اجتماعی خلافت کے مذکورہ بالا تقاضے کو قرآن ان الفاظ میں واضح طور پر بیان کرتا ہے:
وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۰۠ الشوریٰ38:42
اور ان کاکام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے۔
اس آیت میں اسلامی نظامِ زندگی کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ اس میں تمام اجتماعی امور مشورے سے انجام پاتے ہیں۔ یہ صرف بیان خصوصیت ہی نہیں ہے، بلکہ اپنے فحوائے کلام کے لحاظ سے حکم بھی ہے اور اسی بنا پر کسی اجتماعی کام کو مشورے کے بغیر انجام دینا ممنوع ہے۔ چنانچہ خطیب بغدادی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ:
قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَلْاَمْرُ یَنْزِلُ بِنَا بَعْدَکَ لَمْ یَنْزِلْ فِیْہِ قُرْآنٌ وَلَمْ یُسْمَعْ مِنْکَ فِیْہِ شَیْ ٌٔ قَالَ اِجْمَعُوا الْعَابِدِیْنَ مِنْ اُمَّتِیْ وَاجْعَلُوْہُ بَیْنَکُمْ شُوْرٰی وَلَا تَقْضُوْا بِرَاْیِ وَاحِدٍ۔ (روح المعانی)
میںنے عرض کیا :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپؐ کے بعد کوئی معاملہ ایسا پیش آ جائے جس کے متعلق نہ قرآن میں کچھ اترا ہو، اور نہ آپؐ سے کوئی بات سنی گئی ہو؟ فرمایا: میری امت میں سے عبادت گزار لوگوں کو جمع کرو،۱۱۱؎ اور اسے آپس کے مشورے کے لیے رکھ دو اور کسی ایک شخص کی رائے پر فیصلہ نہ کرو۔
پھر اس شوریٰ کی اصل روح کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
مَنْ اَشَارَ عَلٰی اَخِیْہِ بِاَمْرٍ وَھُوَ یَعْلَمُ اَنَّ الرُّشْدَ فِیْ غَیْرِہٖ فَقَدْ خَانَہ‘ (ابودائود)
جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسی بات کا مشورہ دیا جس کے متعلق وہ خود جانتا ہو کہ صحیح بات دوسری ہے‘ تو اس نے دراصل اس کے ساتھ خیانت کی۔
یہ حکم نہایت وسیع الفاظ میں ہے اور اس میں شوریٰ کی کوئی خاص شکل مُعیّن نہیں کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے احکام ساری دنیا کے لیے ہیں اور ہمیشہ کے لیے ہیں۔ اگر شوریٰ کا کوئی خاص طریقہ مقرر کردیا جاتا تو وہ عالم گیر اور ابدی نہ ہوسکتا۔ شوریٰ براہ راست تمام لوگوں سے ہو،یا لوگوں کے نمائندوں سے؟ نمائندے عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوں، یا خواص کے ووٹوں سے؟ انتخاب مملکت گیر ہو یا صرف صدر مقام میں؟ انتخاب الیکشن کی صورت میں ہو، یا ایسے لوگ لے لیے جائیں جن کی نمائندہ حیثیت معلوم و معروف ہو؟ مجلسِ شوریٰ ایک ایوانی ہو یا دو ایوانی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا ایک جواب ہر سوسائٹی اور ہر تمدن کے لیے یکساں موزوں نہیں ہوسکتا۔ ان کے جواب کی مختلف صورتیں مختلف حالات کے لیے ہوسکتی ہیں اور حالات کی تبدیلی سے نئی نئی صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ اس لیے شریعت نے ان امور کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔ نہ کسی خاص شکل کا تعین کیا ہے اور نہ کسی خاص شکل کو ممنوع ہی قرار دیا ہے، البتہ اصولاً اوپر کی آیت اور اس کی توضیح کرنے والی احادیث میں تین باتیں لازم کر دی گئی ہیں:
۱۔ مسلمانوں کا کوئی اجتماعی کام مشورے کے بغیر انجام نہ پانا چاہیے۔ یہ چیز ملوکیت کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ اس لیے کہ حکومت کے معاملات میں سب سے اہم معاملہ تو خود رئیس حکومت کا تقرر ہے۔ اگر دوسرے معاملات میں مشورہ لازم ہے تو رئیس حکومت کا زبردستی مسلط ہو جانا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح یہ چیز ڈکٹیٹر شپ کو بھی ممنوع ٹھیراتی ہے‘ کیونکہ ڈکٹیٹر شپ کے معنی استبداد کے ہیں اور استبداد شوریٰ کی ضد ہے۔ اسی طرح دستور کو عارضی یا مستقل طور پر معطل کرنے کے اختیارات بھی اس حکم کی موجودگی میں رئیسِ مملکت کو نہیں دیے جاسکتے‘ کیونکہ تعطل کے دور میں لامحالہ وہ استبداد سے کام کرے گا اور استبداد ممنوع ہے۔
۲۔ معاملہ جن لوگوں کے اجتماعی کام سے متعلق ہو، ان سب کو مشورے میں شریک ہونا چاہیے‘ خواہ وہ براہِ راست شریک ہوں، یا اپنے معتمد علیہ نمائندوں کے واسطے سے شریک ہوں۔
۳۔ مشورہ آزادانہ اور بے لاگ اور مخلصانہ ہونا چاہیے۔ دبائو اور لالچ کے تحت ووٹ یا مشورہ لینا دراصل مشورہ نہ لینے کا ہم معنی ہے۔
پس دستور کی تفصیلات خواہ کچھ ہوں‘ اس میں شریعت کے یہ تینوں اصول بہرحال ملحوظ رہنے چاہییں۔ اس میں ایسی کوئی گنجائش نہ رکھی جانی چاہیے کہ کسی وقت بھی عوام سے یا ان کے معتمد علیہ نمائندوں سے مشورہ لیے بغیر حکومت کی جانے لگے۔ اس میں انتخابات کا ایسا نظام تجویز کیا جانا چاہیے جس سے پوری قوم شریکِ مشورہ ہوسکے اور اس میں ان اسباب کا سدباب ہونا چاہیے جن کے زیر اثر عوام سے، یا ان کے نمائندوں سے خوف یا لالچ یا فریب کے تحت رائے لینا ممکن ہو۔