Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ
باب اول:
دین و سیاست
۱۔مذہب کا اسلامی تصور
۲۔ اسلامی ریاست کیوں؟
۳۔ اسلام اور اقتدار
۴۔ دین و سیاست کی تفریق کا باطل نظریہ اورقصۂ یوسف ؑ سے غلط استدلال
۵۔ تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
باب ٢
اسلام کا سیاسی نظریہ
۱۔بنیادی مُقدّمات
۲۔ نظریۂ سیاسی کے اوّلین اصول
۳۔ اسلامی ریاست کی نوعیت
۴۔ اسلامی ریاست کی خصوصیات
۵۔ نظریۂ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
باب۳ قرآن کا فلسفہ ٔ سیاست
۱۔علم سیاست کے بنیادی سوال
۲۔ چند بنیادی حقیقتیں
۳۔اسلامی تصورِ حیات
۴۔ دین اور قانونِ حق
۵۔حکومت کی ضرورت اور اہمیت
۶۔ تصور حاکمیت و خلافت
۷۔ اصول اطاعت ووفاداری
باب ۴
معنی ٔ خلافت
باب ۵
۱۔اسلامی تصور قومیت
۲۔ اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
باب۶
اسلام کے دستوری قانون کے مآخذ
ا۔قرآن مجید
۲۔ سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۴؎
۳۔خلافتِ راشدہ کا تعامل
۴۔ مجتہدینِ امت کے فیصلے
ضمیمہ باب ۶: سنت ِرسولؐ اللہ بحیثیت ِ مآ خذ ِقانون
باب۷
اسلامی ریاست کی بنیادیں
۱۔حاکمیت کس کی ہے؟
۲۔ ریاست کے حدودِ عمل
۳۔ اعضائے ریاست کے حدودِ عمل اور ان کا باہمی تعلق
۴۔ ریاست کا مقصدِ وجود
۵۔حکومت کی تشکیل کیسے ہو؟
۶۔اولی الامر کے اوصاف
۷۔ شہریت اور اس کی بنیادیں
۸۔ حقوقِ شہریت
۹۔شہریوں پر حکومت کے حقوق
باب ۸
اسلامی دستور کی بنیادیں
۱۔حاکمیت الٰہی
۲۔ مقامِ رسالت
۳۔ تصورِ خلافت
۴۔ اصولِ مشاورت
۵۔اصولِ انتخاب
۶۔عورتوں کے مناصب
۷۔ حکومت کا مقصد
۸۔ اولی الامر اور اصولِ اطاعت
۹۔ بنیادی حقوق اور اجتماعی عدل
۱۰۔فلاحِ عامہ
باب ۹
۱۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
۲۔ خلافتِ راشدہ
باب ۱۰
۱۔ اسلام میں قانون سازی کا دائرۂ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
۲۔قانون سازی‘ شوریٰ اور اجماع
۳۔نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
باب۱۱
۱۔ اسلامی ریاست کے چند پہلو
۲۔خلافت و حاکمیت۲۰۳؎
۳۔ ملکی سیاست میں عورتوں کا حصہ
۴۔ذمیوں کے حقوق۲۱۱؎
(۵) ذمیوں کے حقوق۲۱۶؎
۶۔چند متفرق مسائل
باب ۱۲
انسان کے بنیادی حقوق
باب۱۳
غیر مسلموں کے حقوق
باب۱۴
اسلام اور عدلِ اجتماعی
باب ۱۵
اسلامی ریاست کے رہنما اُصول
باب۱۶
۱۔اسلامی انقلاب کی راہ
ضمیمہ نمبر ۱
ضمیمہ نمبر ۲

اسلامی ریاست

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فردکی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زرین اُصول وضع کرتا ہے جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام سے مختلف اوراس کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات ومعاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہےاسلامی نظام میں ریاست اور دین مذہب اور سلطنت دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں دونوں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، دونوں کے تقاضے ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں، چنانچہ ماوردی کہتے ہیں کہ جب دین کمزور پڑتا ہے تو حکومت بھی کمزور پڑ جاتی ہے اورجب دین کی پشت پناہ حکومت ختم ہوتی ہے تو دین بھی کمزور پڑ جاتا ہے، اس کے نشانات مٹنے لگتے ہیں۔ اسلام نے اپنی پوری تاریخ میں ریاست کی اہمیت کوکبھی بھی نظر انداز نہیں کیا۔انبیاء کرامؑ وقت کی اجتماعی قوت کواسلام کےتابع کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ ان کی دعوت کا مرکزی تخیل ہی یہ تھا کہ اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کےلیے خالص ہو جائے اور شرک اپنی ہر جلی اور خفی شکل میں ختم کردیا جائے ۔قرآن کےمطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف ،حضرت موسی، حضرت داؤد، اور نبی کریم ﷺ نے باقاعدہ اسلامی ریاست قائم بھی کی اور اسے معیاری شکل میں چلایا بھی۔اسلامی فکر میں دین اورسیاست کی دوری کاکوئی تصور نہیں پایا جاتا اور کا اسی کانتیجہ ہے کہ مسلمان ہمیشہ اپنی ریاست کواسلامی اصولوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہے۔ یہ جدوجہد ان کے دین وایمان کاتقاضا ہے۔قرآن پاک اور احادیث نبویہ میں جس طرح اخلاق اور حسنِ کردار کی تعلیمات موجود ہیں۔اسی طرح معاشرت،تمدن اور سیاست کے بارے میں واضح احکامات بھی موجود ہیں۔ زیر نظر کتاب’’اسلامی ریاست‘‘مفکرِ اسلام مولا نا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کی تصنیف ہے ۔جس میں انھوں نے بیک وقت ان دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے کی کما حقہ کوشش کی ہے ۔ ایک طرف انھوں نے اسلام کےپورے نظام حیات کودینی اور عقلی دلائل کےساتھ اسلام کی اصل تعلیمات کودورحاضر کی زبان میں پیش کیاہے ۔ ان کی تحریرات کےمطالعہ سے قاری کوزندگی کے بارے میں اسلام کے نقظہ نظر کا کلی علم حاصل ہوتا ہے اوروہ پوری تصویر کو بیک نظر دیکھ سکتا ہے۔انھوں نےہر مرعوبیت سے بالا تر ہوکر دورحاضرکے ہر فتنہ کا مقابلہ کیا اور اسلام کے نظام زندگی کی برتری اورفوقیت کوثابت کیا ہے۔پھر یہ بھی بتایا ہےکہ اس نظام کودور حاضر میں کیسے قائم کیا جاسکتا ہے اور آج کے اداروں کوکس طرح اسلام کے سانچوں میں ڈھالا جاسکتاہے ۔انھوں نے اسلامی ریاست کے ہمہ پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئےدور جدید کے تقاضوں کوسامنے رکھ کر اسلامی ریاست کا مکمل نقشہ پیش کیاہے ۔کتاب ہذا دراصل مولانامودودی کے منتشر رسائل ومضامین کامجموعہ ہے جسے پروفیسر خورشید احمد صاحب (مدیر ماہنامہ ترجمان القرآن)نے بڑے حسن ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مصنف ومرتب کی اشاعتِ اسلام کےلیے کی جانے والی تمام کاوشوں کو قبول فرماے۔آمین

۲۔ خلافتِ راشدہ

یہ ہیں وہ اصول حکمرانی جن پر دور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حکومت کا نظام قائم ہوا اور چلا‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کی حکومت انھی اصولوں پر قائم ہوئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی براہ راست تعلیم و تربیت اور عملی رہنمائی سے جو معاشرہ وجود میں آیا تھا اس کا ہر فرد یہ جانتا تھا کہ اسلام کے احکام اور اس کی رُوح کے مطابق کس قسم کا نظام حکومت بننا چاہیے۔ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جانشینی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا‘ لیکن مسلم معاشرے کے لوگوں نے خود یہ جان لیا کہ اسلام ایک شوروی خلافت کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے وہاں نہ کسی خاندانی بادشاہی کی بنا ڈالی گئی‘ نہ کوئی شخص طاقت استعمال کرکے برسر اقتدار آیا‘ نہ کسی نے خلافت حاصل کرنے کے لیے خود کوئی دوڑ دھوپ یا برائے نام بھی کوئی کوشش کی‘ بلکہ یکے بعد دیگرے چار اصحابؓ کو لوگ اپنی آزاد مرضی سے خلیفہ بناتے چلے گئے۔ اس خلافت کو امت نے خلافتِ راشدہ (راست رو خلافت) قرار دیا ہے۔ اس سے خود بخود یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں خلافت کا صحیح طرز یہی ہے۔
انتخابی خلافت
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کے لیے حضرت ابوبکرؓ کو حضرت عمرؓ نے تجویز کیا اور مدینے کے تمام لوگوں نے‘ (جو درحقیقت اس وقت پورے ملک میں عملاً نمائندہ حیثیت رکھتے تھے) کسی دبائو یا لالچ کے بغیر خود اپنی رضا و رغبت سے انھیں پسند کرکے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی وفات کے وقت حضرت عمرؓ کے حق میں وصیت لکھوائی اور پھر مسجدِ نبویؐ میں لوگوں کو جمع کرکے کہا:
کیا تم اس شخص پر راضی ہو جسے میں اپنا جانشین بنا رہا ہوں؟ خدا کی قسم! میں نے رائے قائم کرنے کے لیے اپنے ذہن پر زور ڈالنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے اور اپنے کسی رشتے دار کو نہیں، بلکہ عمرؓ بن الخطاب کو جانشین مقرر کیا ہے‘ لہٰذا تم ان کی سنو اور اطاعت کرو۔
اس پر لوگوں نے کہا:ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔۱۵۷؎
حضرت عمرؓ کی زندگی کے آخری سال حج کے موقع پر ایک شخص نے کہا کہ:اگر عمرؓ کا انتقال ہوا تومیں فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا‘ کیونکہ ابوبکر ؓ کی بیعت بھی تو اچانک ہی ہوئی تھی اور آخر وہ کامیاب ہوگئی۔۱۵۸؎ حضرت عمرؓکو اس کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے کہا: میں اس معاملے پر ایک تقریر کروں گا اور عوام کو ان لوگوں سے خبردار کردوں گا جو ان کے معاملات پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے ارادے کر رہے ہیں۔‘‘ چنانچہ مدینے پہنچ کر انھوں نے اپنی پہلی تقریر میں اس قصے کا ذکر کیا اور بڑی تفصیل کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ کی سرگزشت بیان کر کے یہ بتایا کہ:
اس وقت مخصوص حالات تھے جن میں اچانک حضرت ابوبکرؓ کا نام تجویز کرکے میںنے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے فرمایا: اگر میں ایسا نہ کرتا اورخلافت کا تصفیہ کیے بغیر ہم لوگ مجلس سے اٹھ جاتے تو اندیشہ تھا کہ راتوں رات لوگ کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں اور ہمارے لیے اس پر راضی ہونا بھی مشکل ہو، اور بدلنا بھی مشکل۔ یہ فعل اگر کامیاب ہوا تو اسے آئندہ کے لیے نظیر نہیں بنایا جاسکتا۔ تم میں ابوبکرؓ جیسی بلند و بالا اور مقبول شخصیت کا آدمی اور کون ہے؟ اب اگر کوئی شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی کے ہاتھ پر بیعت کرے گا تو وہ اور جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی‘ دونوں اپنے آپ کو قتل کے لیے پیش کریں گے۔۱۵۹؎
اپنے تشریح کردہ اسی قاعدے کے مطابق حضرت عمرؓ نے اپنی وفات کے وقت خلافت کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک انتخابی مجلس مقرر کی اور فرمایا: ’’جو شخص مسلمانوں کے مشورے کے بغیر زبردستی امیر بننے کی کوشش کرے اسے قتل کردو۔اس کے ساتھ انھوں نے اپنے بیٹے کو خلافت کے استحقاق سے صاف الفاظ میں مستثنیٰ کر دیا، تاکہ خلافت ایک موروثی منصب نہ بن جائے۔ ۱۶۰؎ یہ انتخابی مجلس اُن چھ اشخاص پر مشتمل تھی جو حضرت عمرؓ کے نزدیک قوم میں سب سے زیادہ بااثر اور مقبولِ عام تھے۔
اس مجلس نے آخر کار اپنے ایک رکن عبدالرحمانؓ بن عوف کو خلیفہ تجویز کرنے کا اختیار دے دیا۔ انھوں نے عام لوگوں میں چل پھر کر معلوم کرنے کی کوشش کی کہ عوام کا رجحان زیادہ تر کس شخص کی طرف ہے۔ حج سے واپس گزرتے ہوئے قافلوں سے بھی دریافت کیا، اور اس استصواب عام سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اکثر لوگ حضرت عثمانؓ کے حق میں ہیں۔۱۶۱؎ اسی بنیاد پر حضرت عثمانؓ خلافت کے لیے منتخب کیے گئے اور مجمع عام میں ان کی بیعت ہوئی۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب کچھ لوگوں نے حضرت علیؓ کو خلیفہ بنانا چاہا تو انھوں نے کہا: تمھیں ایسا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ تو اہل شوریٰ اور اہل بدر کے کرنے کاکام ہے۔ جس کو اہل شوریٰ اور اہل بدر خلیفہ بنانا چاہیں گے وہی خلیفہ ہوگا۔ پس ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔۱۶۲؎ طبری کی روایت میں حضرت علیؓ کے الفاظ یہ ہیں:میری بیعت خفیہ طریقے سے نہیں ہوسکتی۔ یہ مسلمانوں کی مرضی سے ہی ہونی چاہیے۔۱۶۳؎
حضرت علیؓ کی وفات کے وقت لوگوں نے پوچھا کہ ہم آپ کے صاحبزادے حضرت حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کریں؟ آپؓ نے جواب میں کہا:میں نہ تم کو اس کا حکم دیتا ہوں نہ منع کرتا ہوں‘ تم لوگ خود اچھی طرح دیکھ سکتے ہو۔۱۶۴؎ ایک شخص نے عین اس وقت جب کہ آپ اپنے صاحبزادوں کو آخری وصیت کر رہے تھے‘ عرض کیا کہ امیر المومنین آپ اپنا ولی عہد کیوں نہیں مقرر کر دیتے۔جواب میں فرمایا: میں مسلمانوں کو اسی حالت میں چھوڑوں گا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا تھا۔۱۶۵؎
ان واقعات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خلافت کے متعلق خلفائے راشدین اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا متفق علیہ تصوّر یہ تھا کہ یہ ایک انتخابی منصب ہے جسے مسلمانوں کے باہمی مشورے اور ان کی آزادانہ رضامندی سے قائم ہونا چاہیے۔ موروثی یا طاقت سے برسراقتدار آنے والی امارت اُن کی رائے میں صحیح نہ تھی۔
شوروی حکومت
یہ چاروں خلفا حکومت کے انتظام اور قانون سازی کے معاملے میں قوم کے اہل الرائے لوگوں سے مشورہ کیے بغیر کام نہیں کرتے تھے۔ سنن الدارمی میں حضرت میمون بن مہران کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا قاعدہ یہ تھا کہ جب ان کے پاس کوئی معاملہ آتا تو پہلے یہ دیکھتے تھے کہ اس معاملے میں کتاب اللہ کیا کہتی ہے۔ اگر وہاں کوئی حکم نہ ملتا تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے معاملے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے اور اگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی کوئی حکم نہ ملتا تھا تو قوم کے سرکردہ اور نیک لوگوں کو جمع کرکے مشورہ کرتے تھے‘ پھر جو رائے بھی سب کے مشورے سے قرار پاتی تھی اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔۱۶۶؎یہی طرز عمل حضرت عمرؓ کا بھی تھا۔۱۶۷؎
