اِفراط و تفریط کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے والی دنیا کو اگر عدل کا راستہ دکھانے والا کوئی ہو سکتا تھا تو وہ صرف مسلمان تھا جس کے پاس اجتماعی زندگی کی ساری گتھیوں کے صحیح حل موجود ہیں مگر دنیا کی بد نصیبی کا یہ بھی ایک عجیب دردناک پہلو ہے کہ اس اندھیرے میں جس کے پاس چراغ تھا وہی کم بخت رتوند کے مرض میں مبتلا ہو گیا، دوسروں کوراستہ دکھانا تو درکنار خود اندھوں کی طرح بھٹک رہا ہے اور ایک ایک بھٹکنے والے کے پیچھے دوڑتا پھرتا ہے۔
’’پردے‘‘ کا لفظ جن احکام کے مجموعہ پر بطورِ عنوان استعمال کیا جاتا ہے وہ دراصل اسلامی ضابطہ معاشرت کے نہایت اہم اجزا پر مشتمل ہیں۔ اس پورے ضابطے کے سانچے میں ان احکام کو ان کے صحیح مقام پر رکھ کر دیکھا جائے تو کوئی ایسا شخص جس میں بقدرِ رمق بھی فطری بصیرت باقی ہو، یہ اعتراف کیے بغیر نہ رہے گا کہ معاشرت میں اس کے سوا اعتدال و توسط کی کوئی دوسری صورت نہیں ہو سکتی اور اگر اس ضابطہ کو ا س کی اصل روح کے ساتھ عملی زندگی میں برت کر دکھا دیا جائے تو اس پر اعتراض کرنا تو درکنار، مصائب کی ماری ہوئی دنیا سلامتی کے اس سرچشمہ کی طرف خود دوڑی چلی آئے گی اور اس سے اپنے امراضِ معاشرت کی دوا حاصل کرے گی مگر یہ کام کرے کون؟ جو اسے کر سکتا تھا وہ خود ایک مدت سے بیمار پڑا ہے۔ آئیے، آگے بڑھنے سے پہلے ایک نظر اس کے مرض کا بھی جائزہ لے لیں۔
۱۔ تاریخی پس منظر
اٹھارہویں صدی کا آخری اور انیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ جب مغربی قوموں کی ملک گیری کا سیلاب ایک طوفان کی طرح اسلامی ممالک پر امنڈ آیا اور مسلمان ابھی نیم خفتہ و نیم بیدار ہی تھے کہ دیکھتے دیکھتے یہ طوفان مشرق سے لے کر مغرب تک تمام دنیائے اسلام پرچھا گیا۔ انیسویں صدی کے نصف آخر تک پہنچتے پہنچتے بیش تر مسلمان قومیں یورپ کی غلام ہوچکی تھیں اور جو غلام نہ ہوئی تھیں وہ بھی مغلوب و مرعوب ضرور ہو گئی تھیں۔ جب اس انقلاب کی تکمیل ہو چکی تو مسلمانوں کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں۔ وہ قومی غرور جو صدہا برس تک جہاں بانی و کشور کشائی کے میدان میں سربلند رہنے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا، دفعۃً خاک میں مل گیا، اور اس شرابی کی طرح جس کا نشہ کسی طاقت وَر دشمن کی پیہم ضربات نے اتار دیا ہو، انھوں نے اپنی شکست اور فرنگیوں کی فتح کے اسباب پر غور کرنا شروع کیا۔ لیکن ابھی دماغ درست نہیں ہوا تھا۔ نشہ اتر گیا تھا، مگر توازن ابھی تک بگڑا ہوا تھا۔ ایک طرف ذلت کا شدید احساس تھا جو اس حالت کو بدل دینے پراصرار کر رہا تھا۔ دوسری طرف صدیوں کی آرام طلبی اور سہولت پسندی تھی جو تبدیل حال کا سب سے آسان اور سب سے قریب کا راستہ ڈھونڈنا چاہتی تھی۔ تیسری طرف سمجھ بوجھ اور غور و فکر کی زنگ خوردہ قوتیں تھیں جن سے کام لینے کی عادت سال ہا سال سے چھوٹی ہوئی تھی۔ ان سب پرمزید وہ مرعوبیت اور دہشت زدگی تھی جو ہر شکست خوردہ غلام قوم میں فطرتًا پیدا ہو جاتی ہے۔ ان مختلف اسباب نے مل جل کر اصلاح پسند مسلمانوں کو بہت سی عقلی اور عملی گم راہیوں میں مبتلا کر دیا۔ ان میں سے اکثر تو اپنی پستی اور یورپ کی ترقی کے حقیقی اسباب سمجھ ہی نہ سکے اور جنھوں نے انھیں سمجھا، ان میں بھی اتنی ہمت، جفاکشی اور مجاہدانہ اسپرٹ نہ تھی کہ ترقی کے دشوار گزار راستوں کو اختیار کرتے۔ مرعوبیت اس پرمستزاد تھی جس میں دونوں گروہ برابر کے شریک تھے۔ اس بگڑی ہوئی ذہنیت کے ساتھ ترقی کا سہل ترین راستہ جو انھیں نظر آیا وہ یہ تھا کہ مغربی تہذیب و تمدن کے مظاہر کا عکس اپنی زندگی میں اُتار لیں اور اس آئینہ کی طرح بن جائیں جس کے اندر باغ و بہار کے مناظر تو سب کے سب موجود ہوں گے مگر درحقیقت نہ باغ ہو نہ بہار۔
۲۔ ذہنی غلامی
یہی بحرانی کیفیت کا زمانہ تھا جس میں مغربی لباس، مغربی معاشرت، مغربی آداب و اطوار حتّٰی کہ چال ڈھال اور بول چال تک میں مغربی طریقوں کی نقل اُتاری گئی۔ مسلم سوسائٹی کو مغربی سانچوں میں ڈھالنے کی کوششیں کی گئیں۔ الحاد، دہریت اورمادّہ پرستی کو فیشن کے طور پر بغیر سمجھے بوجھے قبول کیا گیا۔ ہر وہ پختہ یا خام تخیل جو مغرب سے آیا، اس پر ایمان بالغیب لانا اور اپنی مجلسوں میں اسے معرض بحث بنانا روشن خیالی کا لازمہ سمجھا گیا۔ شراب، جوا، لاٹری، ریس، تھیٹر، رقص و سرود اور مغربی تہذیب کے دوسرے ثمرات کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ شائستگی، اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست، قانون، حتّٰی کہ مذہبی عقائد اور عبادات کے متعلق بھی جتنے مغربی نظریات یا عملیات تھے انھیں کسی تنقید اور کسی فہم و تدبر کے بغیر اس طرح تسلیم کر لیا گیا کہ گویا وہ آسمان سے اُتری ہوئی وحی ہیں جس پر سمعنا واطعنا کہنے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔ اسلامی تاریخ کے واقعات، اسلامی شریعت کے احکام اور قرآن و حدیث کے بیانات میں سے جس جس چیز کو اسلام کے پُرانے دشمنوں نے نفرت یا اعتراض کی نگاہ سے دیکھا اس پر مسلمانوں کو بھی شرم آنے لگی اور انھوں نے کوشش کی کہ اس داغ کو کسی طرح دھو ڈالیں۔ انھوں نے جہاد پر اعتراض کیا۔ انھوں نے عرض کیا کہ حضور بھلا ہم کہاں اور جہاد کہاں؟ انھوں نے غلامی پر اعتراض کیا۔ انھوں نے عرض کیا کہ غلامی تو ہمارے ہاں بالکل ہی ناجائز ہے۔ انھوں نے تعدد ازدواج پر اعتراض کیا۔ انھوں نے فورًا قرآن کی ایک آیت پر خطِ نسخ پھیر ڈالا۔ انھوں نے کہا کہ عورت اور مرد میں کامل مساوات ہونی چاہیے، انھوں نے عرض کیا کہ یہی ہمارا مذہب بھی ہے۔ انھوں نے قوانین نکاح و طلاق پر اعتراضات کیے۔ یہ ان سب میں ترمیم کرنے پر تل گئے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام آرٹ کا دشمن ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام تو ہمیشہ سے ناچ گانے اور مصوری و بت تراشی کی سرپرستی کرتا رہا ہے۔
۳۔ مسئلۂ حجاب کی ابتدا
