ہماری دعوت کا خطاب، ایک تو: ان لوگوں سے ہے جو پہلے سے مسلمان ہیں۔ دُوسرے: اُن تمام بند گانِ خدا سے جو مسلمان نہیں ہیں۔ اُن میں سے ہر ایک کے لیے ہمارے پاس ایک پیغام ہے، مگر افسوس ہے کہ یہاں دُوسرے گروہ کے لوگ مجھے نظر نہیں آتے ۔ یہ ہماری پچھلی غلطیوں اور آج کی بے تدبیریوں کا نتیجہ ہے کہ خدا کے بندوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہم سے دُور ہو گیا ہے اور مشکل ہی سے کبھی ہم یہ موقع پاتے ہیں کہ انھیں اپنے پاس بلا کر، یا خود اُن کے قریب جاکر وہ پیغام اُنھیں سنائیں، جواُن کے اور ہمارے خدا نے، ہم سب کی راہ نُمائی کے لیے، اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بھیجا ہے۔ بہرحال اب کہ وہ موجود نہیں ہیں، میں دعوت کے صرف اُس حصے کو پیش کروں گا جو مسلمانوں کے لیے خاص ہے۔
مسلمانوں کو ہم جس چیز کی طرف بلاتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ اُن ذِمّہ داریوں کو سمجھیں اور ادا کریں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے اُن پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ صرف اتنا کہہ کر نہیں چھوٹ سکتے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم نے خدا کو اور اُس کے دین کو مان لیا، بلکہ جب آپ نے خدا کو اپنا خدا اور اُس کے دین کو اپنا دین مانا ہے تو اس کے ساتھ آپ پر کچھ ذِمّہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں، جن کا آپ کو شعور ہونا چاہیے۔ جن کے ادا کرنے کی آپ کو فکر ہونی چاہیے۔ اگر آپ انھیں ادا نہ کریں گے تو اس کے وبال سے، نہ دنیا میں چھوٹ سکیں گے، نہ آخرت میں۔