قولی شہادت کی صورت یہ ہے کہ ہم زبان اور قلم سے دُنیا پر اُس حق کو واضح کریں جو انبیاکے ذریعے ہمیں پہنچا ہے۔ سمجھانے اور دل نشیں کرنے کے جتنے طریقے ممکن ہیں، اُن سب سے کام لے کر ،تبلیغ و دعوت اور نشر و اشاعت کے جتنے ذرائع ممکن ہیں اُن سب کو استعمال کرکے ، علم و فنون نے جس قدر مواد فراہم کیا ہے وہ سب اپنے ہاتھ میں لے کر، ہم دنیا کو اُس دین کی تعلیم سے روشناس کریں جو خدا نے انسان کے لیے مقرر کیا ہے۔ فکر و اعتقاد میں ، اخلاق و سیرت میں، تمدن و معاشرت میں ، کسبِ معاش اور لین دین میں ، قانون اور نظمِ عدالت میں ، سیاست اور تدبیرِ مملکت میں اور بین الانسانی معاملات کے تمام دُوسرے پہلوئوں میں ، اُس دین نے انسان کی راہ نُمائی کے لیے جو کچھ پیش کیا ہے، اُسے ہم خوب کھول کھول کر بیان کریں۔ دلائل اور شواہد سے اُس کا حق ہونا ثابت کر دیں، اور جو کچھ اُس کے خلاف ہے، اُس پر معقول تنقید کرکے بتائیں کہ اُس میں کیا خرابی ہے ۔
اِس قولی شہادت کا حق ادا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اُمّت مجموعی طور پر، ہدایتِ خلق کے لیے اُسی طرح فکرمند نہ ہو، جس طرح انبیاعلیہم السلام، انفرادی طور پر اُس کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے ۔ یہ حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ کام ہماری تمام اجتماعی کوششوں اور قومی سعی و جہد کا مرکزی نقطہ ہو۔ ہم اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں اور اپنے سارے وسائل و ذرائع اِس پر لگا دیں۔ ہمارے تمام کاموں میں یہ مقصد لازماً ملحوظ رہے، اور اپنے درمیان سے، کسی ایسی آواز کے اٹھنے کو تو کسی حال میں ہم برداشت ہی نہ کریں جو حق کے خلاف شہادت دینے والی ہو۔