مشورے کے معاملے میں خلفائے راشدین کا تصور یہ تھا کہ اہل شوریٰ کو پوری آزادی کے ساتھ اظہار رائے کرنے کا حق ہے۔ اس معاملے میں خلافت کی پالیسی کو حضرت عمرؓ نے ایک مجلسِ مشاورت کی افتتاحی تقریر میں یوں بیان فرمایا ہے:
میں نے آپ لوگوں کو جس غرض کے لیے تکلیف دی ہے، وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مجھ پر آپ کے معاملات کی امانت کا جو بار ڈالا گیا ہے اُسے اٹھانے میں آپ میرے ساتھ شریک ہوں۔ میں آپ ہی کے افراد میں سے ایک فرد ہوں اور آج آپ ہی وہ لوگ ہیں جو حق کا اقرار کرنے والے ہیں۔ آپ میں سے جس کا جی چاہے مجھ سے اختلاف کرے اور جس کا جی چاہے میرے ساتھ اتفاق کرے۔ میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں۔۱۶۸؎
بیت المال کے امانت ہونے کا تصور
بیت المال کو وہ خدا اور خلق (public)کی امانت سمجھتے تھے۔ اس میں قانون کے خلاف کچھ آنے کو اور اس میں سے کچھ خرچ ہونے کو وہ جائز نہ رکھتے تھے۔ فرماںروائوں کی ذاتی اغراض کے لیے اس کا استعمال ان کے نزدیک حرام تھا۔ حضرت ابوبکرؓ جس روز خلیفہ ہوئے اس کے دوسرے دن کندھے پر کپڑے کے تھان رکھ کر بیچنے کے لیے نکلے (خلافت سے پہلے یہی ان کا ذریعۂ معاش تھا)۔ راستے میں حضرت عمرؓ ملے۔ انھوں نے کہا یہ آپ کیا کرتے ہیں؟ جواب دیا‘ اپنے بال بچوں کو کہاں سے کھلائوں۔ انھوں نے کہا: اب آپ کے اوپر مسلمانوں کی سربراہ کاری کا بار آپڑا ہے۔یہ کام اس کے ساتھ نہیں نبھ سکتا۔ چلیے‘ ابوعبیدہؓ (ناظم بیت المال) سے مل کر بات کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت ابوعبیدہؓ سے گفتگو کی گئی۔ انھوں نے کہا: ہم آپ کے لیے مہاجرین میں سے ایک عام آدمی کی آمدنی کا معیار سامنے رکھ کر ایک وظیفہ مقرر کیے دیتے ہیں، جو نہ ان کے سب سے زیادہ دولت مند کے برابر ہوگا، نہ سب سے غریب کے برابر۔ اس طرح ان کے لیے ایک وظیفہ مقرر کر دیا گیا جو تقریباً چار ہزار درہم سالانہ تھا، مگر جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے وصیت کی کہ میرے ترکے میں سے ۸ ہزار درہم بیت المال کو واپس کر دیے جائیں۔ یہ مال جب حضرت عمرؓ کے پاس لایا گیا تو انھوں نے کہا: خدا ابوبکرؓ پر رحمت فرمائے‘ اپنے بعد آنے والوں کو انھوںنے مشکل میں ڈال دیا۔۱۶۹؎
حضرت عمرؓ اپنی ایک تقریر میں بیان کرتے ہیں کہ بیت المال میں خلیفہ کا کیا حق ہے:
میرے لیے اللہ کے مال میں سے اس کے سوا کچھ حلال نہیں ہے کہ ایک جوڑا کپڑا گرمی کے لیے اور ایک جاڑے کے لیے اور قریش کے ایک اوسط آدمی کے برابر معاش اپنے گھر والوں کے لیے لے لوں۔ پھر میں بس ایک آدمی ہوں مسلمانوں میں سے۔۱۷۰؎
ایک اور تقریر میں وہ فرماتے ہیں:
میں اس مال کے معاملے میں تین باتوں کے سوا کسی چیز کو صحیح نہیں سمجھتا: حق کے ساتھ لیا جائے۔ حق کے مطابق دیا جائے اور باطل سے اس کو روکا جائے۔ میرا تعلق تمھارے اس مال کے ساتھ وہی ہے جو یتیم کے ولی کا تعلق یتیم کے مال کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر میں محتاج نہ ہوں تو اس میں سے کچھ نہ لوں گا اور اگر محتاج ہوں تو معروف طریقے پر کھائوں گا۔۱۷۱؎
حضرت علیؓ کا جس زمانے میں حضرت معاویہؓ سے مقابلہ درپیش تھا‘ لوگوں نے ان کو مشورہ دیا کہ جس طرح حضرت معاویہؓ لوگوں کو بے تحاشا انعامات اور عطیے دے دے کر اپنا ساتھی بنا رہے ہیں آپ بھی بیت المال کا منہ کھولیں اور روپیہ بہا کر اپنے حامی پیدا کریں، مگر انھوں نے یہ کہہ کر ایسا کرنے سے انکار کردیا کہ کیا تم چاہتے ہو میں ناروا طریقوں سے کامیابی حاصل کروں؟۱۷۲؎ ان سے خود ان کے بھائی حضرت عقیلؓ نے چاہا کہ وہ بیت المال سے ان کو روپیہ دیں‘ مگر انھوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ: کیا تم چاہتے ہو کہ تمھارا بھائی مسلمانوں کا مال تمھیں دے کر جہنم میں جائے؟۱۷۳؎
حکومت کا تصور
ان لوگوں کا تصور حکومت کیا تھا‘ فرماںروا ہونے کی حیثیت سے وہ اپنے مقام اور اپنے فرائض کے متعلق کیا خیالات رکھتے تھے اور اپنی حکومت میں کس پالیسی پر عامل تھے؟ ان چیزوں کو انھوں نے خود خلافت کے منبر سے تقریریں کرتے ہوئے برسرعام بیان کر دیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کی پہلی تقریر جو انھوں نے مسجدِ نبویؐ میں عام بیعت کے بعد کی‘ اس میں وہ کہتے ہیں:
