انھی تینوں اقسام کی جاہلیتوں کے ہجوم سے اِسلام کو نکالنا اور پھر سے چمکا دینا وہ کام تھا جس کے لیے دین کو مجددین کی ضرورت پیش آئی ، اگرچہ یہ گمان کرنا صحیح نہ ہو گا کہ اس طغیانِ جاہلیّت میں اِسلام بالکل ختم ہو گیا تھا اور جاہلیّت کلیتہً غالب آگئی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ جو قومیں اِسلام سے متاثر ہو چکی تھیں یا بعد میں متاثر ہوئیں ان کی زِندگیوں میں اِسلام کا اصلاحی اثر تھوڑا یا بہت ہمیشہ موجود رہا۔ یہ اِسلام ہی کا اثر تھا کہ بڑے بڑے جبار وغیر ذمہ دار بادشاہ بھی کبھی کبھی خوف خدا سے کانپ اٹھتے تھے اور راستی و انصاف کا طریقہ اختیار کر لیتے تھے۔ یہ اِسلام ہی کی برکت ہے کہ بادشاہی کی سیاہ تاریخ میں ہمیں جگہ جگہ نیکی اور اخلاقِ فاضلہ کی روشنی چمکتی نظر آتی ہے۔ یہ اِسلام ہی کا طفیل ہے کہ جن شاہی خاندانوں میں خدائی کا رنگ جما ہوا تھا ان کی آغوش میں بہت سے دین دار ، عادل اور متقی انسان پیدا ہوئے اور انھوں نے شاہی اختیارات رکھنے کے باوجود حتی الامکان ذمہ دارانہ حکومت کی۔ اسی طرح امارت و ریاست کے ایوانوں میں ، فلسفہ و حکمت کے مدرسوں میں ، تجارت و صنعت کی کارگاہوں میں ، ترک و تجرید کی خانقاہوں میں اور زِندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی اِسلام اپنے بالواسطہ اثرات کم و بیش برابر پہنچاتا رہا اور عوام کے اندر بھی مشرکانہ جاہلیّت کی در اندازی کے باوجود اس نے اعتقاد ، اخلاق اور معاشرت میں اصلاحی اور انسدادی دونوں حیثیتوں سے اپنا نفوذ جاری رکھا جس کی وجہ سے مسلمان قوموں کا معیارِ اخلاق بہرحال غیر مسلم قوموں سے ہمیشہ بلند تر رہا۔ علاوہ بریں ہر زمانے میں ایسے لوگ بھی برابر موجود رہے جو اِسلام کی پیروی پر ثابت قدم تھے اور اسلامی علم و عمل کو اپنی زِندگی میں اور اپنے محدود حلقہ اثر میں زندہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن جو مقصد ِ اصلی انبیا علیہم السلام کی بعثت کا تھا اس کے لیے یہ دونوں چیزیں ناکافی تھیں۔ نہ یہ بات کافی تھی کہ اقتدار جاہلیّت کے ہاتھ میں ہو اور اِسلام محض ایک ثانوی قوت کی حیثیت سے کام کرے اور نہ یہی بات کافی تھی کہ چند افراد یہاں اور چند وہاں محدود انفرادی زِندگیوں میں اِسلام کے حامل بنے رہیں اور وسیع تر اجتماعی زِندگی میں اِسلام اور جاہلیّت کے مختلف النوع مرکبات پھیلے رہیں۔ لہٰذا دین کو ہر دور میں ایسے طاقت ور اشخاص ، گروہوں اور اداروں کی ضرورت تھی اور ہے جو زِندگی کی بگڑی ہوئی رفتار کو بدل کر پھر سے اِسلام کی طرف پھیر دیں۔