اس وقت جب کہ ملک کے دستور کی ترتیب آخری مراحل میں ہے‘ اہلِ علم کا فرض ہے کہ دستور ساز اسمبلی کو ایک صحیح اسلامی دستور مرتب کرنے میں زیادہ سے زیادہ مدد دیں۔ اس سلسلے میں اپنی حد استطاعت تک جو کچھ خدمت ہم انجام دے سکتے تھے دیتے رہے ہیں۔ ۱۹۵۱ء کے آغاز میں تمام مسلم فرقوں کے نمائندہ علما نے بھی اسلامی ریاست کے ۲۲ بنیادی اصول بالاتفاق مرتب کرکے ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔۱۰۹؎ مگر کچھ لوگ برابر اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ ایک طرف مسلم عوام اور تعلیم یافتہ لوگوں کو اور دوسری طرف دستور ساز اسمبلی کے ارکان کو زیادہ سے زیادہ غلط فہمیوں میں مبتلا کریں۔ چنانچہ ان کی طرف سے بار بار یہ خیال مختلف الفاظ میں دہرایا جارہا ہے کہ قرآن میں دستور کے لیے کوئی رہنمائی نہیں کی گئی ہے اور اسلام کسی خاص طرز کی حکومت کا تقاضا نہیں کرتا اور ’اسلامی دستور‘ سرے سے کسی چیز کا نام ہی نہیں ہے۔ ان گمراہ کن باتوں کے پیچھے دلائل کچھ بھی نہیں ہیں‘ مگر زوال علم کے اس دور میں ذہنی پراگندگی پیدا کرنے کے لیے یہ شور و شغب اچھا خاصا موثر ہوسکتا ہے، اس لیے ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ ایک مختصر مضمون میں کتاب و سنت کی ان تمام تصریحات کو جمع کر دیا جائے جو دستوری احکام پر مشتمل ہیں‘ تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ آج تک علما جن اصولوں کو اسلام کے دستوری اصولوں کی حیثیت سے پیش کرتے رہے ہیں ان کے اصل مآخذ کیا ہیں اور اس کے ساتھ دستور ساز اسمبلی کے ارکان پر بھی خدا کی حجت تمام ہو جائے اور وہ یہ عذر کبھی پیش نہ کرسکیں کہ ہمیں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام بتائے نہیں گئے تھے۔
یہ مضمون اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے لکھا جارہا ہے۔اس میں ہم نمبروار ایک ایک دستوری مسئلے کے متعلق آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ درج کریں گے اور پھر ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے جائیں گے کہ ان سے کیا احکام نکلتے ہیں۔