اس کے بعد مجھے بتانا ہے کہ اسلام میں شہریوں کے بنیادی حقوق (fundamental rights) کیا قراردیے گئے ہیں:
۱۔ شہریوں کا اولین حق اسلام میں یہ ہے کہ ان کی جان‘ مال اور آبرو کی حفاظت کی جائے اور جائز قانونی وجوہ کے سوا اورکسی وجہ سے ان پر ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ اس چیز کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکثرت احادیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپؐ نے اپنا وہ مشہور خطبہ دیا تھا جس میں اسلامی نظامِ زندگی کے قواعد بیان فرمائے تھے۔ اس میں آپؐنے فرمایا:
اِنَّ دِمَا ئَکُمْ وَاَمْوَا لَکُمْ وَ اَعْرَاضَکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا۔ (بخاری)
تمھاری جانیں اور تمھارے مال اور تمھاری آبروئیں ویسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسی حج کے اس دن کی حرمت ہے۔
اس حرمت میں استثنا صرف ایک ہے اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اور حدیث میں اِلاَّ بِحَقِّ الِاْسْلَامِ کے الفاظ سے ادا فرماتے ہیں‘ یعنی اسلام کے قانون کی رو سے اگر کسی شخص پر جان یا مال یا آبرو کا حق واجب ہوتا ہو، تو وہ اس سے قانون کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق وصول کیا جائے گا۔
۲۔ دوسرا اہم حق شخصی آزادی کی حفاظت ہے۔ اسلام میں کسی شخص کی آزادی معروف قانونی طریقے پر اس کا جرم ثابت کیے بغیر اور اسے صفائی کا موقع دیے بغیر سلب نہیں کی جاسکتی۔ ابودائود میں یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ مدینے میں کچھ لوگ شبہے کی بنا پر گرفتار کیے گئے تھے۔ ایک صحابی نے عین خطبے کے دوران میں اٹھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ہمسایوں کو کس قصور میں پکڑا گیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ان کے اس سوال کو سن کر سکوت فرمایا، تاکہ کوتوال شہر اگر گرفتاری کے لیے کوئی معقول وجوہ رکھتا ہے تو اٹھ کر بیان کرے، لیکن جب تیسری مرتبہ ان صحابی نے اپنے سوال کا اعادہ کیا اور کوتوال نے کوئی وجہ بیان نہ کی تو آپؐ نے حکم صادر فرمایا کہخَلُّوْا لَہٗ جِیْرَانَہٗ (ابودائود۔ کتاب القضاء) اس کے ہمسایوں کو رہا کردو‘۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جب تک کسی شخص پر ایک متعین الزام لگا کر اس کو ثابت نہ کردیا جائے اسے قید نہیں کیا جاسکتا۔امام خطابی اپنی ’’معالم السنن‘‘ میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسلام میں حبس دو ہی قسم کا ہے۔
ایک: حبس عقوبت‘ یعنی یہ کہ عدالت سے سزا پا کر کوئی شخص قید کیا جائے۔
دوسرے حبس استظہار‘ یعنی ملزم کو بغرضِ تفتیش روک رکھنا۔ اس کے سوا حبس کی کوئی صورت اسلام میں نہیں ہے۔ (معالم السنن‘ کتاب القضاء)
یہی بات امام ابو یوسفؒ نے بھی اپنی ’’کتاب الخراج‘‘ میں لکھی ہے کہ:
کسی شخص کو محض تہمت کی بنا پر قید نہیں کیا جاسکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو مجرد الزام پر قید نہیں کر دیا کرتے تھے۔ ضروری ہے کہ مدعی اور مدعا علیہ عدالت میں حاضر ہوں۔ مدعی اپنا ثبوت پیش کرے اور اگر وہ اپنا الزام ثابت نہ کر سکے تو مدعا علیہ کو چھوڑ دیا جائے۔ (کتاب الخراج، ص ۱۰۷)
حضرت عمرؓ نے بھی ایک مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تھے کہ لَا یُوْسَرُرَجُلٌ فِی الْاِسْلَامِ بِغَیْرِ عَدْلٍ۔ (موطا‘ باب شرط الشاہد) ] اسلام میں کوئی شخص عدل کے بغیر قید نہیں کیا جاسکتا[ ۔
۳۔ تیسرا اہم حق رائے اور مسلک کی آزادی کا ہے۔ اس بات میں اسلامی قانون کی سب سے بہتر وضاحت حضرت علیؓ نے کی ہے۔ ان کے زمانے میں خوارج کا گروہ پیدا ہوا تھا جو آج کل کے انارکسٹ اور نہلسٹ (nehilist)گروہوں سے ملتا جلتا تھا۔ حضرت علیؓ کے زمانے میں وہ علانیہ اسٹیٹ کے وجود کی نفی کرتے تھے اور بزور شمشیر اس کو مٹانے پر تلے ہوئے تھے۔ حضرت علیؓ نے ان کو پیغام بھیجا:
کُوْنُوْا حَیْثُ شِئْتُمْ وَبَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَنْ لاَّ تَسْفِکُوْا دَمًا وَلَا تَقْطَعُوْا سَبِیْلاً وَلاَ تَظْلِمُوْا اَحَدًا۔ (نیل الاوطار، ج۷، ص ۱۳۹)
تم جہاں چاہو رہو، اور ہمارے اورتمھارے درمیان شرط یہ ہے کہ تم خون ریزی اور رہزنی نہ اختیار کرو،اور ظلم سے باز رہو۔
ایک دوسرے موقع پر حضرت علیؓ نے ان کو پیغام دیا کہ:
لَانَبْدَؤُکُمْ بِقِتَالٍ مَا لَمْ تَحَدِّ ثُوْا فَسَادًا۔ (نیل الاوطار، ج۷،ص۱۳۳)
جب تک تم فساد نہ کرو گے ہم تمھارے خلاف لڑائی کی ابتدا نہ کریں گے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ کوئی گروہ خیالات جو چاہے رکھے اور پُرامن طریقے سے جس طرح چاہے اپنے خیالات کا اظہار کرے‘ اسلامی مملکت اس کو نہ روکے گی‘ البتہ اگر وہ اپنے خیالات زبردستی (by violent means) مسلط کرنے اور نظام ملکی کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
۴۔ ایک اور حق جس پر اسلام میں بہت زور دیا گیا ہے یہ ہے کہ اسٹیٹ اپنے حدود میں کسی شہری کو زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہنے دے۔ اسی غرض کے لیے اسلام میں زکوٰۃ فرض کی گئی ہے جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
٭ تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِھِمْ فَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ۔ (بخاری و مسلم)
ان کے مال داروں سے لی جائے گی اور ان کے محتاجوں میں تقسیم کر دی جائے گی۔
پھر ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ اصول بیان فرماتے ہیں کہ:
٭ اَلسُّلْطَانُ وَلِیٌّ مَنْ لاَّ وَلِیَّ لَہ‘ (ابودائود‘ ترمذی‘ احمد‘ ابن ماجہ‘ دارمی)
حکومت ہر اس شخص کی ولی (دست گیر و مددگار) ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو۔
اور ایک دوسری حدیث میں آپؐ فرماتے ہیں کہ:
o مَنْ تَرَکَ کَلاًّ فَاِلَیْنَا۔ (بخاری و مسلم)
جس مرنے والے نے ذمے داریوں کا کوئی بار (مثلاً قرض یا بے سہارا کنبہ) چھوڑا ہو، وہ ہمارے ذمے ہے۔
اس معاملے میں اسلام نے ذمی شہریوں اور مسلم شہریوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ وہ مسلمان کی طرح ذمی کو بھی اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ اسٹیٹ اس کو بھوکا‘ ننگا اور بے ٹھکانہ نہ رہنے دے گا۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ ایک ذمی کو بھیک مانگتے دیکھا تو آپؐ نے فوراً اس کا جزیہ معاف کرکے اس کا وظیفہ مقرر کیا اور اپنے افسر خزانہ کو لکھا:
وَاللّٰہِ مَا اَنْصَفْنَاہُ اَکَلْنَا شَبِیْتَہ‘ ثُمَّ نَخُذْ لَہٗ عِنْدَالْھَرَمِ۔۱۰۷؎
خدا کی قسم ہم نے اس سے انصاف نہ کیا، اگر جوانی میں اس سے فائدہ اٹھایا اور بڑھاپے میں اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔
حضرت خالدؓ نے حیرہ کے غیر مسلموں کو جووثیقہ لکھ کر دیا تھا اس میں یہ صراحت تھی کہ جو شخص بوڑھا ہو جائے گا، یا جو کسی آفت کا شکار ہوگا، یا جو مفلس ہو جائے گا اس سے جزیہ وصول کرنے کے بجائے، مسلمانوں کے بیت المال سے اس کی اور اس کے کنبے کی کفالت کی جائے گی۔۱۰۸؎