اجتماعی نظم خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو، اور کسی غرض و غایت کے لیے ہو‘ اپنے قیام و استحکام اور اپنی کامیابی کے لیے دو چیزوں کا ہمیشہ محتاج ہوتا ہے:
o ایک یہ کہ جن اصولوں پر کسی جماعت کی تنظیم کی گئی ہو وہ اس پوری جماعت اور اس کے ہر فردکے دل و دماغ میں خوب بیٹھے ہوئے ہوں اور جماعت کا ہر فرد اُن کو ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔
o دوسرے یہ کہ جماعت میں سمع و طاعت کا مادہ موجودہو‘ یعنی اس نے جس کسی کو اپنا صاحب امر تسلیم کیا ہو‘ اس کے احکام کی پوری طرح اطاعت کرے‘ اس کے مقرر کیے ہوئے ضوابط کی سختی کے ساتھ پابند رہے‘ اور اس کی حدود سے تجاوز نہ کرے۔
یہ ہر نظام کی کامیابی کے لیے ناگزیر شرطیں ہیں۔ کوئی نظام خواہ وہ نظام عسکری ہو‘ یا نظام سیاسی‘ یا نظام عمرانی‘ یا نظام دینی‘ ان دونوں شرطوں کے بغیر نہ قائم ہوسکتاہے‘ نہ باقی رہ سکتا ہے اور نہ اپنے مقصد کو پہنچ سکتا ہے۔
دنیا کی پوری تاریخ اٹھا کر دیکھ جائیے۔ آپ کو ایک مثال بھی ایسی نہ ملے گی کہ کوئی تحریک تھڑدلے‘ منافق ‘ نافرمان اور غیر مطیع پیروئوں کے ساتھ کامیاب ہوئی ہو‘ یا بدرجہ آخر چل سکی ہو۔ تاریخ کے صفحات میں بھی جانے کی ضرورت نہیں۔ خود اپنے گرد و پیش کی دنیا ہی پر ایک نظر ڈال لیجیے۔ آپ اس فوج کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے جو اپنی سلطنت کی وفادار اور اپنے سالار لشکرکی مطیع فرمان نہ رہے‘ جس کے سپاہی فوجی ضوابط کی پابندی سے انکار کریں‘ پریڈ کا بگل بجے تو کوئی سپاہی اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ کمانڈر کوئی حکم دے تو سپاہی سنی ان سنی کر جائیں؟ کیا آپ سپاہیوں کے ایسے انبوہ کوفوج کہہ سکتے ہیں؟ کیا آپ امید کرسکتے ہیں کہ ایسی بن سری فوج کسی جنگ میں کامیاب ہوگی؟ آپ اس سلطنت کے متعلق کیا کہتے ہیں جس کی رعایا میں قانون کا احترام باقی نہ رہے‘ جس کے قوانین علی الاعلان توڑے جائیں‘ جس کے محکموں میں کسی قسم کا ضبط و نظم باقی نہ رہے‘ جس کے کارکن اپنے مقتدرِ اعلیٰ کے احکام بجا لانا چھوڑ دیں۔ کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی رعایا اور ایسے عمال کے ساتھ کوئی سلطنت دنیا میں قائم رہ سکتی ہے؟ آج آپ کی آنکھوں کے سامنے جرمنی اور اٹلی کی مثالیں موجود ہیں۔ ہٹلر اورمسولینی نے جو عظیم الشان طاقت حاصل کی ہے تمام دنیا اُس کی معترف ہے، مگر کچھ معلوم بھی ہے کہ اس کامیابی کے اسباب کیا ہیں؟ وہی دو‘ یعنی ایمان اور اطاعت امر۔نازی اور فاشست جماعتیں ہرگز اتنی طاقت ور اور اتنی کامیاب نہیں ہوسکتی تھیں اگر وہ اپنے اصولوں پر اتنا پختہ اعتقاد نہ رکھتیں اور اپنے لیڈروں کی اس قدر سختی کے ساتھ مطیع نہ ہوتیں۔
