نظام سرمایہ داری کے وکیل کہتے ہیں کہ جب کاروبار میں منافع کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ لاگت کم اور پیداوار زیادہ ہو، تو کاروباری آدمی کو اس کا اپنا ہی مفاد اس بات پر مجبور کرتا رہتا ہے کہ پیداوار بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ بہتر سائنٹیفک طریقے اختیار کرے، اپنی مشینوں اور آلات کو زیادہ سے زیادہ اچھی حالت میں رکھے، خام مواد بڑی مقدار میں کم قیمت پر حاصل کرے اور اپنے کاروبار کے طریقوں کو اور اپنی تنظیمات کو ترقی دینے میں ہر وقت دماغ لڑاتا رہے۔ یہ سب کچھ کسی بیرونی مداخلت اور مصنوعی تدبیر کے بغیر، بے قید معیشت کی اندرونی منطق خود ہی کراتی چلی جاتی ہے۔ فطرت کے قوانین کثیر التعداد منتشر افراد اور گروہوں کی انفرادی سعی و عمل سے اجتماعی ترقی اور خوشحالی کا وہ کام آپ ہی آپ لیتے رہتے ہیں جو کسی اجتماعی منصوبہ بندی سے اتنی خوبی کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ یہ فطرت کی منصوبہ بندی ہے جو غیر محسوس طور پر عمل میں آتی ہے۔