اب اس مسئلے کو لے لیجیے کہ اسلام وہ کون سے بنیادی مقاصد (objectives)پیش کرتا ہے جن کے لیے ایک اسلامی ریاست کو کام کرنا چاہیے۔ قرآن مجید اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ان مقاصد کی جو توضیح کی گئی ہے وہ یہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ۰ۚ
الحدید 25:57
ہم نے اپنے رسول روشن دلائل کے ساتھ بھیجے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰہُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ۰ۭ الحج41:22
یہ مسلمان جن کو جنگ کی اجازت دی جارہی ہے وہ لوگ ہیں) جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار عطا کریں تو یہ نمازقائم کریں گے‘ زکوٰۃ دیں گے‘ نیکی کا حکم دیں گے اور بدی سے روکیں گے۔
اور حدیث میں ہے:
اِنَّ اللّٰہَ لَیَزَعُ بِالسُّلْطَانِ مَالَا یَزَعُ بِالْقُرْاٰنِ۔۱۰۱؎
اللہ حکومت کے ذریعے سے ان چیزوں کا سدباب کرتا ہے جن کا سدباب قرآن کے ذریعے سے نہیں کرتا۔
یعنی جو برائیاں قرآن کی نصیحت اور فہمائش سے نہ دور ہوں‘ ان کو مٹانے اور دبانے کے لیے حکومت کی طاقت درکار ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ایک اسلامی ریاست کے قیام کا اصل مقصد اس اصلاحی پروگرام کو مملکت کے تمام ذرائع سے عمل میں لانا ہے جو اسلام نے انسانیت کی بہتری کے لیے پیش کیا ہے۔ محض امن کا قیام‘ محض قومی سرحدوں کی حفاظت‘ محض عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنا، اس کا آخری اور انتہائی مقصد نہیں ہے۔ اس کی امتیازی خصوصیت جو اسے غیر مسلم ریاستوں سے ممتاز کرتی ہے‘ یہ ہے کہ وہ ان بھلائیوں کو فروغ دینے کی کوشش کرے جن سے اسلام انسانیت کو آراستہ کرنا چاہتا ہے اور وہ ان برائیوں کو مٹانے اور دبانے میں اپنی ساری طاقت خرچ کردے جن سے اسلام انسانیت کو پاک کرنا چاہتا ہے۔