لیکن وہ بنیادی چیز جو مجدد کو نبی سے جدا کرتی ہے ، یہ ہے کہ نبی اپنے منصب پر ا مرِ تشریعی سے مامور ہوتا ہے ، اسے اپنی ماموریت کا علم ہوتا ہے ، اس کے پاس وحی آتی ہے ، وہ اپنی نبوت کے دعوے سے اپنے کام کا آغاز کرتا ہے ، اسے لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینا پڑتی ہے اور اس کی دعوت ہی کو قبول کرنے یا نہ کرنے پر لوگوں کے کافر یا مومن ہونے کا مدار ہوتا ہے ، برعکس اس کے مجدد کو ان میں سے کوئی حیثیت بھی حاصل نہیں۔ وہ اگر مامور ہوتا ہے تو ا مرِ تکوینی سے ہوا کرتا ہے نہ کہ ا مرِ تشریعی سے۔ بسا اوقات اسے خود اپنے مجدد ہونے کی خبر نہیں ہوتی بلکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی زِندگی کے کارنامے سے لوگوں کو اس کے مجدد ہونے کا علم ہوتا ہے۔ اس پر الہام ہونا ضروری نہیں اور اگر ہوتا ہے تو لازم نہیں کہ اسے الہام کا شعور ہو۔ وہ کسی دعوے سے اپنے کام کا آغاز نہیں کرتا ، نہ ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے ، کیوں کہ اس پر ایمان لانے یا نہ لانے کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اس کے زمانے کے تمام اہل صلاح و خیر رفتہ رفتہ اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور صرف وہی لوگ اس سے الگ رہتے ہیں جن کی طبیعت میں کوئی ٹیڑھ ہوتی ہے ، مگر بہرحال اسے ماننا مسلمان ہونے کی شرط نہیں ہوتا({ FR 6693 }) ان تمام فروق کے ساتھ مجدد کو فی الجملہ اسی نوعیت کا کام کرنا ہوتا ہے ، جو نبی کے کام کی نوعیت ہے۔
کارِ تجدید
اس کارِ تجدید کے مختلف شعبے حسب ذیل ہیں:
۱۔ اپنے ماحول کی صحیح تشخیص ، یعنی حالات کا پورا جائزہ لے کر یہ سمجھنا کہ جاہلیّت کہاں کہاں کس حد تک سرایت کر گئی ہے ، کن کن راستوں سے آئی ہے۔ اس کی جڑیں کہاں کہاں اور کتنی پھیلی ہوئی ہیں اور اِسلام اس وقت ٹھیک کس حالت میں ہے۔
۲۔ اصلاح کی تجویز ، یعنی یہ تعین کرنا کہ اس وقت کہاں ضرب لگائی جائے کہ جاہلیّت کی گرفت ٹوٹے اور اِسلام کو پھر اجتماعی زِندگی پر گرفت کا موقع ملے۔
۳۔ خود اپنے حدود کا تعین ، یعنی اپنے آپ کو تول کر صحیح اندازہ لگانا کہ میں کتنی قوت رکھتا ہوں اور کس راستہ سے اصلاح کرنے پر قادر ہوں۔
۴۔ ذہنی انقلاب کی کوشش ، یعنی لوگوں کے خیالات کو بدلنا ، عقائد و افکار اور اخلاقی نقطہ نظر کو اِسلام کے سانچے میں ڈھالنا ، نظامِ تعلیم و تربیت کی اصلاح اور علومِ اسلامی کا احیا کرنا اور فی الجملہ اسلامی ذہنیت کو ازسرنو تازہ کر دینا۔
۵۔ عملی اصلاح کی کوشش ، یعنی جاہلی رسوم کو مٹانا ، اخلاق کا تزکیہ کرنا ، اتباع شریعت کے جوش سے پھر لوگوں کو سرشار کر دینا اور ایسے افراد تیار کرنا جو اسلامی طرز کے لیڈر بن سکیں۔
۶۔ اجتہاد فی الدین ،یعنی دین کے اصولِ کلیہ کو سمجھنا ، اپنے وقت کے تمدنی حالات اور ارتقائے تمدن کی سمت کا اسلامی نقطہ نظر سے صحیح اندازہ لگانا اور یہ تعین کرنا کہ اصولِ شرع کے ماتحت تمدن کے پرانے متوارث نقشے میں کس طرح رد و بدل کیا جائے جس سے شریعت کی روح برقرار رہے ، اس کے مقاصد پورے ہوں اور تمدن کے صحیح ارتقا میں اِسلام دُنیا کی امامت کر سکے۔
۷۔دفاعی جدوجہد ، یعنی اِسلام کو مٹانے اور دبانے والی سیاسی طاقت کا مقابلہ کرنا اور اس کے زور کو توڑ کر اِسلام کے لیے ابھرنے کا راستہ پیدا کرنا۔
