اس نظام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا اصولوں پر سوسائٹی کی فلاح و بہبود کا بہترین کام اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ افراد کو بلا کسی قید و بند کے آزادانہ کام کرنے کا موقع حاصل ہو۔ فطرت نے معاشی قوانین میں ایک ایسی ہم آہنگی رکھ دی ہے کہ جب وہ سب مل جل کر کام کرتے ہیں تو نتیجے میں سب کی بھلائی حاصل ہوتی ہے حالانکہ ایک فرد اپنے ہی ذاتی نفع کے لیے سعی کر رہا ہوتا ہے جیسا کہ اوپر دکھایا جاچکا ہے، جب افراد کو اپنی سعی کا صلہ غیر محدود منافع کی شکل میں ملتا نظر آتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ دولت پیدا کرنے کے لیے اپنی ساری قوت و قابلیت صرف کر دیتے ہیں۔ اس سے لامحالہ سب لوگوں کے لیے اچھے سے اچھا مال وافر سے وافر مقدار میں تیار ہوتا ہے، کھلے بازار میں جب تاجروں اور صناعوں اور خام پیداوار بہم پہنچانے والوں کا مقابلہ ہوتا ہے تو قیمتوں کا اعتدال آپ سے آپ قائم ہوتا ہے، اشیاء کا معیار آپ سے آپ بلند ہوتا جاتا ہے اور خود ہی معلوم ہوتا رہتا ہے کہ سوسائٹی کو کن چیزوں کی کتنی ضرورت ہے۔ اس سارے کاروبار میں ریاست کا کام یہ نہیں ہے کہ پیدائش دولت کے فطری عمل میں خواہ مخواہ مداخلت کرکے اس کا توازن بگاڑے، بلکہ اس کا کام صرف یہ ہے کہ ایسے حالات پیدا کرے جن میں انفرادی آزادی عمل زیادہ سے زیادہ محفوظ ہوسکے۔ اسے امن اور نظم قائم کرنا چاہیے، حقوق ملکیت کی حفاظت کرنی چاہیے، معاہدوں کو قانون کے زور سے پورا کرنا چاہیے اور بیرونی حملوں، مزاحمتوں اور خطروں سے ملک کو اور ملک کے کاروبار کو بچانا چاہیے۔ ریاست کا منصب یہ ہے کہ منصف اور نگران اور محافظ کی خدمت انجام دے، نہ یہ کہ خود تاجر اور صناع اور زمیندار بن بیٹھے، یا تاجروں اور صناعوں اور زمینداروں کو اپنی بار بار کی خلل اندازی سے کام نہ کرنے دے۔