میں آپ لوگوں پر حکمران بنایا گیا ہوں حالانکہ میں آپ کا سب سے بہتر آدمی نہیں ہوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ میں نے یہ منصب اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا ہے۔ نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ مجھے ملے۔ نہ میں نے کبھی خدا سے اس کے لیے دعا کی۔ نہ میرے دل میں کبھی اس کی حرص پیدا ہوئی۔ میں نے تو اسے بادلِ نخواستہ اس لیے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں فتنۂ اختلاف اور عرب میں فتنۂ ارتداد برپا ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ میرے لیے اس منصب میں کوئی راحت نہیں ہے‘ بلکہ یہ ایک بارِ عظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے‘ جس کے اٹھانے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے‘ اِلاَّیہ کہ اللہ ہی میری مدد فرمائے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ میرے بجائے کوئی اور یہ بار اٹھالے۔ اب بھی اگر آپ لوگ چاہیں تو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی اور کو اس کام کے لیے چن لیں‘ میری بیعت آپ کے راستے میں حائل نہ ہوگی۔ آپ لوگ اگر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معیار پر جانچیں گے اور مجھ سے وہ توقعات رکھیں گے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ رکھتے تھے تو میں اس کی طاقت نہیں رکھتا‘ کیونکہ وہ شیطان سے محفوظ تھے اور ان پر آسمان سے وحی نازل ہوتی تھی۔ اگر میں ٹھیک کام کروں تو میری مدد کیجیے‘ اگر غلط کام کروں تو مجھے سیدھا کر دیجیے۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تمھارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے، یہاں تک کہ میں اس کا حق اسے دلوائوں اگر خدا چاہے اور تم میں سے جو طاقت ور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں اگر خدا چاہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی قوم اللہ کی راہ میں جدوجہد چھوڑ دے اور اللہ اُس پر ذلت مسلط نہ کر دے اور کسی قوم میں فواحش پھیلیں اور اللہ اس کو عام مصیبت میں مبتلا نہ کر دے۔ میری اطاعت کرو جب تک میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع رہوں اور اگر میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تو میری کوئی اطاعت تم پر نہیں ہے۔ میں پیروی کرنے والا ہوں‘ نئی راہ نکالنے والا نہیں ہوں۔۱۷۴؎
حضرت عمرؓ اپنے ایک خطبے میں کہتے ہیں:
لوگو! کوئی حق والا اپنے حق میں اس مرتبے کو نہیں پہنچا ہے کہ اللہ کی معصیت میں اس کی اطاعت کی جائے…… لوگو! مجھ پر تمھارے جو حقوق ہیں وہ میں تم سے بیان کیے دیتا ہوں‘ ان پر تم مجھے پکڑ سکتے ہو۔ مجھ پر تمھارا یہ حق ہے کہ میں تمھارے خراج یا اللہ کے عطا کردہ فے میں سے کوئی چیز نہ وصول کروں، مگر قانون کے مطابق اور مجھ پر تمھارا یہ حق ہے کہ جو کچھ مال اس طرح میرے پاس آئے ان میں سے کچھ نہ نکلے، مگر حق کے مطابق۔۱۷۵؎
حضرت ابوبکرؓ جب شام و فلسطین کی مہم پر حضرت عمرؓو بن العاص کو روانہ کر رہے تھے‘ اس وقت انھوں نے جو ہدایات ان کو دیں، ان میں وہ فرماتے ہیں:
اے عمرو! اپنے کھلے اور چھپے ہر کام میں خدا سے ڈرتے رہو، اور اس سے حیا کرو‘ کیونکہ وہ تمھیں اور تمھارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے…… آخرت کے لیے کام کرو اور اپنے ہر عمل میں خدا کی رضا کو پیشِ نظر رکھو۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس طرح پیش آئو جیسے وہ تمھاری اولاد ہیں۔ لوگوں کے راز نہ ٹٹولو اور ان کے ظاہر پر ہی ان سے معاملہ کرو…… اپنے آپ کو درست رکھو۔ تمھاری رعیت بھی درست رہے گی۔۱۷۶؎
حضرت عمرؓ جن لوگوں کو عامل بنا کر کہیں بھیجتے تھے ان کو خطاب کرکے کہتے:
میں تم لوگوں کو امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لیے عامل مقرر نہیں کر رہا ہوں کہ تم ان کے بالوں اور ان کی کھالوں کے مالک بن جائو، بلکہ میں اس لیے تمھیں مقرر کرتا ہوں کہ تم نماز قائم کرو‘ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کرو، اور عدل کے ساتھ ان کے حقوق تقسیم کرو۔۱۷۷؎
