Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی نظامِ تعلیم
قدیم نظامِ تعلیم
جدید نظامِ تعلیم
ایک انقلابی قدم کی ضرورت
مقصد کا تعین
دین ودنیا کی تفریق مٹا دی جائے
تشکیلِ سیرت
عملی نقشہ
ابتدائی تعلیم
ثانوی تعلیم
اعلیٰ تعلیم
اختصاصی تعلیم
لازمی تدابیر
عورتوں کی تعلیم
رسم الخط
انگریزی کا مقام

اسلامی نظامِ تعلیم

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ابتدائی تعلیم

سب سے پہلے ابتدائی تعلیم کو لیجئے جو اس عمارت کی بیناد ہے۔ اس تعلیم میں وہ سب مضامین پڑھائیے جو آج آپ کے پرائمری اسکولوں میں پڑھائے جاتے ہیں اور دنیا میں ابتدائی تعلیم کے متعلق جتنے تجربات کیے گئے ہیں اور آئندہ کیے جائیں گے، ان سب سے فائدہ اٹھائیے لیکن چار چیزیں ایسی ہیں جو اس کے ہر مضمون میں پیوست ہونی چاہئیں۔
اوّل یہ کہ بچے کے ذہن میں ہر پہلو سے یہ بات بٹھائی جائے کہ یہ دنیا خدا کی سلطنت اور ایک خدا کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ یہاں ہم خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے مامور ہیں۔ یہاں جو کچھ بھی ہے خدا کی امانت ہے جو ہمارے حوالے کی گئی ہے۔ اس امانت کے معاملے میں ہم خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔ یہاں ہر طرف، جدھر بھی نگاہ ڈالی جائے، آیاتِ الٰہی پھیلی ہوئی ہیں جو اس بات کا پتہ دے رہی ہیں کہ ایک حکمران ہے جو ان سب پر حکومت کر رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ابتدائی تعلیم کے لیے جس وقت بچہ داخل ہو، اس وقت سے پرائمری اسکول کے آخری مرحلہ تک دنیا سے اس کو آشنا اور روشناس ہی اسی طرز پر کیا جاتا رہے کہ ہر سبق کے اندر یہ تصوّرات شامل ہوں۔ حتیٰ کہ وہ الف سے آٹا یا ایٹم بم نہ سیکھے بلکہ اللہ سیکھے۔ یہ وہ چیز ہے جو بچوں میں اوّل روز سے اسلامی ذہنیت پیدا کرنی شروع کر دے گی اور ان کو اس طرح سے تیار کرے گی کہ آخری مراحلِ تعلیم تک، جب کہ وہ ڈاکٹر بنیں گے یہی بنیاد اور یہی جڑ کام دیتی رہے گی۔
دوم یہ کہ اسلام جن اخلاقی تصوّرات اور اخلاقی اقدار کو پیش کرتا ہے، انہیں ہر مضمون کے اسباق میں حتیٰ کہ حساب کے سوالات تک میں، طرح طرح سے بچوں کے ذہن نشین کیا جائے۔ وہ جن چیزوں کو نیکی اور بھلائی کہتا ہے، ان کی قدر اور ان کے لیے رغبت اور شوق بچوں کے دل میں پیدا کیا جائے۔اور جن کو برائی قرار دیتا ہے، ان کے لیے ہر پہلو سے بچوں کے دل میں نفرت بڑھائی جائے۔ آج ہماری قوم میں جو لوگ رشوتیں کھا رہے ہیں اور طرح طرح کی بددیانتیاں اور خیانتیں کر رہے، وہ سب ان درس گاہوں سے پڑھ کر نکلے ہیں جہاں طوطے مینا اور گائے بیل کے سبق تو پڑھائے جاتے ہیں مگر اخلاقی سبق نہیں پڑھائے جاتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہر طالبِ علم کو جو تعلیم دی جائے اس کی رگ وپے میں اخلاقی مضامین پیوست ہوں۔ اس کے اندر رشوت خوری کے خلاف شدید جذبہ ِنفرت ابھارا جائے۔ اس کے اندر حرام طریقوں سے مال کمانے اور کھانے والوں پر سخت تنقید کی جائے اور اس کے بُرے نتائج بچوں کے ذہن نشین کیے جائیں۔ اس کے اندر جھوٹ سے، دھوکے اور فریب سے، خود غرضی اور نفس پرستی سے، چوری اورجعل سازی سے، بد عہدی اور خیانت سے، شراب اور سود اور قمار بازی سے، ظلم اور بے انصافی اور لوگوں کے حق مارنے سے سخت نفرت دلوں میں بٹھائی جائے اور بچوں کے اندر ایک ایسی رائے عام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ جس شخص میں بھی وہ اخلاقی برائیوں کا اثر پائیں، اس کو بری نگاہ سے دیکھیں اور اس کے متعلق برے خیالات کا اظہار کریں ۔