں اور ہمیشہ اسی کے ہو کر رہیں گے۔ پھر کہتا ہے:
یہ سب باتیں اس لیے کی جاتی ہیں کہ جسمانی لذت کی اس صحیح خواہش کو، جو فطری طور پر ہر آدمی میں ہوتی ہے اور جس میں کوئی بات فی الحقیقت گناہ یا بُرائی کی نہیں ہے پُرانے خیالات کی بِنا پر معیوب سمجھا جاتا ہے، اور اس لیے آدمی خواہ مخواہ جھوٹے الفاظ کے پردے میں اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ لاطینی قوموں کی یہ کم زوری ہے کہ ان میں محبت کرنے والے جوڑے ایک دوسرے پر اس بات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے جھجکتے ہیں کہ ملاقات سے ان کا مقصد محض ایک جسمانی خواہش کو پورا کرنا اور لطف اُٹھانا ہے۔
اور اس کے بعد نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہے:
شائستہ اور معقول انسان بنو، اپنی خواہشات اور لذات کے خادموں{ FR 6794 } کو اپنا معبود نہ بنا لو۔ نادان ہے وہ جو محبت کا مندر تعمیر کرکے اس میں ایک ہی بت کا پجاری بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ لطف کی ہر گھڑی میں ایک نئے مہمان کا انتخاب کرنا چاہیے۔
پیر لوئی نے ان سب سے چار قدم آگے بڑھ کر پورے زور کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا کہ اخلاق کی بندشیں دراصل انسانی ذہن اور دماغی قوتوں کی نشوونما میں حائل ہوتی ہیں، جب تک انھیں بالکل توڑ نہ دیا جائے اور انسان پوری آزادی کے ساتھ جسمانی لذات سے متمتع نہ ہو، کوئی عقلی و علمی اور مادی و روحانی ارتقا ممکن نہیں ہے۔ اپنی کتاب افرودیت (Afrodite)میں وہ نہایت شدو مد کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ بابل، اسکندریہ، ایتھنز، روم، وینس اور تمدن و تہذیب کے تمام دوسرے مرکزوں کی بہار اور عروج و شباب کا زمانہ وہ تھا جب وہاں رندی، آوارگی اور نفس پرستی (licentiousness) پورے زور پر تھی۔ مگر جب وہاں اخلاقی اور قانونی بندشیں انسانی خواہشات پر عائد ہوئیں تو خواہشات کے ساتھ ساتھ آدمی کی روح بھی انھی بندشوں میں جکڑ گئی۔
یہ پیرلوئی وہ شخص ہے جو اپنے عہد میں فرانس کا نام وَر ادیب، صاحبِ طرز انشا پرداز، اور ادب کے ایک مستقل اسکول کا راہ نما تھا، اس کے جلو میں افسانہ نگاروں، ڈرامہ نویسوں اور اخلاقی مسائل پر لکھنے والوں کا ایک لشکر تھا جو اس کے خیالات کو پھیلانے میں لگا ہوا تھا۔ اس نے اپنے قلم کی پوری طاقت عریانی اور مرد و زن کی بے قیدی کو سراہنے میں صرف کر دی۔ اپنی اس کتاب ’’افرودیت‘‘ میں وہ یونان کے اس دور کی حمد و ثنا کرتا ہے:
جب کہ برہنہ انسانیت…… مکمل ترین صورت جس کا ہم تصور کر سکتے ہیں اور جس کے متعلق اہلِ مذہب نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ خدا نے اسے خود اپنی صورت پر پیدا کیا ہے…… ایک مقدس بیسوا کی شکل میں باہزاراں ناز و ادا اپنے آپ کو ۲۰ ہزار زائرین کے سامنے پیش کر سکتی تھی۔ جب کہ کمال درجہ کی شہوانی محبت…… نہ گناہ تھی، نہ شرم کی چیز تھی، نہ گندی اور نجس تھی۔
