اسلام معاشرے اور ریاست کے ذمّے یہ فرض عائد نہیں کرتا کہ وہ اپنے افراد کو روزگار فراہم کرے۔ اس لیے کہ فراہمی روزگار کی ذمہ داری بغیر اس کے نہیں لی جاسکتی کہ ذرائع پیداوار پر اجتماعی قبضہ یا کم از کم نازی طرز کا تسلط ہو، اور اس کی غلطی و مضرت پہلے بتائی جاچکی ہے۔ لیکن اسلام اس کو بھی صحیح نہیں سمجھتا کہ اجتماعی زندگی میں افراد کو بالکل ان کے اپنے ہی ذرائع اور اپنے ہی حالات پر چھوڑ دیا جائے اور آفت رسیدہ لوگوں کی خبر گیری کا کوئی بھی ذمہ دار نہ ہو۔ وہ ایک طرف ہر انسان پر فرداً فرداً یہ اخلاقی فریضہ عائد کرتا ہے کہ وہ اپنے اور پرائے جس فرد بشر کو بھی مدد کامحتاج پائے اس کی مدد اپنی حد استطاعت تک ضرور کرے۔ دوسری طرف صناعوں، تاجروں اور زمینداروں سے بھی یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں جن لوگوں سے وہ کام لیتے ہیں ان کے حقوق ٹھیک ٹھیک ادا کریں۔ اور اس سب پر مزید یہ کہ وہ پورے معاشرے اور ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ اس کے حدود عمل کے اندر رہنے والا کوئی شخص کم سے کم ضروریات زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ معاشرے کے اندر جو لوگ بے روزگار ہوجائیں، یا کسی عارضی سبب سے ناقابل کار ہوں یا کسی مستقل وجہ سے ناکارہ ہوجائیں یا کسی حادثے اور آفت کے شکار ہوں ان سب کو سہارا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ وہ بچے جن کا کوئی سرپرست نہیں، ان کی سرپرستی کرنا ریاست کا فرض ہے۔ حد یہ ہے کہ جو شخص قرضدار ہو اور اپنا قرض ادا نہ کرسکے اس کا قرض بھی بالآخر ریاست پر جا پڑتا ہے۔ یہ سوشل انشورنس کی ایک وسیع ترین اسکیم ہے جو براہ راست ریاست کے انتظام میں روبعمل آنی چاہیے، اس کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کا انتظام اسلام حسب ذیل طریقہ پر تجویز کرتا ہے:
-1 ہر شخص جس نے ایک مقرر نصاب سے زائد سرمایہ جمع کر رکھا ہو، اپنے سرمایہ کا اڑھائی فی صدی حصہ سالانہ زکوٰۃ میں دے۔
-2 ہر زمیندار و کاشت کار اپنی بارانی زمینوں کی پیداوار کا 10 فی صدی اور چاہی و نہری زمینوں کی پیداوار کا 5 فی صدی حصہ اس مد میں ادا کرے۔
-3 ہر صناع اور تاجر ہر سال کے اختتام پر اپنے اموال تجارت کی مالیت کا اڑھائی فی صدی حصہ دے۔
-4 ہر گلہ بان جو ایک خاص مقصدار نصاب سے زیادہ مویشی رکھتا ہو، ایک خاص تناسب کے مطابق اپنی حیوانی دولت کا ایک حصہ ہر سال حکومت کے حوالہ کردے۔
-5 معدنیات اور دفینوں میں سے بھی خمس لیا جائے۔
-6 اور کوئی جنگ پیش آئے تو اموال غنیمت میں سے 20 فیصدی حصہ ان اغراض کے لیے الگ کرلینا چاہیے۔
یہ پوری دولت ان مصارف کے لیے وقف ہوگی جو قرآن مجید میں زکوٰۃ اور خمس کے لیے مقرر کئے گئے ہیں جن ایک جزو اعظم سوشل انشورنس کی وہ اسکیم ہے جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ (۱)