مسلمانوں کی تاریخ کا یہ دور سب سے زیادہ شرم ناک ہے، اور یہی دَور ہے جس میں پردے کے سوال پر بحث چھڑی۔ اگر سوال محض اس قدر ہوتا کہ اسلام میں عورت کے لیے آزادی کی کیا حد مقرر کی گئی ہے تو جواب کچھ بھی مشکل نہ ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ جواختلاف اس باب میں پایا جاتا ہے وہ محض اس حد تک ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کو کھولنا جائز ہے یا نہیں؟ اور یہ کوئی اہم اختلاف نہیں ہے لیکن دراصل یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ مسلمانوں میں یہ مسئلہ اس لیے پیدا ہوا کہ یورپ نے ’’حرم‘‘ اور پردہ و نقاب کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھا، اپنے لٹریچر میں اس کی نہایت گھنائونی اور مضحکہ انگیز تصویریں کھینچیں، اسلام کے عیوب کی فہرست میںعورتوں کی ’’قید‘‘ کو نمایاں جگہ دی۔ اب کیوں کر ممکن تھا کہ مسلمانوں کو حسبِ دستور اس چیز پر بھی شرم نہ آنے لگتی۔ انھوں نے جو کچھ جہاد، غلامی اور تعددِ ازدواج اور ایسے ہی دوسرے مسائل میں کیا تھا وہی اس مسئلہ میں بھی کیا۔ قرآن، حدیث اور اجتہاداتِ ائمہ کی ورق گردانی محض اس غرض سے کی گئی کہ وہاں اس ’’بدنما داغ‘‘ کو دھونے کے لیے کچھ سامان ملتا ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ بعض ائمہ نے ہاتھ اور منہ کھولنے کی اجازت دی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت اپنی ضروریات کے لیے گھر سے باہر بھی نکل سکتی ہے۔ یہ بھی پتا چلا کہ عورت میدانِ جنگ میں سپاہیوں کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے کے لیے بھی جا سکتی ہے۔ مسجدوں میں نماز کے لیے جانے، علم سیکھنے اوردرس دینے کی بھی گنجائش پائی گئی۔ بس اتنا مواد کافی تھا۔ دعوٰی کر دیا گیا کہ اسلام نے عورت کو پوری آزادی عطا کی ہے۔ پردہ محض ایک جاہلانہ رسم ہے جسے تنگ نظر اور تاریک خیال مسلمانوں نے قرونِ اولیٰ کے بہت بعد اختیار کیا ہے۔ قرآن اور حدیث پردہ کے احکام سے خالی ہیں، ان میں تو صرف شرم و حیا کی اَخلاقی تعلیم دی گئی ہے، کوئی ایسا ضابطہ نہیں بنایا گیا جو عورت کی نقل و حرکت پر کوئی قید عائد کرتا ہو۔
۴۔ اصلی محرکات
انسان کی یہ فطری کم زوری ہے کہ اپنی زندگی کے معاملات میں جب وہ کوئی مسلک اختیار کرتا ہے تو عمومًا اس کے انتخاب کی ابتدا ایک جذباتی غیر عقلی رجحان سے ہوتی ہے اور اس کے بعد وہ اپنے اس رجحان کو معقول ثابت کرنے کے لیے عقل و استدلال سے مدد لیتا ہے۔ پردے کی بحث میں بھی ایسی ہی صورت پیش آئی۔ اس کی ابتدا کسی عقلی یا شرعی ضرورت کے احساس سے نہیں ہوئی بلکہ دراصل اس رجحان سے ہوئی جو ایک غالب قوم کے خوش نما تمدن سے متاثر ہونے اور اسلامی تمدن کے خلاف اس قوم کے پروپیگنڈا سے مرعوب ہو جانے کا نتیجہ تھا۔
