یہ اوصاف (qualifications)کا سوال اسلامی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت رکھتا ہے‘ حتیٰ کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی دستور کے چلنے یا نہ چلنے کا سارا نحصار ہی اس پر ہے۔
امارت اورمجلسِ شوریٰ کی رکنیت کے لیے ایک اہلیت تو قانونی نوعیت کی ہوتی ہے جس پر ایک ناظم انتخاب اور ایک جج جانچ اور پرکھ کر انتخاب کے لیے ایک شخص کے اہل (eligible) ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے، اور دوسری ایک اور قسم کی اہلیت بھی ہوتی ہے جس کا لحاظ کرکے اشخاص کو چھانٹنے اور تجویز کرنے اور ووٹ دینے والے اپنا فیصلہ صادر کرتے ہیں۔ پہلی قسم کی اہلیت ایک ملک کے کروڑوں باشندوں میں سے ہر ایک میں ہوتی ہے‘ مگر یہ دوسری قسم کی اہلیت ہی ہے جو عملاً ان میں سے چند ہی آدمیوں کو ابھار کر اوپر لاتی ہے۔ پہلی قسم کی اہلیت کے معیارات صرف دستور کی چند عملی دفعات (operative clauses)میں درج کرنے کے لیے ہوتے ہیں‘ لیکن یہ دوسری قسم کی اہلیت وہ ہے جس کے معیارات پورے دستور کی رُوح میں موجود ہونے چاہییں اور ایک دستور کی کامیابی کا انحصار اس پر ہے کہ جمہور کے ذہن کو تربیت دے کر صحیح انتخاب کے لیے تیار کیا جائے، تاکہ وہ ایسے ہی لوگوں کو منتخب کریں جو دستور کی روح کے مطابق اہلیت رکھتے ہوں۔
قرآن اور حدیث ان دونوں قسم کی اہلیتوں سے بحث کرتے ہیں۔ پہلی قسم کی اہلیت کے لیے انھوں نے چار معیار بتائے ہیں:
۱۔ مسلم ہونا۔ چنانچہ قرآن کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ۰ۚ النساء59:4
اے ایمان لانے والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی اور ان لوگوں کی جو تم میںسے اولی الامر ہوں۔
۲۔ مرد ہونا۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ النساء34:4
مرد عورتوں پر قوام ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لَنْ یُّفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً۔ (بخاری)
وہ قوم ہرگز فلاح نہ پائے گی جس نے اپنی زمام کارایک عورت کے سپرد کی ہو۔
۳۔ عاقل و بالغ ہونا۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا گیا ہے:
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَھَاۗءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِىْ جَعَلَ اللہُ لَكُمْ قِيٰـمًا النساء4:5
اور اپنے مال جنھیں اللہ نے تمھارے لیے ہستی کا سہارا بنایا ہے‘ نادان لوگوں کے حوالے نہ کرو۔
۴۔ دارالاسلام کا باشندہ ہونا۔ چنانچہ قرآن تصریح کرتا ہے:
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يُہَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَايَتِہِمْ مِّنْ شَيْءٍ حَتّٰي يُہَاجِرُوْا۰ۚ الانفال72:8
اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کرکے (دارالاسلام میں) نہ آگئے‘ تمہارا ان کی ولایت میں کوئی حصہ نہیں جب تک کہ ہجرت نہ کریں۔
یہ ہیں وہ چار قانونی صفات جن کے لحاظ سے ہر شخص امارت اور رکنیت شوریٰ کا اہل ہوسکتا ہے، مگر اس طرح کے بے شمار قانونی اہل اشخاص میں سے کن لوگوں کو ہمیں ان مناصب کے لیے چننا چاہیے اور کن کو نہ چننا چاہیے۔ اس سوال کا واضح جواب ہمیں قرآن اور حدیث میں یہ ملتا ہے:
۱۔ اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۰ۙ النساء58:4
اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں (یعنی ذمے داری کے مناصب) اہل امانت (یعنی امین) لوگوں کے سپرد کرو۔
۲۔ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ الحجرات13:49
تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔
۳۔ قَالَ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىہُ عَلَيْكُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ۰ۭ البقرہ247:2
نبیؐ نے کہا کہ اللہ نے حکمرانی کے لیے اس کو (یعنی طالوت کو) تم پر ترجیح دی ہے اور اس کو علم اور جسم میں فراوانی عطا کی ہے۔
۴۔ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًاo الکہف28:18
کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کرلی ہے اور جس کا کام حدود آشنا نہیں ہے۔
۵۔ مَنْ وَقَّرَ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ فَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ھَدْمِ الْاِسْلَامِ۔ (البیہقی)
جس نے کسی صاحب بدعت کی توقیر کی اس نے اسلام کو منہدم کرنے میں مدد دی۔
۶۔ اِنَّا وَ اللّٰہِ لَانُوَ لِّیْ عَلٰی عَمَلِنَا ھٰذَا اَحَدًا سَأَلَہ‘ اَوْحَرَصَ عَلَیْہِ۔ (بخاری و مسلم)
بخدا! ہم کسی ایسے شخص کو اپنی حکومت کے کسی منصب پر مقرر نہیں کرتے جس نے اس کی درخواست کی ہو یا جو اس کا حریص ہو۔
۷۔ اِنَّ اَخْوَنَکُمْ عِنْدَنَا مَنْ طَلَبَہ‘۔ (ابوداؤد)
ہمارے نزدیک تم میں سب سے بڑا خائن وہ ہے جو خود اس کا (کسی منصب کا)طالب ہو۔
ان اوصاف میں سے بعض کو تو ہم بَہ آسانی اپنے دستور کے عملی دفعات میں رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً:یہ کہ طالب منصب کو انتخاب کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔ رہے دوسرے اوصاف جن کے لیے کوئی قانونی حد متعین نہیں کی جاسکتی‘ تو ان کو ہمارے دستور کی اصولی ہدایات میں شامل ہونا چاہیے اور ناظمِ انتخابات کے فرائض میں یہ بات داخل ہونی چاہیے کہ وہ ہر انتخاب کے موقع پر عوام کو ان صفات سے باخبر کرنے کی کوشش کرے جو اسلام میں اولی الامر کے لیے مطلوب ہیں۔