(۸)احیائے نظامِ اسلامی ، یعنی جاہلیّت کے ہاتھ سے اقتدار کی کنجیاں چھین لینا اور ازسر نو حکومت کو عملاً اس نظام پر قائم کر دینا جسے صاحب شریعت علیہ السلام نے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے نام سے موسوم کیا ہے۔
(۹)عالم گیر انقلاب کی کوشش ، یعنی صرف ایک ملک یا ان ممالک میں جہاں مسلمان پہلے سے موجود ہوں، اسلامی نظام کے قیام پر اکتفا نہ کرنا بلکہ ایک ایسی طاقت ور عالم گیر تحریک برپا کرنا جس سے اِسلام کی اصلاحی و انقلابی دعوت عام انسانوں میں پھیل جائے ، وہی تمام دُنیا کی غالب تہذیب بنے ، ساری دُنیا کے نظامِ تمدن میں اسلامی طرز کا انقلاب برپا ہو اور عالمِ انسانی کی اخلاقی ، فکری اور سیاسی امامت و ریاست اِسلام کے ہاتھ میں آجائے۔
ان شعبوں پر غائر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی تین مدات تو ایسی ہیں جو ہر اس شخص کے لیے ناگزیر ہیں جو تجدید کی خدمت انجام دے ، لیکن باقی چھ مدیں ایسی ہیں ، جن کا جامع ہونا مجدد ہونے کے لیے شرط نہیں ہے بلکہ جس نے ایک ، دو ، تین یا چار شعبوں میں کوئی نمایاں کارنامہ انجام دیا ہو وہ بھی مجدد قرار دیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس قسم کا مجدد جزوی مجدد ہو گا ، کامل مجدد نہ ہو گا۔ کامل مجدد صرف وہ شخص ہو سکتا ہے جو ان تمام شعبوں میں پورا کام انجام دے کر وراثت نبوت کا حق ادا کر دے۔
مجدد کامل کا مقام
تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اب تک کوئی مجدد کامل پیدا نہیں ہوا ہے۔ قریب تھا کہ عمربن عبدالعزیز اس منصب پر فائز ہو جاتے ، مگر وہ کام یاب نہ ہو سکے۔ ان کے بعد جتنے مجدد پیدا ہوئے ان میں سے ہر ایک نے کسی خاص شعبے یا چند شعبوں ہی میں کام کیا۔ مجددِ کامل کا مقام ابھی تک خالی ہے۔ مگر عقل چاہتی ہے، فطرت مطالبہ کرتی ہے اور دُنیا کے حالات کی رفتار متقاضی ہے کہ ایسا ’’لیڈر‘‘ پیدا ہو، خواہ اس دور میں پیدا ہو یا زمانے کی ہزاروں گردشوں کے بعد پیدا ہو۔ اسی کا نام الامام المہدی ہو گا جس کے بارے میں صاف پیشین گوئیاں نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام میں موجود ہیں۔ ({ FR 6694 })
آج کل لوگ نادانی کی وجہ سے اس نام کو سن کر ناک بھوں چڑھاتے ہیں۔ انھیں شکایت ہے کہ کسی آنے والے مرد کامل کے انتظار نے جاہل مسلمانوں کے قوائے عمل کو سرد کر دیا ہے، اس لیے ان کی رائے یہ ہے کہ جس حقیقت کا غلط مفہوم لے کر جاہل لوگ بے عمل ہو جائیں وہ سرے سے حقیقت ہی نہ ہونی چاہیے۔ نیز وہ کہتے ہیں کہ تمام مذہبی قوموں میں کسی ’’مردے از غیب‘‘ کی آمد کا عقیدہ پایا جاتا ہے، لہٰذا یہ محض ایک وہم ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی طرح پچھلے انبیا نے بھی اگر اپنی قوموں کو یہ خوش خبری دی ہو کہ نوعِ انسان کی دنیوی زِندگی ختم ہونے سے پہلے ایک دفعہ اِسلام ساری دُنیا کا دین بنے گا اور انسان کے بنائے ہوئے سارے ’’ازموں‘‘ کی ناکامی کے بعد آخر کار تباہیوں کا مارا ہوا انسان اس ’’ازم‘‘ کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہو گا جسے خدا نے بنایا ہے اور یہ نعمت انسان کو ایک ایسے عظیم الشان لیڈر کی بدولت نصیب ہو گی جو انبیا کے طریقہ پر کام کرکے اِسلام کو اس کی صحیح صورت میں پوری طرح نافذ کر دے گا، تو آخر اس میں وہم کی کون سی بات ہے؟ بہت ممکن ہے کہ انبیا علیہم السلام کے کلام سے نکل کر یہ چیز دُنیا کی دوسری قوموں میں بھی پھیلی ہو اور جہالت نے اس کی روح نکال کر اوہام کے لبادے اس کے گرد لپیٹ دیے ہوں۔