یہ قاعدہ کلیہ ایسا ہے جس میں کوئی استثنا نہیں۔ ایمان اور اطاعت دراصل نظم کی جان ہے۔ ایمان جتنا راسخ ہوگا اور اطاعت جتنی کامل ہوگی‘ نظم اتنا ہی مضبوط اور طاقت ور ہوگا اور اپنے مقاصد تک پہنچنے میں اتنا ہی زیادہ کامیاب ہوگا۔ بخلاف اس کے ایمان میں جتنا ضُعف اور اطاعت سے جتنا انحراف ہوگا اسی قدر نظم کمزور ہوگا اور اسی نسبت سے وہ اپنے مقاصدتک پہنچنے میں ناکام رہے گا۔ یہ قطعاً ناممکن ہے کہ کسی جماعت میں نفاق‘ بد عقیدگی‘ انتشارِ خیال‘ خود سری‘ نافرمانی اور بے ضابطگی کے امراض پھیل جائیں اور پھر بھی اس میں نظم باقی رہے اور وہ کسی شعبۂ حیات میں ترقی کی طرف رواں دواں نظر آئے۔ یہ دونوں حالتیں ایک دوسرے کی نقیض({ FR 972 }) ہیں۔ دنیا جب سے آباد ہوئی ہے اس وقت سے آج تک ان دونوں کا کبھی اجتماع نہیں ہوا، اور اگر قانونِ فطرت اٹل ہے تو اس قانون کی یہ دفعہ بھی اٹل ہے کہ دونوں حالتیں کبھی یک جا جمع نہیں ہوسکتیں۔
اب ذرا اُس قوم کی حالت پر نظر ڈالیے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے۔ نفاق اور بدعقیدگی کی کون سی قسم ایسی ہے جس کا انسان تصورکرسکتا ہو اور وہ مسلمانوں میں موجود نہ ہو۔ اسلامی جماعت کے نظام میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسلام کی بنیادی تعلیمات تک سے ناواقف ہیں اور اب تک جاہلیت کے عقائد پر جمے ہوئے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو اسلام کے اساسی اصولوں میں شک رکھتے ہیں اور شکوک کی علانیہ تبلیغ کرتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو علانیہ مذہب اور مذہبیت سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو خدا اور رسولﷺ کی تعلیمات کے مقابلے میں کفار سے حاصل کیے ہوئے تخیلات و افکار کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو خدا و رسولﷺ کے قوانین پر جاہلیت کے رسوم یا کفار کے قوانین کو مُقدّم رکھتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو خدا و رسولﷺ کے دشمنوں کو خوش کرنے کے لیے شعائرِ اسلامی کی توہین کرتے ہیں۔ وہ بھی ہیں جو اپنے چھوٹے سے چھوٹے فائدے کی خاطر اسلام کے مصالح({ FR 973 }) کو بڑے سے بڑا نقصان پہنچانے کے لیے آمادہ ہو جاتے ہیں، جو اسلام کے مقابلے میں کفر کا ساتھ دیتے ہیں‘ اسلامی اغراض کے خلاف کفار کی خدمت کرتے ہیں اور اپنے عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ان کو اتنا ہی عزیز نہیں کہ اس کی خاطر وہ ایک بال برابر بھی نقصان گوارا کرسکیں۔ راسخ الایمان اور صحیح العقیدہ مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل جماعت کو چھوڑ کر، اس قوم کی بہت بڑی اکثریت اسی قسم کے منافق اور فاسد العقیدہ لوگوں پر مشتمل ہے۔
