۱۔ اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۰ۭ النساء58:4
اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان حکم (یا فیصلہ) کرو تو عدل کے ساتھ کرو)۔
۲۔ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۰ۭ اِعْدِلُوْا۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۰ۡ المائدہ 8:5
اور کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو‘ یہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔
یہ آیات اگرچہ وسیع ترین مفہوم میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر عدل کا پابند بناتی ہیں‘ مگر ظاہر ہے کہ ان کے اس تقاضے سے اسلامی ریاست آزاد نہیں ہوسکتی۔ لامحالہ اس کو بھی عدل ہی کا پابند ہونا چاہیے، بلکہ اسے تو بدرجۂ اولیٰ ہونا چاہیے‘ کیونکہ حکم بین الناس کا سب سے زیادہ طاقت ور ادارہ وہی ہے اور اگر اس کے حکم میں عدل نہ ہو تو پھر معاشرے میں اور کہیں عدل نہیں ہوسکتا۔
اب دیکھیے کہ جہاں تک ریاست کا تعلق ہے‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سنت سے حکم بین الناس میں عدل برتنے کا کیا طریقہ ثابت ہوتا ہے:
۱۔ حجۃ الوداع کے مشہور خطبے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی ریاست کے جن بنیادی اصولوں کا اعلان فرمایا تھا ان میں ایک اہم اصول یہ بھی تھا:
فَاِنَّ دِمَائَکُمْ وَاَمْوَا لَکُمْ وَاَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا۔ (بخاری)
یقیناً تمھاری جانیں اور تمھارے مال اور تمھاری آبروئیں ویسی ہی محترم ہیں جیسا آج حج کا یہ دن محترم ہے۔
اس اعلان میں مملکت اسلامیہ کے تمام شہریوں کو جان‘ مال اور آبرو کی حرمت کا بنیادی حق عطا کیا گیا ہے جس کا بہرحال ہر اس ریاست کو التزام کرنا ہوگا جو ’اسلامی ریاست‘ کے نام سے موسوم ہو۔۱۱۵؎
۲۔ یہ حرمت کس حال میں کس طرح ٹوٹ سکتی ہے؟ اس کا تعین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
(i ) فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَصَمُوْا مِنِّیْ دِمَائَھُمْ اِلاَّ بِحَقِّ اْلاِسْلَامِ وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللّٰہِ۔ (بخاری و مسلم)
پھر جب لوگ یہ کام (یعنی شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلوٰۃ و ایتائے زکوٰۃ) کر دیں تو وہ اپنی جانیں مجھ سے بچالیں گے‘ اِلاَّیہ کہ اسلام کے کسی حق کی بنا پر وہ مجرم ہوں اور ان کی نیتوں کا حساب لینا اللہ کے ذمے ہے۔
(ii ) فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَیْنَا دِمَائُ ھُمْ وَاَمْوَالُھُمْ اِلاَّ بِحَقِّھَا وَحِسَابُھُمْ عَلَی اَللّٰہِ۔ (بخاری و مسلم)
پس ان کی جان و مال ہم پر حرام ہیں الایہ کہ جان و مال ہی کا کوئی حق ان پر قائم ہو، اور ان کے باطن کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔
(iii) فَمَنْ قَاَلَھَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّیْ مَالَہ‘ وَنَفْسَہ‘ اِلاَّ بِحَقِّہٖ وَحِسَا بُہ‘ عَلَی اللّٰہِ(بخاری)
پھر جو اس کا (یعنی کلمہ توحید کا) قائل ہو جائے اس نے مجھ سے اپنا مال اور اپنا نفس بچا لیا الایہ کہ اللہ کا کوئی حق اس پر قائم ہو، اور اس کے باطن کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔
یہ احادیث اس باب میں ناطق ہیں کہ اسلامی ریاست میں کسی شہری کی آزادیِ نفس اور حرمتِ جان و مال و آبرو پر کوئی دست درازی نہیں کی جاسکتی جب تک کہ اسلامی قانون کی رُو سے اس پر (یا اس کے خلاف) کوئی حق ثابت نہ کر دیا جائے۔
۳۔ کسی پر (یا کسی کے خلاف) حق کا اِثبات کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یوں بیان فرماتے ہیں:
اِذَا جَلَسَ اِلَیْکَ الْخَصْمَانِ فَلاَ تَقْضِ بَیْنَھُمَا حَتّٰی تَسْمَعَ مِنَ الْاٰخَرِ کَمَا سَمِعْتَ مِنَ الْاَوَّلِ۔
(ابودائود، ترمذی، احمد)
جب تیرے سامنے دو فریق اپنا معاملہ لے کر بیٹھیں تو ان کا فیصلہ نہ کر جب تک کہ دوسرے کی بات بھی نہ سن لے جس طرح پہلے کی سنی ہے۔
اور حضرت عمرؓ ایک مقدمے کے فیصلے میں تصریح کرتے ہیں:
لَایُوْسَرُرَجُلٌ فِی الْاِسْلَامِ بِغَیْرِ عَدْلٍ۔ (موطا)
اسلام میں کوئی شخص عدل کے بغیر قید نہیں کیا جاسکتا۔
اس مقدمے کی جو تفصیل موطا میں دی گئی ہے اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عراق کے نومفتوح علاقے میں جھوٹی چغلیاں کھا کھا کر لوگ دوسروں کو پکڑوا رہے تھے۔ اس کی شکایت جب حضرت عمرؓ کے پاس لائی گئی تو آپ نے اس کے فیصلے میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں عدل سے مراد ’معروف عدالتی کارروائی‘(due process of law) اور اسے صفائی کا پورا موقع دیا جائے۔ اس کے بغیر اسلام میں کوئی شخص قید نہیں کیا جاسکتا۔
۴۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں جب خوارج کا ظہور ہوا‘ جو سرے سے ریاست ہی کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے‘ تو آپ نے انھیں لکھا کہ:
کُوْنُوْا حَیْثُ شِئْتُمْ وَبَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلاَّ تَسْفِکُوْا دَ مًا وَلَا تَقْطَعُوْا سَبِیْلاً وَلاَ تَظْلِمُوْا اَحَدًا فَاِنْ فَعَلْتُمْ نَبَذْتُ اِلَیْکُمُ الْحَرْبَ۔ (نیل الاوطار)
تم جہاں چاہو رہو۔ ہمارے اور تمھارے درمیان شرط یہ ہے کہ تم خون نہ بہائو اور بدامنی نہ پھیلائو اور کسی پر ظلم نہ کرو۔ اگر ان کاموں میں سے کوئی کام تم نے کیا تو میں تمھارے خلاف جنگ کروں گا۔
یعنی خیالات تم جو چاہو رکھو۔ تمھارے خیال اور نیت پر گرفت نہ کی جائے گی، البتہ اگر تم اپنے خیالات کے مطابق حکومت کا تختہ زبردستی الٹ دینے کی کوشش کرو گے تو یقیناً تمھارے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
ان تصریحات کے بعد اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ اسلامی تصور عدل کسی حال میں بھی انتظامیہ کو یہ اختیارات دینے کا روادار نہیں ہے کہ وہ معروف عدالتی کارروائی کے بغیر یوں ہی جس کو چاہیں پکڑیں‘ جسے چاہیں قید کر دیں‘ جسے چاہیں خارج البلد کریں‘ جس کی چاہیں زبان بندی کریں اور جسے چاہیں اظہارِ رائے کے وسائل سے محروم کر دیں۔ اس طرح کے اختیارات جو ریاست اپنی انتظامیہ کو دیتی ہو، وہ اسلامی ریاست ہرگز نہیں ہوسکتی۔
پھر حکم بین الناس میں عدل برتنے کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہم کو اسلام کی مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام میں صدر ریاست اور گورنروں اور اعلیٰ حکام اور عامۃ الناس‘ سب کے لیے ایک ہی قانون اور ایک ہی نظامِ عدالت ہے۔ کسی کے لیے کوئی قانونی امتیاز نہیں ہے‘ کسی کے لیے خاص عدالتیں نہیں ہیں اور کوئی قانون کی پکڑ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت میں خود اپنے آپ کو پیش کیا کہ جس کو میرے خلاف کوئی دعویٰ ہو وہ لائے اور اپنا حق وصول کرے۔ حضرت عمرؓ نے ایک والی ریاست جبلہ بن ایہم غسانی سے ایک بدوی کو قصاص دلوایا۔ حضرت عمروؓ بن العاص نے گورنروں کے لیے قانونی تحفظ کا مطالبہ کیا تو حضرت عمرؓ نے اسے ماننے سے صاف انکار کر دیا اور عام لوگوں کو یہ حق دیا کہ جس حاکم کے خلاف انھیں شکایت ہو اُسے کھلی عدالت میں لائیں۔