ایک مرتبہ انھوں نے برسر عام اعلان کیا کہ:میں نے اپنے عاملوں کو اس لیے نہیں بھیجا ہے کہ وہ تم لوگوں کو پیٹیں اور تمھارے مال چھینیں‘ بلکہ اس لیے بھیجا ہے کہ تمھیں تمھارا دین اور تمھارے نبیؐ کا طریقہ سکھائیں۔ جس شخص کے ساتھ اس کے خلاف عمل کیا گیا ہو، وہ میرے پاس شکایت لائے۔ خدا کی قسم میں اس سے بدلہ لوں گا۔ اس پر حضرت عمرؓو بن العاص (مصر کے گورنر) نے اٹھ کر کہا:اگر کوئی شخص مسلمانوں کا والی ہو، اور تادیب کی غرض سے کسی کو مارے تو کیا آپ اس سے بدلہ لیں گے؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا:ہاں‘ خدا کی قسم! میں اُس سے بدلہ لوں گا۔ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات سے بدلہ دیتے دیکھا ہے۔۱۷۸؎
ایک اور موقع پر حضرت عمرؓ نے اپنے تمام گورنروں کو حج میں طلب کیا اور مجمع عام میں کھڑے ہو کر کہا کہ ان لوگوں کے خلاف جس شخص کو کسی ظلم کی شکایت ہو وہ پیش کرے۔ پورے مجمعے میں سے صرف ایک شخص اٹھا اور اس نے عمروؓ بن العاص کی شکایت کی کہ انھوں نے ناروا طور پر مجھے سوکوڑے لگوائے تھے۔ حضرت عمرؓ نے کہا اٹھو اور ان سے اپنا بدلہ لو۔ عمروؓ بن العاص نے احتجاج کیا کہ آپ گورنروں پر یہ دروازہ نہ کھولیں، مگر انہوں نے کہا کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنے آپ سے بدلہ دیتے دیکھا ہے‘ اے شخص اٹھ اور اپنا بدلہ لے لے۔ آخر کار عمروؓ بن العاص کو ہر کوڑے کے بدلے دو اشرفیاں دے کر اپنی پیٹھ بچانی پڑی۔۱۷۹؎
قانون کی بالاتری
یہ خلفا اپنی ذات کو بھی قانون سے بالاتر نہیں رکھتے تھے، بلکہ قانون کی نگاہ میں اپنے آپ کو اور مملکت کے ایک عام شہری (مسلمان ہو یا ذمی) کو مساوی قرار دیتے تھے۔ قاضیوں کو اگرچہ رئیس مملکت ہونے کی حیثیت سے وہی مقرر کرتے تھے‘ مگر ایک شخص قاضی ہو جانے کے بعد خود ان کے خلاف فیصلہ دینے میں بھی ویسا ہی آزاد تھا جیسا کسی عام شہری کے معاملے میں۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ اور حضرت اُبیّ بن کعبؓ کا ایک معاملے میں اختلاف ہوگیا اور دونوں نے حضرت زید بن ثابتؓ کو حَکم بنایا۔ فریقین زید کے پاس حاضر ہوئے۔ زید نے اٹھ کر حضرت عمرؓ کو اپنی جگہ بٹھانا چاہا‘ مگر حضرت عمرؓ حضرت اُبیؓ کے ساتھ بیٹھے۔ پھر حضرت اُبیّ نے اپنا دعویٰ پیش کیا اور حضرت عمرؓ نے دعوے سے انکار کیا۔ قاعدے کے مطابق حضرت زیدؓکو حضرت عمرؓسے قسم لینی چاہیے تھی‘ مگر انھوں نے ان سے قسم لینے میں تامل کیا۔ حضرت عمرؓ نے خود قسم کھائی‘ اور اس مجلس کے خاتمے پر کہا: زید قاضی ہونے کے قابل نہیں ہوسکتے جب تک کہ عمرؓ اور ایک عام مسلمان ان کے نزدیک برابر نہ ہو۔۱۸۰؎
ایسا ہی معاملہ حضرت علیؓ کا ایک عیسائی کے ساتھ پیش آیا جس کو انھوں نے کوفہ کے بازار میں اپنی گم شدہ زرہ بیچتے ہوئے دیکھا تھا۔ انھوں نے امیر المومنین ہونے کی حیثیت سے اپنی زرہ اس سے چھین نہیں لی، بلکہ قاضی کے پاس استغاثہ کیا اور چونکہ وہ کوئی شہادت پیش نہ کرسکے، اس لیے قاضی نے ان کے خلاف فیصلہ دے دیا۔۱۸۱؎
ابن خلکان کی روایت ہے کہ ایک مقدمے میں حضرت علیؓ اور ایک ذمی، فریقین کی حیثیت سے قاضی شریح کی عدالت میں حاضر ہوئے۔ قاضی نے اٹھ کر حضرت علیؓ کا استقبال کیا۔ اس پر انھوں نے فرمایا:یہ تمھاری پہلی بے انصافی ہے۔۱۸۲؎
عصبیتوں سے پاک حکومت
اسلام کے ابتدائی دور کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ اس زمانے میں ٹھیک ٹھیک اسلام کے اصول اور اس کی روح کے مطابق قبائلی‘ نسلی اور وطنی عصبیتوں سے بالاتر ہو کر تمام لوگوں کے درمیان یکساں سلوک کیا گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب کی قبائلی عصبیتیں ایک طوفان کی طرح اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ مدعیانِ نبوت کے ظہور اور ارتداد کی تحریک میں یہی عامل سب سے زیادہ مؤثر تھا۔ مسیلمہ کے ایک پیرو کا قول تھا کہ: میں جانتا ہوں کہ مسیلمہ جھوٹا ہے‘ مگر ربیعہ کا جھوٹا مضر کے سچے سے اچھا ہے۔۱۸۳؎
ایک دوسرے مدعی نبوت طلیحہ کی حمایت میں بنی غطفان کے ایک سردار نے کہا تھا کہ خدا کی قسم! اپنے حلیف قبیلوں کے ایک نبی کی پیروی کرنا قریش کے نبی کی پیروی سے مجھ کو زیادہ محبوب ہے۔۱۸۴؎ مگر اس ماحول میں جب حضرت ابوبکرؓ (۱۱ھ۔۱۳ھ، ۶۳۲ء۔۶۳۴ء) اور ان کے بعد حضرت عمرؓ(۱۳ھ۔۲۴ھ،۶۳۴۔۶۴۵ء) نے بے لاگ اور غیر متعصبانہ طریقے سے نہ صرف تمام عرب قبائل‘ بلکہ غیر عرب نو مسلموں کے ساتھ بھی منصفانہ برتائو کیا اور خود اپنے خاندان اور قبیلے کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے سے قطعی مجتنب رہے تو ساری عصبیتیں دب گئیں اور مسلمانوں میں وہ بین الاقوامی روح ابھر آئی جس کا اسلام تقاضا کرتا تھا۔ اس لحاظ سے ان دونوں خلفا کا طرز عمل درحقیقت مثالی تھا۔
حضرت عمرؓ کو اپنے آخر زمانے میں اس بات کا خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں ان کے بعد عرب کی یہ قبائلی عصبیتیں (جو اسلامی تحریک کے زبردست انقلابی اثر کے باوجود بالکل ختم نہیں ہوگئی تھیں) پھر نہ جاگ اٹھیں اور ان کے نتیجے میں اسلام کے اندر فتنے برپا ہوں۔ چنانچہ ایک مرتبہ اپنے امکانی جانشینوں کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس سے حضرت عثمانؓ کے متعلق کہا:اگر میں ان کو اپنا جانشین تجویز کروں تو وہ بنی ابی معیط (بنی امیہ) کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط کر دیں گے اور وہ لوگوں میں اللہ کی نافرمانیاں کریں گے۔ خدا کی قسم! اگر میں نے ایسا کیا تو عثمانؓ یہی کریں گے‘ اور اگر عثمانؓ نے یہ کیا تو وہ لوگ ضرور معصیتوں کا ارتکاب کریں گے اور عوام شورش برپا کرکے عثمانؓ کو قتل کر دیں گے۔۱۸۵؎ اسی چیز کا خیال ان کو اپنی وفات کے وقت بھی تھا۔ چنانچہ آخری وقت میں انھوں نے حضرت علیؓ ‘حضرت عثمانؓ اور حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کو بلاکر ہر ایک سے کہا کہ اگر میرے بعد تم خلیفہ ہو تو اپنے قبیلے کے لوگوں کو عوام کی گردنوں پر سوار نہ کردینا۔۱۸۶؎مزید برآں چھ آدمیوں کی انتخابی شوریٰ کے لیے انھوں نے جو ہدایات چھوڑیں ان میں دوسری شرطوں کے ساتھ ایک شرط یہ بھی شامل کی کہ منتخب خلیفہ سے عہد لیا جائے کہ وہ اپنے قبیلے کے ساتھ کوئی امتیازی برتائو نہ کرے گا۱۸۷؎ مگر بدقسمتی سے خلیفۂ ثالث حضرت عثمانؓ (۲۴ھ۔۳۵ھ،۶۴۵ء۔۶۵۵ء) اس معاملے میں معیارِ مطلوب کو قائم نہ رکھ سکے۔ ان کے عہد میں بنی امیہ کو کثرت سے بڑے بڑے عہدے اور بیت المال سے وظیفے دیے گئے اور دوسرے قبیلے اسے تلخی کے ساتھ محسوس کرنے لگے۔ ان کے نزدیک یہ صلہ رحمی کا تقاضا تھا۔ چنانچہ وہ کہتے تھے کہ:عمر خدا کی خاطر اپنے اقربا کو محروم کرتے تھے اور میں خدا کی خاطر اپنے اقربا کو دیتا ہوں۔۱۸۸؎ابوبکر و عمر بیت المال کے معاملے میں اس بات کو پسند کرتے تھے کہ خود بھی خستہ حال رہیں اور اپنے اقربا کو بھی اسی حالت میں رکھیں، مگر میں اس میں صلہ رحمی کرنا پسند کرتا ہوں۔۱۸۹؎اس کا نتیجہ آخر کار وہی ہوا جس کا حضرت عمرؓ کو اندیشہ تھا۔ ان کے خلاف شورش برپا ہوئی اور صرف یہی نہیں کہ وہ خود شہید ہوئے‘ بلکہ قبائلیت کی دبی ہوئی چنگاریاں پھر سلگ اٹھیں جن کا شعلہ خلافتِ راشدہ کے نظام ہی کو پھونک کر رہا۔
حضرت عثمانؓ کے بعد حضرت علیؓ (۳۵ھ۔۴۰ھ‘ ۶۵۵۔۶۶۰ء) نے پھر اس معیار پر کام کرنے کی کوشش کی جو حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے قائم کیا تھا۔ وہ قبائلی تعصب سے بالکل پاک تھے۔ حضرت معاویہؓ کے والد حضرت ابوسفیانؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کے وقت ان کے اندر اس تعصب کی روح کو ابھارنے کی کوشش کی تھی‘ مگر انھوں نے یہ راہ اختیار کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ ابوسفیانؓ نے ان سے کہا تھا کہ:قریش کے سب سے چھوٹے قبیلے کا آدمی (ابوبکرؓ) کیسے خلیفہ بن گیا‘ تم اٹھنے کے لیے تیار ہو تو میں وادی کو سواروں اور پیدلوں سے بھردوں، مگر انھوں نے صاف جواب دے دیا کہ: تمھاری یہ بات اسلام اور اہلِ اسلام کی دشمنی پر دلالت کرتی ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ تم کوئی سوار اور پیادے لائو۔ مسلمان سب ایک دوسرے کے خیر خواہ اور آپس میں محبت کرنے والے ہوتے ہیں‘ خواہ ان کے دیار اور ان کے اجسام ایک دوسرے سے کتنے ہی دور ہوں، البتہ منافقین ایک دوسرے کی کاٹ کرنے والے ہوتے ہیں۔ ہم ابوبکرؓ کو اس منصب کا اہل سمجھتے ہیں۔ اگر وہ اہل نہ ہوتے تو ہم لوگ کبھی انھیں اس پر مامور نہ ہونے دیتے۔۱۹۰؎
یہی حضرت علیؓ کا نقطۂ نظر خلیفہ ہونے کے بعد بھی رہا۔ جب وہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ٹھیک اسلامی اصول کے مطابق عربی اور عجمی‘ شریف اور وضیع‘ ہاشمی اور غیر ہاشمی‘ سب کے ساتھ یکساں انصاف کا معاملہ کرنا شروع کیا اور کسی گروہ کو کسی دوسرے گروہ کے مقابلے میں ایسے ترجیحی سلوک سے نوازنا پسند نہ کیا جو دوسرے گروہوں میں رشک و رقابت کے جذبات ابھار دینے والا ہو۔