یہ تو تھا ایمان کا حال۔ اب سمع و طاعت کا حال دیکھیے۔ آپ مسلمانوں کی کسی بستی میں چلے جائیے۔ آپ کو عجیب نقشہ نظر آئے گا۔ اذان ہوتی ہے مگر بہت سے مسلمان یہ بھی محسوس نہیں کرتے کہ موذن کس کو بلارہا ہے اور کس چیز کے لیے بلا رہا ہے۔ نماز کا وقت آتا ہے اور گزر جاتا ہے، مگر ایک قلیل جماعت کے سوا کوئی مسلمان اپنے کاروبار یا لہو و لعب(۲) کو یاد خدا کے لیے نہیں چھوڑتا۔ رمضان کا زمانہ آتا ہے تو بعض مسلمانوں کے گھروں میں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے۔ بہت سے مسلمان علانیہ کھاتے پیتے ہیں اور اپنے روزہ نہ رکھنے پر ذرہ برابر نہیں شرماتے‘ بلکہ بس چلتا ہے تو الٹا روزہ رکھنے والوں کو شرم دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر جو لوگ روزہ رکھتے بھی ہیں ان میں سے بھی بہت کم ہیں جو احساس فرض کے ساتھ ایساکرتے ہیں‘ ورنہ کوئی محض رسم ادا کرتا ہے‘ کوئی صحت کے لیے مفید سمجھ کر رکھ لیتا ہے اور کوئی روزہ رکھ کر وہ سب کچھ کرتا ہے جس سے خدا اور اس کے رسولؐ نے منع کیا ہے۔ زکوٰۃ اور حج کی پابندی اس سے بھی کم تر ہے۔ حلال اور حرام‘ پاک اور ناپاک کا امتیاز تو مسلمانوں میں سے اٹھتا ہی چلا جاتا ہے۔ وہ کون سی چیز ہے جس کو خدا اور رسولؐ نے منع کیا ہو، اور مسلمان اس کو اپنے لیے مباح({ FR 974 }) نہ کرلیتے ہوں۔ وہ کون سی حد ہے جو خدا اور رسولؐ نے مقرر کی ہو اور مسلمان اس سے تجاوز نہ کرتے ہوں۔ وہ کون سا ضابطہ ہے جو خدا اوررسولؐ نے قائم کیا ہو اور مسلمان اس کو نہ توڑتے ہوں۔ اگر مردم شماری کے لحاظ سے دیکھا جائے تو مسلمان کروڑوں ہیں مگر ان کروڑوں میں دیکھیے کہ کتنے فی صدی نہیں‘ کتنے فی ہزار، بلکہ کتنے فی لاکھ خدا اوررسولؐ کے احکام کو ماننے والے، ٹھیک ٹھیک اسلامی ضوابط کی پابندی کرنے والے ہیں۔
جس قوم میں منافقت اور ضُعفِ اعتقاد کا مرض عام ہو جائے‘ جس قوم میں فرض کا احساس باقی نہ رہے‘ جس قوم سے سمع و طاعت اور ضابطے کی پابندی اٹھ جائے‘ اس کا جو کچھ انجام ہونا چاہیے ٹھیک وہی انجام مسلمانوں کا ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ آج مسلمان تمام دنیا میں محکوم و مغلوب ہیں۔ جہاں ان کی اپنی حکومت موجود ہے‘وہاں بھی وہ غیروں کے اخلاقی‘ ذہنی اور مادی تسلط سے آزاد نہیں ہیں۔ جہالت‘ مفلسی اور خستہ حالی میں وہ ضرب المثل ہیں۔ اخلاقی پستی نے ان کو حددرجہ ذلیل کر دیا ہے۔ امانت‘ صداقت اوروفائے عہد کی صفات جن کے لیے وہ کبھی دنیا میں ممتاز تھے‘ اب ان سے دوسروں کی طرف منتقل ہو چکی ہیں‘ اور ان کی جگہ خیانت‘ جھوٹ‘ دغا اور بدمعاملگی نے لے لی ہے۔ تقویٰ‘ پرہیزگاری اور پاکیزگی اخلاق سے وہ عاری ہوتے جاتے ہیں۔ جماعتی غیرت و حمیت روز بروز ان سے مفقود ہوتی جاتی ہے۔ کسی قسم کا نظم ان میں باقی نہیں رہا ہے۔ آپس میں ان کے دل پھٹے چلے جاتے ہیں اور کسی مشترک غرض کے لیے مل کر کام کرنے کی صلاحیت ان میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ غیروں کی نگاہوں میں ذلیل ہوگئے ہیں۔ قوموں کا اعتماد ان پر سے اٹھ گیا ہے اور اٹھتا جارہا ہے۔ ان کی قومی اور اجتماعی قوت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ان کی قومی تہذیب و شائستگی فنا ہوتی چلی جارہی ہے۔ اپنے حقوق کی مدافعت اور اپنے شرفِ قومی کی حفاظت سے وہ عاجز ہوتے جارہے ہیں۔ باوجودیکہ تعلیم ان میں بڑھ رہی ہے‘ گریجویٹ اورپوسٹ گریجویٹ اوریورپ کے تعلیم یافتہ حضرات کا اضافہ ہو رہا ہے۔ بنگلوں میں رہنے والے‘ موٹروں پر چڑھنے والے‘ سوٹ پہننے والے‘ بڑے بڑے ناموں سے یاد کیے جانے والے‘ بڑی سرکاروں میں سرفرازیاں پانے والے ان میں روز بروز بڑھتے جارہے ہیں، لیکن جن اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے وہ پہلے متصف تھے اب ان سے عاری ہیں‘ اپنی ہمسایہ قوموں پر ان کی جو ساکھ اور دھاک پہلے تھی وہ اب نہیں ہے۔ جو عزت وہ پہلے رکھتے تھے وہ اب نہیں رکھتے‘ جو اجتماعی قوت و طاقت اُن میں پہلے تھی وہ اب نہیں ہے اور آئندہ اس سے بھی زیادہ خراب آثار نظر آرہے ہیں۔
کوئی مذہب ہو یا تہذیب یا کسی قسم کا نظام جماعت ہو‘ اس کے متعلق دو ہی طرز عمل انسان کے لیے معقول ہوسکتے ہیں:
۱۔ اگر وہ اس میں داخل ہو تو اس کے اساسی اصول پر پورا پورا اعتقاد رکھے اور اس کے قانون و ضابطے کی پوری پوری پابندی کرے۔
۲۔ اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو اس میں داخل نہ ہو، یا ہو چکا ہے تو علانیہ اس میں سے نکل جائے۔
ان دونوں کے درمیان کوئی تیسری صورت معقول نہیں ہے۔ اس سے زیادہ نامعقول کوئی طرز عمل نہیں ہوسکتا کہ تم ایک نظام میں شریک بھی ہو‘ اس کے ایک جز بن کر بھی رہو‘ اس نظام کے تابع ہونے کا دعویٰ بھی کرو اور پھر اس کے اساسی اصولوں سے کُلاًّ یا جزء اً انحراف بھی کرو‘ اس کے قانون کی خلاف ورزی بھی کرو‘ اپنے آپ کو اس کے آداب اور اس کے ضوابط کی پابندی سے مستثنیٰ بھی کرلو۔ اس طرز عمل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تم میں منافقانہ خصائل پیدا ہوں‘ خلوص نیت سے تمھارے دل خالی ہو جائیں، تمھارے قلوب میں کسی مقصد کے لیے گرم جوشی اور رسوخِ عزم نہ پیدا ہوسکے‘ فرض شناسی‘ اتباعِ قانون اور باضابطگی کے اوصاف سے تم عاری ہو جائو‘ اور تم میں یہ صلاحیت باقی نہ رہے کہ کسی نظام جماعت کے کار آمد رکن بن سکو۔ ان کمزوریوں اور بدترین عیوب کے ساتھ تم جس جماعت میں بھی شریک ہوگے اس کے لیے لعنت بن جائو گے۔ جس نظام میں بھی داخل ہوگے اسے درہم برہم کردو گے۔ جس تہذیب کے جسم میں داخل ہوگے اس کے لیے جذام کے جراثیم ثابت ہوگے۔ جس مذہب کے پیرو بنو گے اس کو مسخ کرکے چھوڑو گے۔ ان اوصاف کے ساتھ تمھارے مسلمان ہونے سے بدرجہا بہتر یہ ہے کہ جس گروہ کے اصولوں پر تمھارا دل ٹھکے اور جس گروہ کے طریقوں کی تم پوری طرح پیروی کرسکو اسی میں جا شامل ہو۔ منافق مسلمان سے تو وہ کافر بہتر ہیں جو اپنے مذہب اور اپنی تہذیب کے دل سے معتقد ہوں اور اس کے ضوابط کی پابندی کریں۔
جو لوگ مسلمانوں کے مرض کا علاج تعلیم مغربی اور تہذیب جدید اور اقتصادی حالات کی اصلاح اور سیاسی حقوق کے حصول کو سمجھتے تھے وہ غلطی پر تھے‘ اور اب بھی جو ایسا سمجھ رہے ہیں وہ غلطی کر رہے ہیں۔ بخدا اگر مسلمانوں کا ہر فرد ایم اے اور پی ایچ ڈی اور بیرسٹر ہو جائے‘ دولت و ثروت سے مالا مال ہو‘ مغربی فیشن سے از سر تا قدم آراستہ ہو‘ اور حکومت کے تمام عہدے اور کونسلوں کی تمام نشستیں مسلمانوں ہی کو مل جائیں‘ مگر ان کے دل میں نفاق کا مرض ہو‘ وہ فرض کو فرض نہ سمجھیں‘ وہ نافرمانی، سرکشی اور بے ضابطگی کے خوگر ہوں‘ تو اسی پستی اور ذلت اور کمزوری میں اس وقت بھی مبتلا رہیں گے جس میں آج مبتلا ہیں۔ تعلیم‘ فیشن‘ دولت اور حکومت‘ کوئی چیز ان کو اس گڑھے سے نہیں نکال سکتی جس میں وہ اپنی سیرت اور اپنے اخلاق کی وجہ سے گر گئے ہیں۔ اگر ترقی کرنی ہے اور ایک طاقت وَر باعزت جماعت بننا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں میں ایمان اور اطاعت امر کے اوصاف پیدا کرو کہ اس کے بغیر نہ تمھارے افراد میں کس بل پیدا ہوسکتا ہے‘ نہ تمھاری جماعت میں نظم پیدا ہوسکتا ہے‘ اور نہ تمھاری اجتماعی قوت اتنی زبردست ہوسکتی ہے کہ تم دنیا میں سربلند ہو سکو۔ ایک منتشر جماعت جس کے افرادکی اخلاقی اور معنوی حالت خراب ہو‘ کبھی اس قابل نہیں ہوسکتی کہ دنیا کی منظم اور مضبوط قوموں کے مقابلے میں سر اٹھا سکے۔ پھوس({ FR 975 }) کے پولوں(۲) کا انبار خواہ کتنا ہی بڑا ہو‘ کبھی قلعہ نہیں بن سکتا۔
اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن وہ ہیں جو مسلمانوں میں بدعقیدگی اور نافرمانی پھیلا رہے ہیں۔ یہ منافقوں کی سب سے زیادہ بری قسم ہے جس کا وجود مسلمانوں کے لیے حربی کافروں سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ یہ باہر سے حملہ نہیں کرتے بلکہ گھر میں بیٹھ کر اندر ہی اندر ڈائنامائٹ بچھاتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کو دین اور دنیا دونوں میں رسوا کرناچاہتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ وہ تمھیں بھی اسی طرح کافر بنانا چاہتے ہیں جس طرح وہ خود ہوگئے ہیں: وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآئً النسائ4:89 وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیںاسی طرح تم بھی کافر ہو جائو تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہو جائیں۔
ان کے شر سے بچنے کی کم سے کم تدبیر یہ ہے کہ جو لوگ دل سے مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں وہ ان سے قطع تعلق کرلیں: فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ۔ النسائ4:89، لہٰذا اُن میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بنائو ورنہ قرآن نے تو ان کی آخری سزا یہ قرار دی ہے کہ ان سے جنگ کی جائے:
فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْھُمْ وَاقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ النسائ4:89
(ترجمان القرآن، رمضان ۱۳۵۳ھ۔ نومبر ۱۹۳۴ء)