تجربے اور تحقیق سے یہ خیال غلط ثابت ہو چکا ہے کہ ضبط ِولادت معاشی حیثیت سے مفید ہے۔ اب معاشیات کے ماہرین میں یہ خیال روز بروز ترقی کرتا جا رہا ہے کہ آبادی کی تقلیل معاشی انحطاط (Economic Depression)کے نہایت قوی اسباب میں سے ہے۔ اس لیے کہ شرح پیدائش کے گھٹنے سے پیدآور آبادی (Producing Population)کم ہو جاتی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پید آور آبادی میں بے کاری بڑھتی چلی جائے۔ پیدآور آبادی صرف جوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ برعکس اس کے خرچ کرنے والی آبادی میں بوڑھے، بچے اور معذور لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جن کا پیدآوری میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اگر ان کی تعداد گھٹ جائے تو مجموعی طور پر خرچ کرنے والوں میں بھی کمی واقع ہو گی۔ مال کے خریدار کم ہو جائیں گے تو اسی نسبت سے مال تیار کرنے والوں کو کم کام ملے گا۔ اسی وجہ سے جرمنی اور اٹلی کے ماہرین ِمعاشیات کا ایک موثر گروہ خاص طور پر توفیر آبادی کے لیے زور دیتا رہا ہے۔
اور اب برطانوی اور امریکی ماہرین میں سے بھی ایک طبقہ اس رائے کو پیش کر رہا ہے۔ اس سلسلہ میں لارڈ کینز (Lord Keynes) اور پروفیسرایچ ہینسن (Alvin H Hansen) پروفیسر کولن کلارک اور پروفیسر جی۔ ڈی۔ ایچ۔ کول (G.D.H.Cole) کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
کینس ہینس مکتب فکر کے نقطہ نظر کو پروفیسر جوزف اسپینگلر (Joseph Spengler) اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’پس معلوم ہوا کہ آبادی میں تیز رفتار اضافہ (upsurge) معاشی سرگرمی کو تیز تر کر دیتا ہے، خصوصیت سے اس حالت میں جب کہ وسعت اختیار کرنے والی قوتیں (expansive forces) سکڑنے والی قوتوں (contractive forces) کے مقابلہ میں زیادہ قوی ہوں، نیز یہی چیز برعکس حالت میں بھی ہو گی…… ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کینس اور ہینسن کی یہ دلیل (thesis) کہ نیم بے روزگاری میں اضافہ رفتارِ شرحِ اضافہ آبادی میں مسلسل کمی کا نتیجہ ہے اب کافی قبولیت عامہ حاصل کر چکی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ اضافۂ آبادی کے حجم میں مستقل کمی{ FR 7180 } ایک طرف اس سرمایہ کاری (investment) کی ضرورت میں کمی کی موجب ہو گی جو اضافۂ آبادی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہوتی ہے اور دوسری طرف اور بھی متعدد سرمایہ کارانہ سرگرمیوں پر برا اثر ڈالے گی۔ جیسے جیسے شرح اضافۂ آبادی گرتا ہے۔ اُس شرح سے سرمایہ کاری میں بھی کمی واقع ہوتی چلی جاتی ہے جو معیاری روزگار (full employment)سے وابستہ ہے۔‘‘{ FR 7184 }
کولن کلارک لکھتا ہے:
’’جدید معاشرہ میں بیشتر صنعتیں غالباً اضافۂ آبادی سے ہی مستفید ہوں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ معاشی ادارے کچھ اس طرح کام کر رہے ہیں کہ اگر آبادی میں اضافہ ہو اور مارکیٹ کا سائز بڑھ جائے تو تنظیم کچھ زیادہ کفایت شعارانہ ہو جائے گی اور فی کس پیداوار بڑھ جائے گی، کم نہیں ہو گی۔ اگر شمالی امریکہ اور مغربی یورپ کی کثیر اور گنجان آبادی نہ ہوتی تو جدید صنعتوں کا ایک بڑا حصہ سخت مشکلات سے دوچار ہوتا اور مصارفِ پیداوار بہت بڑھ جاتے… بلکہ یہ بھی محل نظر ہے کہ ان حالات میں یہ صنعتیں وجود میں بھی آتیں۔‘‘{ FR 7200 }
