یہاں تک جو کچھ کہا گیا ہے اس کا تعلق افراد کی تربیت سے تھا۔ اب روزے کے اجتماعی پہلو کی طرف توجہ کرنے سے پہلے ایک مجموعی نظر انفرادی تربیت کے اس پروگرام پر ڈال لیجیے۔
جیسا کہ پہلے بیان کر چکا ہوں، اسلام کا اصل مقصد صالحین کی ایسی جماعت بنانا ہے جو انسانی تمدن کو خیر و صلاح کی بنیادوں پر تعمیر کرے۔ مگر اس غرض کے لیے وہ صرف اجتماعی اصول وضع کرنے اور ان اصولوں کی بنیاد پر ایک نظام تمدن بنا دینے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ ساتھ ساتھ اپنے جماعتی نظام کے لیے افراد کو تیار کرنے کا بھی انتظام کرتا ہے تاکہ جماعت (سوسائٹی) جن افراد پر مشتمل ہو ان میںکا ایک ایک شخص اپنے خیالات، اپنی سیرت اور اپنے کردار کے لحاظ سے اس نظام کے ساتھ بیش از بیش موافقت رکھتا ہو، اور باغیانہ میلانات کے ساتھ مجبورانہ اطاعت کرنے کے بجائے اپنے نفس و روح کی پوری آمادگی ، اپنے دل و دماغ کے مخلصانہ عقیدے، اور اپنی سیرت کی ذاتی قوت کے ساتھ اس کی پیروی کرے۔ اس اسکیم میں روزے کے رکن سے جو کام لیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ:
۱۔ اس تربیت کے ذریعہ سے جماعت کے ہر فرد کو خداوند عالم کی حاکمیت کے مقابلہ میں خود مختاری سے عمدًادست بردار ہو جانے کے لیے تیار کیا جائے، تاآں کہ وہ اپنی پوری زندگی کو الٰہی قانون کے تابع کردے۔
۲۔ ہر فرد کے ذہن میں خدا کے عالم الغیب و الشہادہ ہونے کا اور آخرت کی باز پرس کا عقیدہ عملی مشق و تمرین کے ذریعہ سے اس طرح جاگزیں کر دیا جائے کہ وہ خود اپنی شخصی ذمہ داری کے احساس کی بنا پر، نہ کہ کسی خارجی دبائو کی وجہ سے قانون الٰہی کی خفیہ اورعلانیہ اطاعت کرنے لگے۔
۳۔ ہر فرد کے اندر یہ روح پھونک دی جائے کہ وہ ماسوا اللہ کی بندگی و اطاعت کے اعتقادًا و عملاً منکر ہو جائے اور اس کی بندگی اللہ کے لیے اس طرح خالص ہو جائے کہ جس حکم یا جس قانون یا جس اقتدار کے لیے اس کی طرف سے کوئی سند نہ ہو، اس کی اطاعت کے لیے فرد مومن کے نفس میں کوئی آمادگی بھی نہ ہو۔
۴۔ ہر فرد کی اخلاقی تربیت اس طور پر کی جائے کہ اسے اپنی خواہشات پر عملاً پورا اقتدار حاصل ہو، وہ اپنے نفس و جسم کی تمام قوتوں پر اتنا قابو رکھتا ہو کہ اپنے عقیدے اور علم و بصیرت کے مطابق ان سے کام لے سکے۔ اس میں صبر، تحمل، جفا کشی، توکل علی اللہ اور ثابت قدمی و یک سوئی کی صفات پیدا ہو جائیں اور اس کے کیریکٹر میں اتنی قوت آجائے کہ وہ خارجی ترغیبات اور اپنے نفس کے ناجائز میلانات کا مقابلہ کرسکے۔
یہی وہ مقاصد ہیں جن کے لیے اسلام نے رمضان کے روزے ہر اس شخص پر فرض کیے ہیں جو اسلامی جماعت کا رکن ہو۔ کوئی عاقل و بالغ فرد، خواہ وہ عورت ہو یا مرد، اس فریضہ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ بیماری، سفر اور بعض دوسرے شرعی عذرات کی بنا پر کوئی شخص اس فرض کو ادا نہ کرسکتا ہو تو اس پر قضا یا فدیہ لازم ہے۔ بہرحال اسلام کے دائرے میں رہ کر کوئی انسان روزے کی فرضیت سے چھوٹتا نہیں ہے۔
اگرچہ یہ لازم نہیں کہ روزے کی تربیت سے تمام افراد کے اندر وہ خصوصیات بدرجہ اتم پیدا ہو جائیں جو اس سے پیدا کرنا مطلوب ہیں، کیوں کہ ان کی پیدائش اور تکمیل کے لیے خود تربیت لینے والے میں ذاتی استعداد بھی ضروری ہے، لیکن بجائے خود اس نظام تربیت کی فطرت میں یہ خاصہ موجود ہے کہ اس سے یہ خصوصیات انسان میں پیدا ہوں اور ان خصوصیات کو پیدا کرنے کے لیے اس سے بہتر، بلکہ اس کے سوا کوئی دوسرا نظام تربیت تجویز نہیں کیا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص صداقت پسندی کی نظر سے دیکھے تو اسے اعتراف کرنا پڑے گا کہ دنیا میں اسلام کے سوا کوئی اجتماعی نظام ایسا نہیں ہے جس نے افراد کو تیار کرنے کا اتنا وسیع و ہمہ گیر انتظام کیا ہو کہ پوری کی پوری آبادیاں اس کے دائرے میں آکر خود بخود اخلاقی تربیت پاتی چلی جائیں۔
پھر اس کا مزید کمال یہ ہے کہ سوسائٹی کے حدود میں اگر کوئی فرد ایسا ناقص نکل آئے کہ اس اجتماعی نظام کا جزو بن کر نہ رہ سکتا ہو، تو خودبخود الگ ممتاز ہو جاتا ہے۔ جہاں اس نے بغیر عذر شرعی کے روزہ ترک کیا اور فورًاہی یہ بات سوسائٹی میں آشکارا ہوگئی کہ اس کے درمیان ایک منافق موجود ہے جو خدا کی حاکمیت تسلیم نہیں کرتا اور اپنی حیوانی جبلت کا بندہ بن کر رہنا چاہتا ہے۔ اس صریح علامت سے سوسائٹی کو اپنے جسم میں ایک سڑے ہوئے عضو کی موجودگی کا بروقت علم ہو جاتا ہے، اور اسے موقع مل جاتا ہے کہ اپنے آپ کو اس کے زہر سے محفوظ کرے۔ کم از کم اسلام نے اپنی حد تک منافقین کی نشان دہی کا پورا انتظام کر دیا ہے اور ہر مسلم سوسائٹی کے لیے اس بات کا موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ عین وقت پر ان کے وجود سے آگاہ ہو کر یا تو ان کی اصلاح کرے یا انھیں اپنے دائرے سے خارج کردے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ کوئی بے حس نام نہاد مسلم سوسائٹی اس موقع سے فائدہ اٹھائے اور ایسے لوگوں کو نہ صرف اپنی گود میں پرورش کرے بلکہ انھیں اپنے سر پر بٹھائے اور زندہ باد کے نعرے لگائے۔