اب ہمیں نماز کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالنی چاہیے۔ یہ ظاہر ہے کہ انفرادی سیرت تنہا کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکتی جب تک کہ جماعت (community)میں بھی وہی سیرت موجود نہ ہو۔ فرد اپنے نصب العین (ideal) کو پا ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ لوگ جن کے درمیان وہ زندگی بسر کر رہا ہے، اس نصب العین تک پہنچنے میں اس کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ فرد جن اصولوں پر ایمان رکھتا ہے، ان کے مطابق تنہا عمل کرنا اس کے لیے ناممکن ہے، تاوقتیکہ پوری جماعتی زندگی انھی اصولوں پر قائم نہ ہو جائے۔ آدمی دنیا میں اکیلا پیدا نہیں ہوا ہے، نہ اکیلا رہ کر کوئی کام کرسکتا ہے، اس کی ساری زندگی اپنے بھائی بندوں، دوستوں اور ہم سایوں، معاملہ داروں اور زندگی کے بے شمار ساتھیوں کے ساتھ ہزاروں قسم کے تعلقات میں جکڑی ہوئی ہے۔ دنیا میں وہ خدا کی طرف سے مامور اسی پر کیا گیا ہے کہ اس اجتماعی زندگی اور ان اجتماعی تعلقات میں خدا کے قانون کو جاری کرے۔ اس قانون پر عمل کرنے اور اسے نافذ کرنے کا نام ہی عبادت ہے۔ اگر آدمی ایسے لوگوں کے درمیان گھرا ہوا ہو جو اس قانون کو مانتے ہی نہ ہوں، یا سب کے سب اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں، یا ان کے باہمی تعلقات اس طرح کے ہوں کہ اسے جاری کرنے میں وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اکیلے آدمی کے لیے خود اپنی زندگی میں بھی اس پر عمل کرنا غیر ممکن ہے۔ کجا کہ وہ جماعتی زندگی میں اسے نافذ کرسکے۔
علاوہ بریں مسلمان کے لیے یہ دنیا سخت جدوجہد، مقابلہ اور کش مکش کا معرکۂ کارزار ہے۔ یہاں خدا سے بغاوت کرنے والوں کے بڑے بڑے جتھے بنے ہوئے ہیںجو انسانی زندگی میں خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کو پوری قوت کے ساتھ جاری کر رہے ہیں اور ان کے مقابلہ میں مسلمان پر یہ ذمہ داری، بھاری، کمر توڑنے والی ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ یہاں خدا کے قانون کو پھیلائے اور جاری کرے، انسان کے بنائے ہوئے قوانین جہاں جہاں چل رہے ہیں انھیں مٹائے اور ان کی جگہ اللہ وحدہ‘ لاشریک لہ‘ کے قانون کی حکومت قائم کرے۔ یہ زبردست خدمت جو مسلمان کے سپرد کی گئی ہے، اسے باغی جتھوں کے مقابلہ میں کوئی اکیلا مسلمان انجام نہیں دے سکتا۔ اگر کروڑوں مسلمان بھی دنیا میں موجود ہوں، مگر الگ الگ رہ کر انفرادی کوشش کریں، تب بھی وہ مخالفین کی منظم طاقت کے مقابلہ میں کام یاب نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ سارے بندے جو خدا کی عبادت کرنا چاہتے ہیں، ایک جتھا بنیں، ایک دوسرے کے مدد گار ہوں، ایک دوسرے کی پشت پناہ بن جائیں اور مل کر اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔
ان دونوں اغراض کے لیے مسلمانوں کا صرف مل جانا ہی کافی نہیں، بلکہ یہ ملنا صحیح طریق پر ہونا چاہیے۔ صرف اجتماعی نظام پیدا ہو جانا کافی نہیں بلکہ ایک صالح اجتماعی نظام درکار ہے جس میں مسلمان اور مسلمان کا تعلق ٹھیک ٹھیک ویسا ہی ہو جیسا کہ اسلام چاہتا ہے۔ ان کے درمیان مساوات ہو، محبت اور ہم دردی ہو یک جہتی اور وحدت فی العمل (unity in action)ہو، سب کے اندر خدا کی بندگی کرنے کا مشترک ارادہ نہ صرف موجود ہو، بلکہ پیہم متحرک رہے اور اجتماعی حرکت کرنے کی عادت ان کی طبیعت ثانیہ بن جائے۔ ان میں سے ہر ایک یہ جانتا ہو کہ جب وہ لیڈر بنے تو جماعت میں اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے اور جب کوئی دوسرا ان کا لیڈر ہو تو وہ کس طرح ان کی اطاعت کریں۔ کس طرح اس کے حکم پر حرکت کریں، کہاں تک اس کی فرماں برداری ان پر واجب ہے، کہاں انھیں اسے ٹوکنا چاہیے، اور کس حد پر پہنچ کر وہ ان کی اطاعت کا مستحق نہیں رہتا۔