ہمارے اصلاح طلب حضرات نے جب دہشت سے پھٹی ہوئی آنکھوں کے ساتھ فرنگی عورتوں کی زینت و آرائش اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت، اور فرنگی معاشرت میں ان کی سرگرمیوں کو دیکھا تو اضطراری طور پر ان کے دلوں میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش! ہماری عورتیں بھی اس روش پر چلیں تاکہ ہمارا تمدن بھی فرنگی تمدن کا ہم سر ہو جائے۔ پھر وہ آزادیٔ نسواں، اور تعلیمِ اناث، اور مساواتِ مرد و زن کے ان جدید نظریات سے بھی متاثر ہوئے جو طاقت وَر استدلالی زبان اور شان دار طباعت کے ساتھ بارش کی طرح مسلسل ان پر برس رہے تھے۔ اس لٹریچر کی زبردست طاقت نے ان کی قوتِ تنقید کو ماؤف کر دیا اور ان کے وجدان میں یہ بات اُتر گئی کہ ان نظریات پر ایمان بالغیب لانا اور تحریر و تقریر میں ان کی وکالت کرنا اور (بقدرِ جرات و ہمت) عملی زندگی میں بھی انھیں رائج کر دینا ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو ’’روشن خیال‘‘ کہلانا پسند کرتا ہو اور ’’دقیانوسیت‘‘ کے بدترین الزام سے بچنا چاہتا ہو۔ نقاب کے ساتھ سادہ لباس میں چھپی ہوئی عورتوں پر جب ’’متحرک خیمے اور کفن پوش جنازہ‘‘ کی پھبتیاں کسی جاتی تھیں تو یہ بے چارے شرم کے مارے زمین میں گڑ گڑ جاتے تھے۔ آخر کہاں تک ضبط کرتے؟ مجبور ہوکر یا مسحور ہو کر، بہرحال اس شرم کے دھبے کو دھونے پر آمادہ ہو ہی گئے۔
انیسویں صدی کے آخری زمانے میں آزادیٔ نسواں کی جو تحریک مسلمانوں میں پیدا ہوئی اس کے اصلی محرک یہی جذبات و رجحانات تھے۔ بعض لوگوں کے شعورِ خفی میں یہ جذبات چھپے ہوئے تھے اور انھیں خود بھی معلوم نہ تھا کہ دراصل کیا چیز انھیں اس تحریک کی طرف لے جا رہی ہے۔ یہ لوگ خود اپنے نفس کے دھوکے میں مبتلا تھے۔ اور بعض کو خود اپنے ان جذبات کا بخوبی احساس تھا، مگر انھیں اپنے اصلی جذبات کو ظاہر کرتے شرم آتی تھی۔ یہ خود تو دھوکے میں نہ تھے لیکن انھوں نے دنیا کو دھوکے میں ڈالنے کی کوشش کی۔ بہرحال دونوں گروہوں نے کام ایک ہی کیا اور وہ یہ تھا کہ اپنی تحریک کے اصل محرکات کو چھپا کر ایک جذباتی تحریک کی بجائے ایک عقلی تحریک بنانے کی کوشش کی۔ عورتوں کی صحت، ان کے عقلی و عملی ارتقا، ان کے فطری اور پیدائشی حقوق، ان کے معاشی استقلال، مردوں کے ظلم و استبداد سے ان کی رہائی، اور قوم کا نصف حصہ ہونے کی حیثیت سے ان کی ترقی پر پورے تمدن کی ترقی کا انحصار، اور ایسے ہی دوسرے حیلے جو براہِ راست یورپ سے برآمد ہوئے تھے، اس تحریک کی تائید میں پیش کیے گئے، تاکہ عام مسلمان دھوکے میں مبتلا ہو جائیں اور ان پر یہ حقیقت نہ کھل سکے کہ اس تحریک کا اصل مقصد مسلمان عورت کو اس روش پر چلانا ہے جس پر یورپ کی عورت چل رہی ہے اور نظامِ معاشرت میں ان طریقوں کی پیروی کرنا ہے جو اس وقت فرنگی قوموں میں رائج ہیں۔
۵۔ سب سے بڑا فریب