یہاں تک کہ انہی درس گاہوں سے فارغ ہو کر آگے کوئی شخص ایسا نکلے جو ان برائیوں میں مبتلا ہو تو اس کے اپنے ساتھی اس کو لعنت ملامت کرنے والے ہوں، نہ کہ داد دینے اور ساتھ دینے والے۔ اسی طرح ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ نیکیاں جن کو اسلام انسان کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے، ان کو درسیات میں بیان کیا جائے، ان کی طرف رغبت دلائی جائے، ان کی تعریف کی جائے، ان کے اچھے نتائج تاریخ سے نکال نکال کر بتائے جائیں اور عقل سے ان کے فائدے سمجھائے جائیں کہ یہ نیکیاں حقیقت میں انسانیّت کے لیے مطلوب ہیں اور انسانیّت کی بھلائی انہی کے اندر ہے۔ بچوں کو دل نشین طریقے سے بتایا جائے کہ وہ اصلی خوبیاں کیا ہیں جو ایک انسان کے اندر ہونی چاہئیں اورایک بھلا آدمی کیسا ہو کرتا ہے۔ اس میں ان کو صداقت اور دیانت کا، امانت اور پاسِ عہد کا، عدل وانصاف اور حق شناسی کا، ہمدردی اور اخوت کا، ایثار اور قربانی کا، فرض شناسی اور پابندیٔ حدود کا، اکلِ حلال اور ترکِ حرام کا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کھلے اور چھپے ہر حال میں خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرنے کا سبق دیا جائے اور عملی تربیت سے بھی اس امر کی کوشش کی جائے کہ بچوں میں یہ اوصاف نشوونما پائیں۔
سوم یہ کہ ابتدائی تعلیم میں ہی اسلام کے بنیادی حقائق اور ایمانیات بچوں کے ذہن نشین کرا دئیے جائیں۔ اس کے لیے اگر دینیات کے ایک الگ کورس کی ضرورت محسوس ہو تو بنایا جا سکتا ہے، لیکن بہرحال صرف اسی ایک کورس پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ان ایمانیات کو دوسرے تمام مضامین میں بھی روحِ تعلیم کی حیثیت سے پھیلا دیا جائے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہر مسلمان بچے کے دل میں توحید کا عقیدہ، رسالت کا عقیدہ، آخرت کا عقیدہ، قرآن کے برحق ہونے کا عقیدہ، شرک اور کفر اور دہریت کے باطل ہونے کا عقیدہ پوری قوت کے ساتھ بٹھا دیا جائے۔ اور یہ تلقین ایسے طریقے سے ہونی چاہیے کہ بچہ یہ نہ محسوس کرے کہ یہ کچھ دعوے اور کچھ تحکمات ہیں جو ان سے منوائے جا رہے ہیں، بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ یہی کائنات کی معقول ترین حقیقتیں ہیں‘ ان کا جاننا اور ماننا انسان کے لیے ضروری ہے، اور ان کو مانے بغیر آدمی کی زندگی درست نہیں ہو سکتی۔
چہارم یہ کہ بچے کو اسلامی زندگی بسر کرنے کے طریقے بتائے جائیں اور اس سلسلے میں وہ تمام فقہی مسائل بیان کر دئیے جائیں جو ایک دس برس کے لڑکے اور لڑکی کو معلوم ہونے چاہئیں۔ طہارت وپاکیزگی کے احکام، وضو کے مسائل، نماز اور روزے کے طریقے، حرام اور حلال کے ابتدائی حدود، معاشرتی زندگی کے پسندیدہ اطوار، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر مسلمان بچے کو معلوم ہونی چاہئیں۔ ان کو صرف بیان ہی نہ کیا جائے بلکہ ایسے طریقے سے ذہن نشین کیا جائے جس سے بچے یہ سمجھیں کہ ہمارے لیے یہی احکام ہونے چاہئیں، یہ احکام بالکل برحق ہیں اور ہم کو ایک ستھری اور پاکیزہ زندگی بسر کرنے کے لیے ان احکام کا پابند ہونا چاہیے۔

شیئر کریں