اب شہریت کے مسئلے کو لیجیے۔ اسلام چونکہ ایک نظام فکر و عمل ہے اور اسی نظام کی بنیاد پر وہ ایک ریاست قائم کرتا ہے‘ اس لیے وہ اپنی ریاست میں شہریت کی دو قسمیں قرار دیتا ہے۔ پھر چونکہ راست بازی و حق گوئی اسلام کی اصل روح ہے‘ اس لیے وہ بغیر کسی مکرو فریب کے صاف صاف شہریت کی اس تقسیم کو بیان بھی کر دیتا ہے‘ دنیا کو دھوکا دینے کے لیے یہ طریقہ اختیار نہیں کرتا، کہ زبان سے اپنے سب شہریوں کو یکساں قرار دے اور عمل میں ان کے درمیان نہ صرف تمیز کرے، بلکہ ان کے ایک عنصر کو انسانی حقوق تک دینے میں بے انصافی سے کام لے‘ جیسا کہ امریکہ میں حبشیوں کا اور روس میں غیر اشتراکیوں کا اور تمام دنیا کی لادینی جمہوریتوں میں قومی اقلیتوں کا حال ہے۔
شہریت کی دو قسمیں جو اسلام نے کی ہیں‘ یہ ہیں:
ایک:مسلم،دوسرے: ذِمّی
۱۔ مسلم شہریوں کے باب میں قرآن کہتا ہے کہ:
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا۰ۚ الانفال72:8
جو لوگ ایمان لائے اور جنھوں نے ہجرت کی اور اپنی جان و مال سے راہ خدا میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو جگہ دی اور ان کی مدد کی‘ وہ ایک دوسرے کے ولی ہیں اور جو لوگ ایمان لائے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام میں) نہ آئے‘ تمھارے لیے ان کی ولایت میں سے کچھ نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں۔
اس آیت میں شہریت کی دو بنیادیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک: ایمان‘ دوسرے: دارالاسلام کی رعایا ہونا یا بن جانا۔ اگر کوئی شخص ایمان رکھتا ہو‘ مگر دارالکفر کی تابعیت ترک کرکے (جسے لفظ ہجرت سے تعبیر کیا گیا ہے) دارالاسلام میں نہ آبسے‘ تو وہ دارالاسلام کا شہری نہیں ہے۔ اس کے برعکس تمام ایسے اہل ایمان جو دارالاسلام کے باشندے ہوں‘ قطع نظر اس سے کہ وہ دارالاسلام ہی میں پیدا ہوئے ہوں، یا کسی دارالکفر سے ہجرت کرکے آئے ہوں۔۱۰۶؎ دارالاسلام کے یکساں شہری اور ایک دوسرے کے ولی (حامی و مددگار) ہیں۔
ان مسلم شہریوں پر اسلام نے اپنے پورے نظام کے اٹھانے کی ذمے داری ڈالی ہے‘ کیونکہ وہی اصولاً اس نظام کو حق مانتے ہیں۔ ان پر وہ اپنا پورا قانون نافذ کرتا ہے۔ ان کو اپنے تمام مذہبی‘ اخلاقی‘ تمدنی اور سیاسی احکام کا پابند کرتا ہے۔ ان کے ذمے اپنے سارے واجبات و فرائض عائد کرتا ہے۔ ان سے اپنی ریاست کی مدافعت کے لیے ہر قربانی کا مطالبہ کرتا ہے، اور پھر انھی کو یہ حق بھی دیتا ہے کہ اس ریاست کے اولی الامر کا انتخاب کریں‘ اس کو چلانے والی پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) میں شریک ہوں‘ اور اس کے کلیدی مناصب پر مقرر کیے جائیں، تاکہ اس اصولی ریاست کی پالیسی ٹھیک اس کے بنیادی اصولوں کے مطابق چل سکے۔ اس قاعدے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ عہدِ نبویؐ اور عہدِ خلافتِ راشدہ میں ایک مثال بھی اس امر کی نہیں مل سکتی کہ کسی ذمی کو مجلس شوریٰ کا رکن‘ یا کسی علاقے کا گورنر یا کہیں کا قاضی یا کسی شعبۂ حکومت کا وزیر، یا ناظم یا فوج کا کمانڈر بنایا گیا ہو یا خلیفہ کے انتخاب میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا ہو۔ حالانکہ ذمی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں موجود تھے اور خلافتِ راشدہ کے دور میں تو ان کی آبادی کروڑوں تک پہنچی ہوئی تھی۔ اگر فی الواقع ان امور میں حصہ لینا ان کا حق ہوتا تو ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اللہ کا نبی ان کی حق تلفی کیسے کرسکتا تھا اور نبی کے براہ راست تربیت یافتہ لوگ مسلسل ۳۰ برس، اس حق کو ادا کرنے سے کس طرح باز رہ سکتے تھے۔
۲۔ذمی شہریوں سے مراد وہ تمام غیر مسلم ہیں جو اسلامی ریاست کے حدود میں رہ کر اس کی اطاعت و وفاداری کا اقرار کریں‘ قطع نظر اس سے کہ وہ دار الاسلام میں پیدا ہوئے ہوں، یا باہر سے آکر ذمی بننے کی درخواست کریں۔ اس طرح کے شہریوں کو اسلام ان کے مذہب اور کلچر اور پرسنل لا کے تحفظ اور جان و مال و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے‘ ان پر صرف اپنے ملکی قوانین نافذ کرتا ہے‘ ان کو ملکی قوانین میں مسلمانوں کے ساتھ برابر کے حقوق دیتا ہے‘ ان کے لیے کلیدی مناصب کے سوا ہر قسم کی ملازمتوں کے دروازے کھلے رکھتا ہے‘ ان کو شہری آزادیوں میں مسلمانوں کے ساتھ برابر کا شریک کرتا ہے‘ ان کے ساتھ معاشی معاملات میں مسلمانوں سے الگ کوئی امتیازی سلوک روا نہیں رکھتا اور مملکت کے دفاع کی ذمے داری سے انھیں مستثنیٰ کرکے اس کا پورا بار صرف مسلمانوں پر ڈالتا ہے۔
ان دو قسم کی شہریتوں پر اور ان کی الگ الگ حیثیتوں پر اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ پہلے اس سلوک پر ایک نگاہ ڈال لے جو دنیا کی دوسری اصولی ریاستیں اپنے اصول کے نہ ماننے والوں سے اور قومی ریاستیں اپنے حدود میں رہنے والی قومی اقلیتوں سے کر رہی ہیں۔ درحقیقت یہ بات پورے چیلنج کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ایک ریاست کے اندر اس کی بنیادوں سے مختلف بنیادِ وجود رکھنے والوں کی موجودگی جو پیچیدگی پیدا کرتی ہے اس کو اسلام سے زیادہ انصاف‘ رواداری اورفیاضی کے ساتھ کسی دوسرے نظام نے حل نہیں کیا ہے۔ دوسروں نے اس پیچیدگی کو زیادہ تر دو ہی طریقوں سے حل کیا ہے، یا تو انھیں مٹا دینے کی کوشش کی ہے یا شودر بنا کر رکھا ہے۔ اسلام اس کے بجائے یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ انصاف کے ساتھ اپنے اصول کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان ایک حد قائم کر دیتا ہے۔ جو ماننے والے ہیں ان کو پوری طرح اپنے اصولوں کا پابند کرتا ہے اور ان اصولوں کے مطابق ریاست کانظام چلانے کی ذمے داری ان پر ڈال دیتا ہے اور جو ان اصولوں کو قبول نہیں کرتے ان کو صرف اسی حد تک پابند کرتا ہے جو ملک کے نظم کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے اور انھیں ریاست کا نظام چلانے کی ذمے داری سے سبکدوش کرنے کے بعد، ان کے تمام تمدنی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