رہی عملی شہادت، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگی میں اُن اصولوں کا عملاً مظاہرہ کریں جنھیں ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا صرف ہماری زبان ہی سے اُن کی صداقت کا ذکر نہ سنے، بلکہ خود اپنی آنکھوں سے، خود ہماری زندگی میں، اُن کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کر لے ۔ وہ ہمارے برتائو میں اُس شیرینی کا ذائقہ چکھ لے، جو ایمان کی حلاوت سے انسان کے اخلاق و معاملات میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ خود دیکھ لے کہ اس دین کی راہ نمائی میں کیسے اچھے انسان بنتے ہیں، کیسی عادل سوسائٹی تیار ہوتی ہے، کیسی صالح معاشرت وجود میں آتی ہے، کس قدر ستھرا اور پاکیزہ تمدن پیدا ہوتا ہے، کیسے صحیح خطوط پر علوم و آداب اور فنون کا نشو و نما ہوتا ہے، کیسا منصفانہ ، ہم دردانہ اور بے نزاع معاشی تعاون رونما ہوتا ہے، انفرادی و اجتماعی زندگی کا ہر پہلو کس طرح سدھر جاتا ہے، سنور جاتا ہے اور بھلائیوں سے مالا مال ہو جاتا ہے۔
اِس شہادت کا حق صرف اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ ہم فردًا فردًا بھی اور قومی حیثیت سے بھی، اپنے دین کی حقانیت پر مجسّم شہادت بن جائیں۔ ہمارے افراد کا کردار اُس کی صداقت کا ثبوت دے۔ ہمارے گھر اُس کی خوش بُو سے مہکیں۔ ہماری دُکانیں اور ہمارے کارخانے اُس کی روشنی سے جگمگائیں۔ ہمارے ادارے اور ہمارے مدرسے اُس کے نور سے منور ہوں۔ ہمارا لٹریچر اور ہماری صحافت اُس کی خوبیوں کی سند پیش کرے، ہماری قومی پالیسی اور اجتماعی سعی و جہد، اُس کے برحق ہونے کی روشن دلیل ہو ۔ غرض، ہم سے جہاں اور جس حیثیت میں بھی، کسی شخص یا قوم کو سابقہ پیش آئے وہ ہمارے شخصی اور قومی کردار میں اس بات کا ثبوت پا لے کہ جن اُصولوںکو ہم حق کہتے ہیں وہ واقعی حق ہیں اور اُن سے فی الواقع انسانی زندگی اصلح اور اعلیٰ و ارفع ہو جاتی ہے۔