ضبط ولادت کے نقصانات کی یہ تفصیل جو سراسر حقائق پر مشتمل ہے، اس آیت پاک کی ایک جزئی تفسیر ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
﴿قَدْ خَسِرَ الَّذِيْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ ( الانعام20: 140)
وہ لوگ ٹوٹے میں پڑ گئے جنہوں نے اپنی اولاد کو نادانی سے بغیر سمجھے بوجھے ہلاک کر دیا اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حرام کر لیا۔
نیز اس آیت کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھ میں آ جاتا ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ:
﴿وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْہَا وَيُہْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ۰ۭ﴾
(البقرہ 205:2)
اور جب وہ صاحب اختیار ہوا تو اس نے زمین میں فساد پھیلانے اور کھیتی اور نسل کو ہلاک کرنے کی تدبیریں کیں۔
مباحثِ مذکورہ بالا کو پیش ِنظر رکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حرث (کھیتی) اور نسل کی بربادی کو فساد فی الارض سے کیوں تعبیر فرمایا ہے۔ پھر اس بحث سے آپ اس آیت کا مفہوم بھی خوب سمجھ سکتے ہیں کہ جس میں ارشاد ہوا ہے کہ:
﴿وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِيَّاكُمْ۰ۭ اِنَّ قَتْلَہُمْ كَانَ خِطْاً كَبِيْرًاo ﴾ (بنی اسرائیل 31:17)
اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ان کو رزق دینے والے بھی ہم ہی ہیں اور تم کو بھی۔ ان کو قتل کرنا ایک بڑی خطا ہے۔
یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ معاشی مشکلات کے خوف سے اولاد کی تعداد گھٹانا محض ایک حماقت ہے۔
اس کے بعد ہم کو ان دلائل سے بحث کرنی ہے جو ضبط ِ ولادت کی تائید میں پیش کیے جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ہم اُن احادیث کی صحیح تفسیر بھی بیان کریں گے جن سے ضبط ِولادت کے موافقت میں استدلال کیا جا سکتا ہے۔
ضبط ِولادت کی تائید میں جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں ان میں سے اکثر وبیشتر ان حالات پرمبنی ہیں جو مغربی تہذیب وتمدن نے پیدا کیے ہیں۔ حامیان ضبط ِولادت کا طریق فکر یہ ہے کہ تمدن ومعاشرت کے یہ اطوار اور تہذیب کے یہ طریقے، اور معیشت کے یہ اصول تو ناقابلِ تغیر ہیں، البتہ ان سے جو مشکلات پیدا ہوتی ہیں ان کو ضرور حل کرنا چاہیے، اور ان کا آسان حل یہی ہے کہ افزائشِ نسل کو روک دیا جائے لیکن ہم کہتے ہیں کہ تم تمدن وتہذیب کے اسلامی اصول اورمعیشت ومعاشرت کے اسلامی قوانین اختیار کرکے ان مشکلات ہی کو پیش آنے سے روک دو جنھیں حل کرنے کے لیے تم کو قوانینِ فطرت کے خلاف جنگ کرنی پڑتی ہے۔
اس مسئلہ پر گزشتہ صفحات میں کافی بحث کی جا چکی ہے۔ لہٰذا اب ہم صرف ان دلائل سے بحث کریں گے جو مخصوص حالات پر نہیں بلکہ عام انسانی حالات پر نظر کرکے حامیانِ ضبطِ ولادت نے اپنی کتابوں اور تقریروں میں بیان کیے ہیں۔
\ \ \