حد یہ ہے کہ تمام شاعرانہ پردوں کو ہٹا کر اس نے صاف الفاظ میں یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں :
نہایت پُرزور اَخلاقی تعلیم کے ذریعہ سے اس مکروہ خیال کا استیصال کر دینا چاہیے کہ عورت کا ماں ہونا کسی حال میں شرم ناک ناجائز ذلیل اور پایہ شرف و عزت سے گرا ہوا بھی ہوتا ہے۔
۳۔بیسویں صدی کی ترقیات
انیسویں صدی میں خیالات کی ترقی یہاں تک پہنچ چکی تھی۔ بیسویںصدی کے آغاز میں نئے شاہ باز فضا میں نمودار ہوتے ہیں جو اپنے پیش روئوں سے بھی اونچا اڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ۱۹۰۸ء میں پیرو ولف (Pierre Wolff) اور گیستان لیرو (Gaston Lerouk) کا ایک ڈراما (Lelys) جس میں دو لڑکیاں اپنے جوان بھائی کے سامنے اپنے باپ سے اس مسئلے پر بحث کرتی نظر آتی ہیں کہ انھیں آزادانہ محبت کرنے کا حق ہے اور یہ کہ دل لگی کے بغیر زندگی گزارنا ایک نوجوان لڑکی کے لیے کس قدر الم ناک ہوتا ہے۔ ایک صاحب زادی کو بوڑھا باپ اس بات پر ملامت کرتا ہے کہ وہ ایک نوجوان سے ناجائز تعلقات رکھتی ہے۔ اس کے جواب میں صاحب زادی فرماتی ہیں:
مَیں تمھیں کیسے سمجھائوں، تم نے کبھی یہ سمجھا ہی نہیں کہ کسی شخص کو کسی لڑکی سے، خواہ وہ اس کی بہن ہو یا بیٹی ہی کیوں نہ ہو، یہ مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے کہ وہ محبت کیے بغیر بوڑھی ہوجائے۔
جنگِ عظیم نے اس آزادی کی تحریک کو اور زیادہ بڑھایا، بلکہ انتہائی مراتب تک پہنچا دیا۔ مانع حمل کی تحریک کا اثر سب سے زیادہ فرانس پر ہوا تھا۔ مسلسل چالیس سال سے فرانس کی شرح پیدائش گر رہی تھی۔ فرانس کے ستاسی (۸۷) اضلاع میں سے صرف بیس (۲۰) اضلاع ایسے تھے جن میں شرح پیدائش شرح اموات سے زیادہ تھی۔ باقی ۶۷ اضلاع میں اموات کی شرح ، پیدائش کی شرح سے بڑھی ہوئی تھی۔ بعض اقطاعِ ملک کا تو یہ حال تھا کہ وہاں ہر سو بچوں کی پیدائش کے مقابلہ میں ۱۳۰۔۱۴۰ اور ۱۶۰ تک اموات کی تعداد کا اوسط تھا۔ جنگ چھڑی تو عین اس وقت جب کہ فرانسیسی قوم کی موت اور زندگی کا مسئلہ درپیش تھا، فرانس کے مدبروں کو معلوم ہوا کہ قوم کی گود میں لڑنے کے قابل نوجوان بہت ہی کم ہیں۔ اگر اس وقت ان قلیل التعداد جوانوں کو بھینٹ چڑھا کر قومی زندگی کو محفوظ کر بھی لیا گیا تو دشمن کے دوسرے حملہ میں بچ جانا محال ہو گا۔ اس احساس نے یکایک تمام فرانس میں شرح پیدائش بڑھانے کا جنون پیدا کر دیا اور ہر طرف سے مصنفوں نے، اخبار نویسوں نے، خطیبوں نے اور حد یہ ہے کہ سنجیدہ علما اور اہلِ سیاست تک نے ہم زبان ہو کر پکارنا شروع کیا کہ بچے جنو اور جنائو، نکاح کے رسمی قیود کی کچھ پروا نہ کرو، ہر وہ کنواری لڑکی اور بیوہ، جو وطن کے لیے اپنے رحم کو رضاکارانہ پیش کرتی ہے، ملامت کی نہیں، عزت کی مستحق ہے۔ اس زمانہ میں آزادی پسند حضرات کو قدرتی شہ مل گئی، اس لیے انھوں نے وقت کو سازگار دیکھ کر وہ سارے ہی نظریات پھیلا دیے جو شیطان کی زنبیل میں بچے کھچے رہ گئے تھے۔
