یہ شہادت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں سے دلوائی، اس کی غرض، قرآن مجید میں صاف صاف یہی بتائی گئی ہے کہ لوگوں کو اللہ پر یہ حجت قائم کرنے کا موقع باقی نہ رہے کہ ہم بے خبر تھے اور آپ ہمیں اُس چیز پر پکڑتے ہیں جس سے ہمیں خبر دار نہ کیا گیا تھا(اس سلسلے میں فرمایا گیا:)
رُسُلًا مُّبَشِّرِيْنَ وَمُنْذِرِيْنَ لِئَلَّا يَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَي اللہِ حُجَّــۃٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِ۰ۭ وَكَانَ اللہُ عَزِيْزًا حَكِــيْمًا النسائ4:165
یہ سارے رسولؑ خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے، تا کہ انھیں مبعوث کردینے کے بعد، لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے، لوگوں کی حجت اپنے اُوپر سے اُتار کر، پیغمبروں پر ڈال دی، اور پیغمبر اِس اہم ذِمّہ داری کے منصب پر کھڑے کر دیے گئے کہ اگر وہ شہادتِ حق کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کر دیں تو لوگ اپنے اعمال پر خود باز پُرس کے مستحق ہوں، اور اگر اُن کی طرف سے ادائے شہادت میں کوتاہی ہو، تو لوگوں کی گم راہی و کوتاہی کا مواخذہ، پیغمبروں سے کیا جائے۔ دُوسرے الفاظ میں پیغمبروں کے منصب کی نزاکت یہ تھی کہ یا تو وہ حق کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا کر کے لوگوں پر حجت قائم کریں، ورنہ لوگوں کی حجت الٹی اُن پر قائم ہو جاتی تھی کہ خدا نے حقیقت کا جو علم، آپ حضرات کو دیا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ پہنچایا اور جو صحیح طریقِ زندگی اُس نے آپ کو بتایا تھا وہ آپ نے ہمیں نہ بتایا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاعلیہم السلام اپنے اوپر اس ذِمّہ داری کے بار کو، شدت کے ساتھ محسوس کرتے تھے اور اِسی بِنا پر انھوں نے اپنی طرف سے حق کی شہادت ادا کرنے اور لوگوں پر حجت تمام کر دینے کی جان توڑ کوششیں کیں۔