حضرت مجدد الف ثانی ؒکی وفات کے بعد اور عالم گیر بادشاہ کی وفات سے چار سال پہلے نواحِ دہلی میں شاہ ولی اللّٰہ صاحب پیدا({ FR 6722 }) ہوئے۔ ایک طرف ان کے زمانہ اور ماحول کو اور دوسری طرف ان کے کام کو جب آدمی بالمقابل رکھ کر دیکھتا ہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس دَور میں اس نظر، ان خیالات، اس ذہنیت کا آدمی کیسے پیدا ہو گیا۔ فرخ سیر، محمد شاہ رنگیلے اور شاہ عالم کے ہندوستان کو کون نہیں جانتا۔ اس تاریک زمانہ میں نشوونما پاکر ایسا آزاد خیال مفکر و مبصر منظر عام پر آتا ہے جو زمانہ اور ماحول کی ساری بندشوں سے آزاد ہو کر سوچتا ہے، تقلیدی علم اور صدیوں کے جمے ہوئے تعصبات کے بند توڑ کر ہر مسئلہ زِندگی پر محققانہ و مجتہدانہ نگاہ ڈالتا ہے اور ایسا لٹریچر چھوڑ جاتا ہے جس کی زبان، انداز بیان، خیالات، نظریات، موادِ تحقیق اور نتائجِ مستخرجہ، کسی چیز پر بھی ماحول کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا، حتّٰی کہ اس کے اوراق کی سیر کرتے ہوئے یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ یہ چیزیں اس جگہ لکھی گئی تھیں جس کے گرد و پیش عیاشی، نفس پرستی، قتل و غارت، جبر و ظلم اور بدامنی و طوائف الملوکی کا طوفان برپا تھا۔
شاہ صاحب تاریخ انسانی کے ان لیڈروں میں سے ہیں جو خیالات کے الجھے ہوئے جنگل کو صاف کرکے فکر و نظر کی ایک صاف، سیدھی شاہ راہ بناتے ہیں اور ذہن کی دُنیا میں حالاتِ موجودہ کے خلاف ایسی بے چینی اور تعمیر نو کا ایسا دل آویز نقشہ پیدا کرتے چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ناگزیر طور پر تخریب فاسد و تعمیر صالح کے لیے ایک تحریک اٹھتی ہے۔ شاذو نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لیڈر اپنے خیالات کے مطابق خود کوئی تحریک اٹھاتے ہوں اور بگڑی ہوئی دُنیا کو توڑ پھوڑ کر اپنے ہاتھوں سے نئی دُنیا بنانے کے لیے میدان میں نکل آتے ہوں۔ تاریخ میں اس کی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں۔ اس طرز کے لیڈروں کا اصلی کارنامہ یہی ہوتا ہے کہ وہ تنقید سے صدہابرس کی جمی ہوئی غلط فہمیوں کا غبار چھانٹ دیتے ہیں،اذہان میں نئی روشنی پیدا کرتے ہیں، زِندگی کے بگڑے ہوئے مگر پختہ بنے ہوئے سانچے کو عالم ذہنی میں توڑتے ہیں اور اس کے ملبے میں سے اصلی پائدار حقیقتوں کو نکال کر دُنیا کے سامنے رکھ جاتے ہیں۔ یہ کام بجائے خود اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس کی مشغولیتوں سے آدمی کو اتنی فرصت مشکل ہی سے مل سکتی ہے کہ خود میدان میں آکر تعمیر کا عملی کام بھی کر سکے۔ اگرچہ شاہ صاحب تفہیماتِ الٰہیہ میں ایک جگہ اشارہ کرتے ہیں کہ اگر موقع و محل کا اقتضا ہوتا تو میں جنگ کرکے عملاً اصلاح کرنے کی قابلیت بھی رکھتا تھا۔({ FR 6723 }) مگر واقعہ یہی ہے کہ انھوں نے اس طرز کا کوئی کام نہیں کیا۔ ان کی ساری قوتوں کو تنقید و تعمیر افکار کے بھاری کام نے بالکل اپنے اندر جذب کر رکھا تھا اور انھیں اس کارِ عظیم سے اتنی مہلت بھی نہ تھی کہ اپنے قریب ترین ماحول کی طرف ہی توجہ کر سکتے۔ جیسا کہ آگے چل کر عرض کیا جائے گا، ان کے صاف کیے ہوئے راستے پر عملی جدوجہد کرنے کے لیے کچھ دوسرے لوگوں کی ضرورت تھی اور وہ نصف صدی کے اندر خود انھی کے حلقہ تعلیم و تربیت سے نشوونما پاکر اٹھے۔
شاہ صاحبؒ کے تجدیدی کارنامے کو ہم دو بڑے عنوانات پر تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک عنوان تنقید و تنقیح کا اور دوسرا عنوان تعمیر کا۔ میں ان دونوں کو الگ الگ بیان کروں گا۔