Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
عرض ناشر
حقیقت عبادت
نماز
فرض شناسی
تعمیر سیرت
ضبط ِ نفس
افراد کی تیاری کا پروگرام
تنظیمِ جماعت
نماز باجماعت
مسجد میں اجتماع
صف بندی
اجتماعی دُعائیں
امامت
روزہ
روزے کے اثرات
اِحساس بندگی
اِطاعت امر
تعمیر سیرت
ضبط نفس
انفرادی تربیت کا اجمالی نقشہ
روزے کا اجتماعی پہلو
تقوٰی کی فضا
جماعتی احساس:
امداد باہمی کی روح

اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر

ریڈ مودودی ؒ کی اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

نماز باجماعت

نماز انفرادی سیرت کی تعمیر کے ساتھ یہ کام بھی کرتی ہے۔ وہ اس اجتماعی نظام کا پورا ڈھانچا بناتی ہے، اسے قائم کرتی اور قائم رکھتی ہے، اور اسے روزانہ پانچ مرتبہ حرکت میں لاتی ہے تاکہ وہ ایک مشین کی طرح چلتا رہے۔ اسی لیے پنج وقتہ نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ شریعت کی رو سے ایک ایک شخص الگ الگ نماز پڑھ کر فرض سے سبک دوش تو ہوسکتا ہے، مگر وہ گناہ گار ہوگا اگر قصدًابلا عذر مسجد میں حاضر ہو کر جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھے۔
جماعت کی اس تاکید کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں کا نظام اجتماعی اپنی صحیح صورت پر قائم اور متحرک رہے۔ مسجد کا پنج وقتہ اجتماع مسلمانوں کے نظام اجتماعی کی بنیاد ہے۔ اس بنیاد کی مضبوطی پر اس پورے نظام کی مضبوطی منحصر ہے۔ ادھر یہ کم زور ہوئی اور ادھر سارا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔
اذان
حکم ہے کہ اذان کی آواز سنتے ہی اُٹھ جائو اور اپنے اپنے کام چھوڑ کر مسجد کی طرف رخ کرو۔ اس طلبی کی پکار سن کر ہر طرف سے مسلمانوں کا ایک مرکز کی طرف دوڑنا وہی کیفیت اپنے اندر رکھتا ہے جو فوج کی ہوتی ہے۔ فوج کے سپاہی جہاں جہاں بھی ہوں، بگل کی آواز سنتے ہی سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا کمانڈر ہمیں بلا رہا ہے۔ اس طلبی پر سب کے دل میں ایک ہی کیفیت پیدا ہوتی ہے یعنی کمانڈر کے حکم کی پیروی کا خیال، اور اس خیال کے آتے ہی سب ایک ہی کام کرتے ہیں۔ یعنی اپنے اپنے کام چھوڑ کر اٹھنا اور ہر طرف سے سمٹ کر ایک ہی جگہ جمع ہو جانا۔ فوج میں یہ طریقہ کس لیے رکھا گیا ہے؟ اس لیے کہ اول تو ہر ہر سپاہی میں فردًا فردًاحکم ماننے اور اس مستعدی کے ساتھ عمل کرنے کی خصلت و عادَت پیدا ہو، اور اس کے ساتھ ہی ایسے تمام فرماں بردار سپاہی مل کر ایک گروہ، ایک جتھا، ایک ٹیم بن جائیںاور ان میں یہ عادت پیدا ہو جائے کہ کمانڈر کا حکم پاتے ہی ایک وقت میں ایک جگہ سب مجتمع ہو جایا کریں تاکہ جب کوئی مہم پیش آئے تو ساری فوج ایک آواز میں ایک مقصد کے لیے اکٹھے ہو کر کام کر سکے۔ فوجی اصطلاح میں اسے سرعتِ اجتماع (mobility)کہتے ہیں اور یہ فوجی زندگی کی جان ہے۔ اگر کسی فوج میں اس طرح مجتمع ہونے کی صلاحیت نہ ہو، اور اس کے سپاہی ایسے خود سرہو ں کہ جس کا جدھر منہ اٹھتا ہو ادھر چلا جاتا ہو، تو خواہ ایسی فوج کا ایک ایک سپاہی تیس مار خاں ہی کیوں نہ ہو وہ کسی مہم کو سر نہیں کرسکتی۔ اس قسم کے ایک ہزار بہادر سپاہیوں کو دشمن کے پچاس سپاہیوں کا ایک منظم دستہ الگ الگ پکڑ کر ختم کر سکتا ہے۔ ٹھیک اسی مصلحت کی بنا پر مسلمانوں کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کر دیا گیا ہے کہ جو مسلمان جہاں بھی اذان کی آواز سنے، سب کام چھوڑ کر اپنے قریب کی مسجد کا رخ کرے۔ اس اجتماع کی مشق انھیں روزانہ پانچ وقت کرائی جاتی ہے، کیوں کہ اس خدائی فوج کی ڈیوٹی دنیا کی ساری فوجوں سے زیادہ سخت ہے جیسا کہ اُوپر اشارہ کیا جاچکا ہے۔ دُوسری فوجوں کے لیے تو مدتوں میں کبھی ایک مہم پیش آتی ہے اور اس کی خاطر انھیں یہ ساری فوجی مشقیں کرائی جاتی ہیں، مگر اس خدائی فوج کو تو ہر وقت ایک مہم درپیش ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ یہ بھی بہت بڑی رعایت ہے کہ اسے دن رات میں صرف پانچ مرتبہ ہی خدائی بگل کی آواز پر دوڑنے اور خدائی چھائونی یعنی مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

شیئر کریں