اس زمانہ کا ایک ممتاز جریدہ نگار جو ’’لالیون ری پبلکن‘‘ (La Lvon Republican) کا ایڈیٹر تھا، اس سوال پر بحث کرتے ہوئے کہ ’’زنا بالجبر آخر کیوں جرم ہے؟‘‘ یوں اظہارِ خیال کرتا ہے:
غریب لوگ جب بھوک سے مجبور ہو کر چوری اور لوٹ مار کرنے پر اتر آتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ انھیں روٹی مہیا کرو، لوٹ مار آپ سے آپ بند ہو جائے گی۔ مگر عجیب بات ہے کہ ہم دردی اور مواسات کا جو جذبہ جسم کی ایک طبعی ضرورت کے مقابلہ میں ابھر آتا ہے۔ وہ دوسری ویسی ہی طبعی اور اتنی ہی اہم ضرورت، یعنی محبت کے لیے کیوں وسیع نہیں ہوتا۔ جس طرح چوری عمومًا بھوک کی شدت کا نتیجہ ہوتی ہے اسی طرح وہ چیز جس کا نتیجہ زنا بالجبر، اور بسا اوقات قتل ہے، اس ضرورت کے شدید تقاضے سے واقع ہوتی ہے جو بھوک اور پیاس سے کچھ کم طبعی نہیں ہے… ایک تن دُرُست آدمی، جو توانا اور جوان ہو، اپنی شہوت کو نہیں روک سکتا، جس طرح وہ اپنی بھوک کو اس وعدے پر ملتوی نہیں کر سکتا کہ آیندہ ہفتہ روٹی مل جائے گی۔ ہمارے شہروں میں، جہاں سب کچھ بافراط موجود ہے، ایک جوان آدمی کی شہوانی فاقہ کشی بھی اتنی ہی افسوس ناک ہے جتنی کہ مفلس آدمی کی شکمی فاقہ کشی۔ جس طرح بھوکوں کو روٹی مفت تقسیم کی جاتی ہے اسی طرح دوسری قسم کی بھوک سے جو لوگ مر رہے ہیں ان کے لیے بھی ہمیں کوئی انتظام کرنا چاہیے۔
بس اتنا اور سمجھ لیجیے کہ یہ کوئی مزاحیہ مضمون نہ تھا۔ پوری سنجیدگی کے ساتھ لکھا گیا اور سنجیدگی ہی کے ساتھ فرانس میں پڑھا بھی گیا۔
اسی دور میں پیرس کی فیکلٹی آف میڈیسن نے ایک فاضل ڈاکٹر کا مقالہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کرنے کے لیے پسند کیا اور اپنے سرکاری جریدہ میں اسے شائع کیا جس میں ذیل کے چند فقرے بھی پائے جاتے ہیں:
ہمیں توقع ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہم بغیر جھوٹی تعلّی اور بغیر کسی شرم و حیا کے یہ کہہ دیا کریں گے کہ مجھے بیس سال کی عمر میں آتشک ہوئی تھی جس طرح اب بے تکلف کہہ دیتے ہیں کہ مجھے خون تھوکنے کی وجہ سے پہاڑ پر بھیج دیا گیا… …یہ امراض تو لطفِ زندگی کی قیمت ہیں۔ جس نے اپنی جوانی اس طرح بسر کی کہ ان میں سے کوئی مرض لگنے کی بھی نوبت نہ آئی وہ ایک غیر مکمل وجود ہے۔ اس نے بزدلی یا سرد مزاجی یا مذہبی غلط فہمی کی بِنا پر اس طبعی وظیفہ کی انجام دہی سے غفلت برتی جو اس کے فطری وظائف میں شاید سب سے ادنیٰ] Primary [ وظیفہ تھا۔
۴۔ نومالتھوسی تحریک کا لٹریچر
آگے بڑھنے سے پہلے ایک نظر ان خیالات پر بھی ڈال لیجیے جو مانع حمل کی تحریک کے سلسلے میں پیش کیے گئے ہیں۔ اٹھارہویں صدی کے آخر میں جب انگریز ماہر معاشیات (Malthus) نے آبادی کی روز افزوں ترقی کو روکنے کے لیے ضبطِ ولادت کی تجویز پیش کی تھی اس وقت اس کے تو خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ آئی ہو گی کہ اس کی یہی تجویز ایک صدی بعد زنا اور فواحش کی اشاعت میں سب سے بڑھ کر مددگار ثابت ہو گی۔ اس نے تو آبادی کی افزائش کو روکنے کے لیے ضبطِ نفس اور بڑی عمر میں نکاح کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر انیسویں صدی کے آخر میں جب نومالتھوسی تحریک (Neo- Malthusian Movement) اٹھی تو اس کا بنیادی اصول یہ تھا کہ نفس کی خواہش کو آزادی کے ساتھ پورا کیا جائے اور اس کے فطری نتیجہ، یعنی اولاد کی پیدائش کو سائینٹفک ذرائع سے روک دیا جائے۔ اس چیز نے بدکاری کے راستہ سے وہ آخری رکاوٹ بھی دور کر دی جو آزاد صنفی تعلقات رکھنے میں مانع ہو سکتی تھی، کیوں کہ اب ایک عورت بلا اس خوف کے اپنے آپ کو ایک مرد کے حوالے کر سکتی ہے کہ اس سے اولاد ہو گی اور اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ آن پڑے گا۔ اس کے نتائج بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے۔ یہاں ہم ان خیالات کے چند نمونے پیش کرنا چاہتے ہیں جو برتھ کنٹرول کے لٹریچر میں کثرت سے پھیلائے گئے ہیں۔
اس لٹریچر میں نومالتھوسی مقدمہ عمومًا جس طرزِ استدلال کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:
ہر انسان کو فطری طور پر سب سے زیادہ قاہر اور پرزور تین حاجتوں سے سابقہ پڑتا ہے۔ ایک غذا کی حاجت، دوسرے آرام کی حاجت اور تیسری شہوت۔ فطرت نے ان تینوں کو پوری قوت کے ساتھ انسان میں ودیعت کر دیا ہے اور ان کی تسکین میں خاص لذت رکھی ہے تاکہ انسان ان کی تسکین کا خواہش مند ہو۔ عقل اور منطق کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی انھیں پورا کرنے کی طرف لپکے اور پہلی دو چیزوں کے معاملہ میں اس کا طرزِ عمل بھی یہی ہے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ تیسری چیز کے معاملہ میں اس کا طرزِ عمل مختلف ہے۔ اجتماعی اَخلاق نے اس پر پابندی لگا دی ہے کہ صنفی خواہش کو حدودِ نکاح سے باہر پورا نہ کیا جائے۔ اور حدودِ نکاح میں زن و شو کے لیے وفاداری، اورعصمت مابی فرض کر دی گئی ہے اور اس پر مزید یہ شرط بھی لگا دی گئی ہے کہ اولاد کی پیدائش کو نہ روکا جائے۔ یہ سب باتیں سراسر لغو ہیں۔ عقل اور فطرت کے خلا ف ہیں، عین اپنے اصول میں غلط ہیں اور انسانیت کے لیے بدترین نتائج پیدا کرنے والی ہیں۔
ان مقدمات میں جن خیالات کی عمارت تعمیر ہوئی ہے اب ذرا وہ بھی ملاحظہ ہوں۔ جرمن سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کا لیڈر بیبل (Bebel) نہایت بے تکلّفانہ انداز میں لکھتا ہے:
عورت اور مرد آخر حیوان ہی تو ہیں۔ کیا حیوانات کے جوڑوں میں نکاح اور وہ بھی دائمی نکاح کا کوئی سوال پیدا ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ڈریسڈیل (Drysdale) لکھتا ہے:
ہماری تمام خواہشات کی طرح محبت بھی ایک تغیر پزیر چیز ہے اسے ایک طریقہ کے ساتھ مخصوص کر دینا قوانینِ فطرت میں ترمیم کرنا ہے۔ نوجوان خصوصیت کے ساتھ اس تغیر کی طرف رغبت رکھتے ہیں، اور ان کی یہ رغبت فطرت کے اس عظیم الشان منطقی نظام کے مطابق ہے جس کا تقاضا یہی ہے کہ ہمارے تجربات متنوع ہوں… آزاد تعلق ایک برتر اَخلاق کا مظہر ہے اس لیے کہ وہ قوانین فطرت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے، اور اس لیے بھی کہ وہ براہِ راست جذبات، احساس اور بے غرض محبت سے ظہور میں آتا ہے۔ جس میلان و رغبت سے یہ تعلق واقع ہوتا ہے وہ بڑی اَخلاقی قدر و قیمت رکھتا ہے۔ یہ بات بھلا اس تجارتی کاروبار کو کہاں نصیب ہو سکتی ہے جو نکاح کو درحقیقت پیشہ (prostitution) بنا دیتا ہے۔
دیکھیے اب نظریہ بدل رہا ہے، بلکہ الٹ رہا ہے۔ پہلے تو یہ کوشش تھی کہ زنا کو اخلاقًا معیوب سمجھنے کا خیال دلوںسے نکل جائے، اور نکاح و سفاح دونوں مساوی الدرجہ ہو جائیں۔ اب آگے قدم بڑھا کر نکاح کو معیوب اور سفاح کو اَخلاقی برتری کا مرتبہ دلوایا جا رہا ہے۔
ایک اور موقع پر یہی ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
ایسی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ شادی کے بغیر بھی محبت کو ایک معزز چیز بنا دیا جائے… یہ خوشی کی بات ہے کہ طلاق کی آسانی اس نکاح کے طریقہ کو آہستہ آہستہ ختم کر رہی ہے، کیوں کہ اب نکاح بس دو اشخاص کے درمیان مل کر زندگی بسر کرنے کا ایک ایسا معاہدہ ہے جسے فریقین جب چاہیں ختم کر سکتے ہیں۔ صنفی ارتباط کا یہی ایک صحیح طریقہ ہے۔
فرانس کا مشہور نومالتھوسی لیڈر پول روبین (Paul Robin) لکھتا ہے:
پچھلے ۲۵سال میں ہمیں اتنی کام یابی تو ہو چکی ہے کہ حرامی بچہ کو قریب قریب حلالی بچہ کا ہم مرتبہ کر دیا گیا ہے۔ اب صرف اتنی کسر باقی ہے کہ صرف پہلی ہی قسم کے بچے پیدا ہوا کریں تاکہ تقابل کا سوال ہی باقی نہ رہے۔
انگلستان کا مشہور فلسفی مل اپنی کتاب ’’آزادی‘‘ (On Liberty) میں اس بات پر بڑا زور دیتا ہے کہ ایسے لوگوں کو شادی کرنے سے قانونًا روک دیا جائے جو اس بات کا ثبوت نہ دے سکیں کہ وہ زندگی بھر کے لیے کافی ذرائع رکھتے ہیں لیکن جس وقت انگلستان میں قحبہ گری (prostitution) کی روک تھام کا سوال اُٹھا تو اسی فاضل فلسفی نے بڑی سختی سے اس کی مخالفت کی۔ دلیل یہ تھی کہ یہ شخصی آزادی پر حملہ ہے اور ورکرز کی توہین ہے۔ کیوں کہ یہ تو ان کے ساتھ بچوں کا سا سلوک کرنا ہوا!
غور کیجیے، شخصی آزادی کا احترام اس لیے ہے کہ اس سے فائدہ اٹھا کر زنا کیا جائے۔ لیکن اگر کوئی احمق اسی شخصی آزادی سے فائدہ اٹھا کر نکاح کرنا چاہے تو وہ ہرگز اس کا مستحق نہیں ہے کہ اس کی آزادی کا تحفظ کیا جائے۔ اس کی آزادی میں قانون کی مداخلت نہ صرف گوارا کی جائے بلکہ آزادی پسندفلسفی کا ضمیر اسے عین مطلوب قرار دے گا! یہاں اخلاقی نظریہ کا انقلاب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ جو عیب تھا وہ صواب ہو گیا۔ جو صواب تھا وہ عیب ہو گیا۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں