رئیس حکومت‘ وزراء‘ اہلِ شوریٰ اور حکام کے انتخاب میں کیا امور ملحوظ رہنے چاہییں‘ اس باب میں قرآن و سنت کی ہدایات یہ ہیں:
۱۔ اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ النساء58:4
اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (یعنی اعتماد کی ذمہ داریاں) اہل امانت (یعنی امین لوگوں) کے سپرد کرو۔
۲۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ الحجرات13:49
درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔
۳۔ خِیَارُ اَئِمَّتِکُمْ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ ویُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُ اَئِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تَبْغُضُوْ نَھُمْ وَیَبْغُضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ۔ (مسلم)
تمھارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور جن کو تم دعا دو اور وہ تمھیں دعا دیں اور تمھارے بدترین سردار وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں اور جن پر تم لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔
۴۔ اِنَّا وَاللّٰہِ لَا نُوَلِّیْ عَلٰی عَمَلِنَا ھٰذَا اَحَدًا سَاَلَہ‘ اَوْحَرَصَ عَلَیْہِ۔ (متفق علیہ)
خدا کی قسم! ہم اپنی اس حکومت کے کسی کام پر کسی ایسے شخص کو مقرر نہیں کرتے جو اس کی درخواست کرے یا اس کا حریص ہو۔
۵۔ اِنَّ اَخْوَنَکُمْ عِنْدَنَا مَنْ طَلَبَہ‘۔ (ابودائود)
ہمارے نزدیک تم میں سب سے بڑا خائن وہ شخص ہے جو اس کا خود طالب ہو۔
حدیث سے گزر کر یہ بات تاریخ کے صفحات پر بھی ثبت ہو چکی ہے کہ اسلام میں عہدوں کی طلب سخت ناپسندیدہ چیز ہے۔ چنانچہ قلقشندی اپنی کتاب ’’صبح الاعشیٰ‘‘ میں بیان کرتا ہے:
وَقَدْ اُثِرَعَنْ اَبِیْ بَکْرٍ رَضَیِ اللّٰہ عَنْہُ اَنَّہ‘ قَالَ سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ ھٰذَالْاَمْرِ فَقَالَ لِیْ یَااَبَابَکْرٍ ھُوَ لِمَنْ یَرْغَبُ عَنْہُ لَالِمَنْ یُجَاحِشُ عَلَیْہِ وَلِمَنْ یَتَضَائَلُ عَنْہُ لَالِمَنْ یَتَنَفَّجُ اِلَیْہِ ھُوَ لِمَنْ یُقَالُ ھُوَ لَکَ لَالِمَنْ یَّقُوْلُ ھُوَلِیْ۔۱۱۲؎
حضرت ابوبکرؓ سے ماثور ہے کہ آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امارت کے بارے میں دریافت کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اے ابوبکر! وہ اس کے لیے ہے جو اس سے بے رغبت ہو نہ کہ اس کے لیے جو اُس پر ٹوٹا پڑتا ہو۔ وہ اس کے لیے ہے جو اس سے بچنے کی کوشش کرے، نہ کہ اس کے لیے جو اس پر جھپٹے۔ وہ اس کے لیے ہے جس سے کہا جائے کہ یہ تیرا حق ہے، نہ کہ اس کے لیے جو خود کہے کہ یہ میرا حق ہے۔۱۱۳؎
یہ ہدایات اگرچہ محض اصولی ہدایات ہیں۔ ان میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ مطلوبہ صفات کے سرداروں اور نمائندوں کو منتخب کرنے اور ناپسندیدہ لوگوں کو روکنے کے لیے مشینری کیا ہو‘ لیکن بہرحال یہ وقت کے دستور سازوں کا کام ہے کہ ان ہدایات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مناسب عملی تدابیر تجویز کریں۔ انھیں انتخاب کا ایسا نظام سوچنا چاہیے جس سے امین اور متقی اور عوام کے محبوب اور خیر خواہ لوگ منتخب ہوں اور وہ لوگ نہ ابھر سکیں جو عوام کے ووٹ لے کر بھی عوام کے مبغوض ہوتے ہیں‘ جن پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہوتی ہے‘ جن کے حق میں لوگ بددعا کرتے ہیں اور جنھیں عہدے پیش نہیں کیے جاتے، بلکہ وہ خود عہدوں پر جھپٹتے ہیں۔