رُوحِ جمہوریت
اس خلافت کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ اس میں تنقید اور اظہار رائے کی پوری آزادی تھی اور خلفا ہر وقت اپنی قوم کی دسترس میں تھے۔ وہ خود اپنے اہلِ شوریٰ کے درمیان بیٹھتے اور مباحثوں میں حصہ لیتے تھے۔ ان کی کوئی سرکاری پارٹی نہ تھی‘ نہ ان کے خلاف کسی پارٹی کا کوئی وجود تھا۔ آزادانہ فضا میں ہر شریکِ مجلس اپنے ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیتا تھا۔ تمام معاملات اہلِ حل و عقد کے سامنے بے کم و کاست رکھ دیے جاتے اور کچھ چھپا کر نہ رکھا جاتا۔ فیصلے دلیل کی بنیاد پر ہوتے تھے، نہ کہ کسی کے رعب و اثر‘ یا کسی کے مفاد کی پاس داری‘ یا کسی جتھہ بندی کی بنیاد پر۔ پھر یہ خلفا اپنی قوم کا سامنا صرف شوریٰ کے واسطے ہی سے نہ کرتے تھے‘ بلکہ براہ راست ہر روز پانچ مرتبہ نماز باجماعت میں‘ ہر ہفتے ایک دفعہ جمعہ کے اجتماع میں‘ ہر سال عیدین اور حج کے اجتماعات میں ان کو قوم سے اور قوم کو ان سے سابقہ پیش آتا تھا۔ ان کے گھر عوام کے درمیان تھے اور کسی حاجب و دربان کے بغیر ان کے دروازے ہر شخص کے لیے کھلے ہوئے تھے۔ وہ بازاروں میں کسی محافظ دستے اور ہٹو بچو کے اہتمام کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان تمام مواقع پر ہر شخص کو انھیں ٹوکنے‘ ان پر تنقید کرنے اور ان سے محاسبہ کرنے کی کھلی آزادی تھی اور اس آزادی کے استعمال کی وہ محض اجازت ہی نہ دیتے تھے‘ بلکہ اس کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی خلافت کی پہلی ہی تقریر میں‘ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے‘ علی الاعلان کہہ دیا تھا کہ: اگر میں سیدھا چلوں تو میری مدد کرو‘ اگر ٹیڑھا ہو جائوں تو مجھے سیدھا کر دو۔
حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں اس رائے کا ظہار کیا کہ کسی شخص کو نکاح میں چار سو درہم سے زیادہ مہر باندھنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایک عورت نے انھیں وہیں ٹوک دیا کہ آپ کو ایسا حکم دینے کا حق نہیں ہے۔ قرآن‘ ڈھیرسا مال (قِنْطار)‘ مہر میں دینے کی اجازت دیتا ہے۔ آپ اس کی حد مقرر کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فوراً اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔۱۹۱؎ ایک اور موقع پر بھر ے مجمعے میں حضرت سلمان فارسیؓ نے ان سے محاسبہ کیا کہ سب کے حصے میں ایک ایک چادر آئی ہے۔آپ نے دو چادریں کیسے لے لیں۔ حضرت عمرؓ نے اسی وقت اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ کی شہادت پیش کر دی کہ دوسری چادر انھوں نے اپنے والد کو مستعار دی ہے۔۱۹۲؎ ایک دفعہ اپنی مجلس میں انھوں نے لوگوں سے پوچھا: اگر میں بعض معاملات میں ڈھیل اختیار کرلوں تو تم کیا کرو گے۔ حضرت بشر بن سعدؓ نے کہا: اگر آپ ایسا کریں گے تو ہم آپ کو تیر کی طرح سیدھا کر دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تب تو تم کام کے لوگ ہو۔۱۹۳؎ سب سے زیادہ سخت تنقیدوں سے حضرت عثمانؓ کو سابقہ پیش آیا اور انھوں نے کبھی کسی کا منہ زبردستی بند کرنے کی کوشش نہ کی‘ بلکہ ہمیشہ اعتراضات اور تنقیدوں کے جواب میں برسرعام اپنی صفائی پیش کی۔
حضرت علیؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں خوارج کی انتہائی بدزبانیوں کو بڑے ٹھنڈے دل سے برداشت کیا۔ ایک مرتبہ پانچ خارجی ان کے پاس گرفتار کرکے لائے گئے جو علی الاعلان ان کو گالیاں دے رہے تھے اور ان میں سے ایک برسرعام کہہ رہا تھا کہ خدا کی قسم! میں علیؓ کو قتل کر دوں گا، مگر حضرت علیؓ نے ان سب کو چھوڑ دیا اور اپنے آدمیوں سے فرمایا کہ ان کی بدزبانی کا جواب تم چاہو تو بدزبانی سے دے لو‘ مگر جب تک وہ عملاً کوئی باغیانہ کارروائی نہیں کرتے، محض زبانی مخالفت کوئی ایسا جرم نہیں ہے جس کی وجہ سے ان پر ہاتھ ڈالا جائے۔۱۹۴؎
خلافت ِ راشدہ کا یہ دور جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے‘ ایک روشنی کا مینار تھا جس کی طرف بعد کے تمام ادوار میں فقہا و محدثین اور عام دین دار مسلمان ہمیشہ دیکھتے رہے اور اسی کو اسلام کے مذہبی‘ سیاسی‘ اخلاقی اور اجتماعی نظام کے معاملے میں معیار سمجھتے رہے۔


شیئر کریں