اب پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کوئی حاکمیّت فی الواقع انسانی دائرے میں موجود بھی ہے؟ اور ہے تو وہ کہاں ہے؟ کس کو اس حاکمیت کا حامل کہا جا سکتا ہے؟
کیا کسی شاہی نظام میں واقعی کوئی بادشاہ ایسی حاکمیّت کا حامل ہے یا کبھی پایا گیا ہے یا پایا جا سکتا ہے؟ آپ کسی بڑے سے بڑے مختارِ مطلق فرمانروا کو لے لیجیے۔ اس کے اقتدار کا آپ تجزیہ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ اس کے اختیارات کو بہت سی خارجی چیزیں محدود کر رہی ہیں جو اس کے ارادے کی تابع نہیں ہیں۔
پھر کیا کسی جمہوری نظام میں کسی خاص جگہ انگلی رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ یہاں واقعی حاکمیّت موجود ہے؟ جس کو بھی آپ اس کا حامل قرار دیں گے، تجزیہ کرنے سے معلوم ہو گا کہ اس کے ظاہری اختیار مطلق کے پیچھے کچھ اور طاقتیں ہیں جن کے ہاتھ میں ا س کی باگیں ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ علم سیاست کے ماہرین حاکمیّت کا واضح تصوّر لے کر انسانی سوسائٹی کے دائرے میں اس کا واقعی مصداق تلاش کرتے ہیں تو انھیں سخت پریشانی پیش آتی ہے۔ کوئی قامت ایسا نہیں ملتا جس پر یہ جامہ راست آتا ہو۔ ا س لیے کہ انسانیت کے دائرے میں، بلکہ درحقیقت مخلوقات کے دائرے میں اس قامت کی کوئی ہستی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن بار بار کہتا ہے کہ فی الواقع حاکمیّت کا حامل صرف ایک خدا ہے۔ وہی مختارِ مطلق ہے (فَعَّالُ لِّمَا یُرِیْدُ) وہی غیر مسئول اور غیر جواب دہ ہے (لَا یُسْئَلُ عَمَّایَفعَلُ) وہی تمام اقتدار کا مالک ہے (بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیءٍ) وہی ایک ہستی ہے جس کے اختیارات کو محدود کرنے والی کوئی طاقت نہیں ہے (وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ) اور اسی کی ذات منزّہ عن الخطا ہے (اَلمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ)