عمر ؒثانی کی وفات کے بعد اگرچہ سیاسی اقتدار کی کنجیاں پھر اِسلام سے جاہلیّت کی طرف منتقل ہو گئیں اور سیاسی پہلو میں اس پورے کام پر پانی پھر گیا جو انھوں نے انجام دیا تھا، مگر اسلامی ذہنیت میں جو بیداری انھوں نے پیدا کر دی تھی اور جس علمی حرکت کو اکسا گئے تھے اسے کوئی طاقت بارآور ہونے سے نہ روک سکی۔ بنی امیہ اور بنی عباس کے کوڑے اور اشرفیوں کے توڑے، دونوں ہی اس تحریک کے راستے میں حائل ہوئے، مگر کسی کی بھی اس کے آگے پیش نہ چلی۔ اس کے اثر سے قرآن و حدیث کے علوم میں تحقیق، اجتہاد اور تدوین کا بہت بڑا کام ہوا، اصولِ دین سے اِسلام کے قوانین کی تفصیلی شکل مرتب کی گئی اور ایک وسیع نظامِ تمدن کو اِسلام کے طرز پر چلانے کے لیے جس قدر ضوابط و مناہج عمل کی ضرورت تھی وہ تقریباً سارے کے سارے اپنی تمام جزئیات کے ساتھ مدون کر ڈالے گئے۔ دوسری صدی کے آغاز سے تقریباً چوتھی صدی تک یہ کام پوری قوت کے ساتھ چلتا رہا۔
اس دَور کے مجددین میں وہ چار بزرگ({ FR 6713 }) ہیں جن کی طرف آج فقہ کے چاروں مذاہب منسوب ہیں۔ اگرچہ مجتہد اُن کے سوا اور بھی کثیرالتعداد اصحاب تھے۔ مگر جس لحاظ سے ان حضرات کا مقام مجتہدین سے بلند ہو کر مجددین کے مرتبے تک پہنچتا ہے وہ یہ ہے:
اولاً ان حضرات نے اپنی گہری بصیرت اور غیر معمولی ذکاوت و ذہانت سے ایسے مذاہب فکر پیدا کیے جن کی زبردست طاقت سات آٹھ صدیوں تک مجتہدین پیدا کرتی رہی۔ انھوں نے کلیاتِ دین سے جزئیات مستنبط کرنے اور اصولِ شرع کو زِندگی کے عملی مسائل پر منطبق کرنے کے ایسے وسیع وہمہ گیر طریقے قائم کر دیے کہ آگے چل کر جس قدر اجتہادی کام ہوا انھی کے طریقوں پر ہوا اور آیندہ بھی جب کبھی اس سلسلہ میں کوئی کام ہو گا ان کی راہ نُمائی سے انسان بے نیاز نہ ہو سکے گا۔
ثانیاً، ان لوگوں نے یہ سارا کام شاہی نظامِ حکومت کی امداد کے بغیر، اس کی مداخلت سے بالکل آزاد ہو کر، بلکہ اس کی در اندازیوں کا سخت مقابلہ کرکے انجام دیا اور اس سلسلہ میں وہ تکلیفیں اٹھائیں جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ نے بنی امیہ اور بنی عباس دونوں کے زمانہ میں کوڑوں کی مار اور قید کی سزائیں بھگتیں۔ یہاں تک کہ زہر سے ان کا خاتمہ ہی کر دیا گیا۔
امام مالکؒ کو منصور عباسی کے زمانے میں ۷۰ کوڑوں کی سزا دی گئی اور اس بُری طرح ان کی مشکیں کسی گئیں کہ ہاتھ بازو سے اکھڑ گیا۔
امام احمد بن حنبل پر مامون، معتصم اور واثق تینوں کے زمانے میں مسلسل مصائب و شدائد کے پہاڑ ٹوٹتے رہے، اتنا مارا گیا کہ شاید اونٹ اور ہاتھی بھی اس مار کی تاب نہ لا سکیں اور پھر متوکل کے زمانے میں شاہی انعام و اکرام اور عقیدت و تعظیم کی وہ بارش ان پر کی گئی کہ گھبرا کر پکار اٹھے ھٰذا اَمْرٌ اَشَدُّ عَلَیَّ مِنْ ذاک ’’یہ مجھ پر اس مار اور قید سے زیادہ سخت مصیبت ہے۔‘‘
مگر ان سب باتوں کے باوجود ان اللّٰہ کے بندوں نے علم دین کی ترتیب و تدوین میں نہ صرف خود شاہی نفوذ و اثر کو گھسنے کا راستہ نہ دیا بلکہ کچھ ایسی طرح ڈال گئے کہ ان کے بعد بھی سارا اجتہادی و تدوینی کام درباروں کے دخل سے بالکل آزاد ہی رہا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اسلامی قوانین اور علومِ حدیث و قرآن کا جتنا معتبر و مستند ذخیرہ ہم تک پہنچا ہے وہ جاہلیّت کے ادنیٰ شائبہ سے بھی ملوث نہیں ہوا۔ یہ چیزیں ایسی پاک صاف صورت میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوئی ہیں کہ صدیوں تک پادشاہوں اور اُمرا کی نفس پرستیوں اور عوام کے اخلاقی تنزل اور اعتقادی و تمدنی گم راہیوں کا جو دور دورہ رہا وہ گویا ان علوم کے لیے معدوم محض تھا، اس کا کوئی اثر ان علوم پر نہیں پایا جاتا۔