سب سے زیادہ شدید اور قبیح فریب جو اس سلسلہ میں دیا گیا وہ یہ ہے کہ قرآن اور حدیث سے استدلال کرکے اس تحریک کو اسلام کے موافق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، حالانکہ اسلام اور مغربی تہذیب کے مقاصد اور تنظیم معاشرت کے اصولوں میں زمین و آسمان کا بُعد ہے۔ اسلام کا اصل مقصد جیسا کہ ہم آگے چل کر بتائیں گے، انسان کی شہوانی قوت (sex energy) کو اخلاقی ڈسپلن میں لا کر اس طرح منضبط کرنا ہے کہ وہ آوارگی عمل اور ہیجانی جذبات میں ضائع ہونے کی بجائے ایک پاکیزہ اور صالح تمدن کی تعمیر میں صرف ہو۔ برعکس اس کے مغربی تمدن کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کے معاملات اور ذمہ داریوں میں عورت اور مرد کو یکساں شریک کرکے مادی ترقی کی رفتار تیز کر دی جائے، اور اس کے ساتھ شہوانی جذبات کو ایسے فنون اور مشاغل میں استعمال کیا جائے جو کش مکش حیات کی تلخیوں کو لطف اور لذت میں تبدیل کر دیں۔ مقاصد کے اس اختلاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تنظیم معاشرت کے طریقوں میں بھی اسلام اور مغربی تمدن کے درمیان اصولی اختلاف ہو۔ اسلام اپنے مقصد کے لحاظ سے معاشرت کا ایسا نظام وضع کرتا ہے جس میں عورت اور مرد کے دوائر عمل بڑی حد تک الگ کر دیے گئے ہیں، دونوں صنفوں کے آزادانہ اختلاط کو روکا گیا ہے اور ان تمام اسباب کا قلع قمع کیا گیا ہے جو اس نظم و ضبط میں برہمی پیدا کرتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مغربی تمدن کے پیشِ نظر جو مقصد ہے اس کا طبعی اقتضا یہ ہے کہ دونوں صنفوں کو زندگی کے ایک ہی میدان میں کھینچ لایا جائے، اور ان کے درمیان وہ تمام حجابات اٹھا دیے جائیں جو ان کے آزادانہ اختلاط اور معاملات میں مانع ہوں، اور انھیں ایک دوسرے کے حسن اور صنفی کمالات سے لطف اندوز ہونے کے غیر محدود مواقع بہم پہنچائے جائیں۔
اب ہر صاحبِ عقل انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ جو لوگ ایک طرف مغربی تمدن کی پیروی کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف اسلامی نظمِ معاشرت کے قوانین کو اپنے لیے حجت بناتے ہیں وہ کس قدر سخت فریب میں خود مبتلا ہیں یا دوسروں کو مبتلا کر رہے ہیں۔ اسلامی نظم معاشرت میں تو عورت کے لیے آزادی کی آخری حد یہ ہے کہ حسبِ ضرورت ہاتھ اور منہ کھول سکے اور اپنی حاجات کے لیے گھر سے باہرنکل سکے۔ مگر یہ لوگ آخری حد تک کو اپنے سفر کا نقطہ آغاز بناتے ہیں۔ جہاں پہنچ کر اسلام رُک جاتا ہے وہاں سے یہ چلنا شروع کرتے ہیں اور یہاں تک بڑھ جاتے ہیں کہ حیا اور شرم بالائے طاق رکھ دی جاتی ہے۔ ہاتھ اور منہ ہی نہیں بلکہ خوب صورت مانگ نکلے ہوئے سر اور شانوں تک کھلی ہوئی بانہیں اور نیم عریاں سینے بھی نگاہوں کے سامنے پیش کر دیے جاتے ہیں، اور جسم کے باقی ماندہ محاسن کو بھی ایسے باریک کپڑوں میں ملفوف کیا جاتا ہے کہ وہ چیز ان میں سے نظر آ سکے جو مردوں کی شہوانی پیاس کو تسکین دے سکتی ہو۔ پھر ان لباسوں اور آرائشوں کے ساتھ محرموں کے سامنے نہیں بلکہ دوستوں کی محفلوں میں بیویوں، بہنوں، اور بیٹیوں کو لایا جاتا ہے اور انھیں غیروں کے ساتھ ہنسنے، بولنے اور کھیلنے میں وہ آزادی بخشی جاتی ہے جو مسلمان عورت اپنے سگے بھائی کے ساتھ بھی نہیں برت سکتی۔ گھر سے نکلنے کی جو اجازت محض ضرورت کی قید اور کامل سترپوشی و حیاداری کی شرط کے ساتھ دی گئی تھی، اسے جاذبِ نظر ساڑیوں، نیم عریاں بلائوزروں اور بے باک نگاہوں کے ساتھ سڑکوں پر پھرنے، پارکوں میں ٹہلنے، ہوٹلوں کے چکر لگانے اور سینمائوں کی سیر کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عورتوں کو خانہ داری کے ماسوا دوسرے اُمور میں حصہ لینے کی جومقید اور مشروط آزادی اسلام میں دی گئی تھی اسے حجت بنایا جاتا ہے اس غرض کے لیے کہ مسلمان عورتیں بھی فرنگی عورتوں کی طرح گھر کی زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کو طلاق دے کر سیاسی و معاشی اور عمرانی سرگرمیوں میں ماری ماری پھریں اور عمل کے ہر میدان میں مردوں کے ساتھ دوڑ دھوپ کریں۔
ہندوستان میں تو معاملہ یہیں تک ہے۔ مصر، ترکی اور ایران میں سیاسی آزادی رکھنے والے ذہنی غلام اس سے بھی دس قدم آگے نکل گئے ہیں۔ وہاں ’’مسلمان‘‘ عورتیں ٹھیک وہی لباس پہننے لگی ہیں جو یورپین عورت پہنتی ہے تاکہ اصل اور نقل میں کوئی فرق ہی نہ رہے اور اس سے بھی بڑھ کر کمال یہ ہے کہ ترکی خواتین کے فوٹو بارہا اس ہیئت میں دیکھے گئے ہیں کہ غسل کا لباس پہنے سمندر کے ساحل پر نہا رہی ہیں۔ وہی لباس جس میں تین چوتھائی جسم برہنہ رہتا ہے اور ایک چوتھائی حصہ اس طرح پوشیدہ ہوتا ہے کہ جسم کے سارے نشیب و فراز سطحِ لباس پر نمایاں ہو جاتے ہیں۔
کیا قرآن اور کسی حدیث سے اس شرم ناک طرزِ زندگی کے لیے بھی کوئی جواز کا پہلو نکالا جا سکتا ہے؟ جب تمھیں اس راہ پر جانا ہے تو صاف اعلان کرکے جائو کہ ہم اسلام سے اور اس کے قانون سے بغاوت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کیسی ذلیل منافقت اور بد دیانتی ہے کہ جس نظامِ معاشرت اور طرزِ زندگی کے اصول، مقاصد اور عملی اجزا میں سے ایک ایک چیز کو قرآن حرام کہتا ہے اسے علی الاعلان اختیارکرتے ہو، مگر اس راستہ پر پہلا قدم قرآن ہی کا نام لے کر رکھتے ہو تاکہ دنیا اس فریب میں مبتلا رہے کہ باقی قدم بھی قرآن ہی کے مطابق ہوں گے۔
۶۔ ہمارا پیشِ نظر کام
یہ دَورِ جدید کے ’’مسلمان‘‘ کا حال ہے۔ اب ہمارے سامنے بحث کے دو پہلو ہیں، اور اس کتاب میں انھی دونوں پہلوئوں کو ملحوظ رکھا جائے گا۔
اولاً ہمیں تمام انسانوں کے سامنے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، اسلام کے نظامِ معاشرت کی تشریح کرنی ہے اور یہ بتانا ہے کہ اس نظام میں پردے کے احکام کس لیے دیے گئے ہیں۔
ثانیاً ہمیں ان دَورِ جدید کے ’’مسلمانوں‘‘ کے سامنے قرآن و حدیث کے احکام اور مغربی تمدن و معاشرت کے نظریات و نتائج، دونوں ایک دوسرے کے بالمقابل رکھ دینا ہیں تاکہ یہ منافقانہ روش، جو انھوں نے اختیار کر رکھی ہے، ختم ہو اور یہ شریف انسانوں کی طرح دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کر لیں۔ یا تو اسلامی احکام کی پیروی کریں۔ اگر مسلمان رہنا چاہتے ہیں۔ یا اسلام سے قطع تعلق کر لیں۔ اگر ان شرم ناک نتائج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں جن کی طرف مغربی نظامِ معاشرت لامحالہ انھیں لے جانے والا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